آج بروز جمعہ ۲۷؍ اپریل ۲۰۱۲ء کودوپہر بعد چار بجے کرناٹک اردو
اکیڈمی نے اردو کے نہایت غیرجانبدار رسالے کے ’’ماہنامہ شاعر‘‘ بمبئی کے ہر دل عزیز
مدیر اور نیک انسان جناب افتخار امام صدیقی کی آمد پر محمود ایاز لائبریری میں ایک
شاندار اعزازی جلسے کا اہتمام کیا۔
اس جلسے میں ریاست کے کئی اہم شعرا
اور ادبا کے علاوہ کئی اہم صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ جب کہ شعر وادب سے دلچسپی رکھنے
والے لوگوں کی بھی کثیر تعداد ہال میں موجود تھی۔
ریاست کرناٹک کے جوان رعنا شاعر غفران
امجد نے مہمانوں کا استقبال کیا اور جناب افتخار امام صدیقی صاحب کی شخصیت اور ان کی
خدمات کا اجمالی تعارف پیش کیا۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا بنگلور کے
ایڈیٹر اسجد نواز نے افتخار امام صدیقی کی آمد، اور کرناٹک اردو اکیڈمی کے اعزاز پر
اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ اور صدیقی صاحب کو ادب دوست مدیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدیقی
صاحب نے فنکاروں کے مستور ہونے کے جوبات کہی تھی وہ سچ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی
محبت سے فضا بدل رہی ہے۔ قاسم سید جو خود بھی روزنامہ راشٹریہ سہارا دہلی سے منسلک
ہیں۔ انہوں نے بھی افتخار امام صدیقی کی مدیرانہ صلاحیت اور تخلیقیت شناسی کا اعتراف
کیا اور اکیڈمی کے اس اقدام کو نیک فال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یاد پڑتا ہے
کہ جب میں چھوٹا تھا تو میرے والد مجھے کبھی کبھار مشاعرے میں لے جایا کرتے تھے۔ اسی
زمانے میں میں نے ایک مشاعرے میں جناب افتخار امام صدیقی صاحب کو سنا، ان کا انداز
اور ان کا ترنم آج بھی میری سماعت میں محفوظ ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدیقی صاحب
پیشہ ور شاعر نہیں ہیں۔ وہ واقعی ایک فنکار ہیں، اور فنکارانہ شان سے زندگی جیتے ہیں۔
انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب مجھے کرناٹک اردو اکیڈمی کے بجٹ اور
عملے کا علم ہوا تو مجھے بے حد افسوس ہوا۔ دہلی اردو اکیڈمی کا بجٹ آٹھ کروڑ ہے اور
عملے کی فراوانی ہے۔ یہ یقیناًحیرت انگیز بات ہے کہ کرناٹک اردو اکیڈمی اتنے کم بجٹ
اور نہ کے برابر عملے کے ساتھ اتنے بڑے بڑے کارنامے انجام دے رہی ہے۔
حافظ کرناٹکی چیرمین کرناٹک اردو
اکیڈمی نے افتخار امام صدیقی کی آمد پر منظوم خراج تحریر کیا جسے ریاست کے مشہور سنگر
جناب حمید اکبر صاحب نے گاکر سنایا۔
جناب افتخار امام صدیقی نے کرناٹک
کی ادبی صورت حال پر نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بڑی بات ہے کہ کرناٹک
میں دوسری ریاستوں کی بہ نسبت شعرو ادب کا ماحول نہایت خوشگوار ہے۔ انہو ں نے کرناٹک
اردو اکیڈمی کے کاموں کی بھی ستائش کی اور کہا کہ مہاراشٹر اردو اکیڈمی کی کارکردگی
کی بہ نسبت کرناٹک اردو اکیڈمی کی کاکردگی نہایت ہی تشفی بخش ہے۔ انہوں نے حافظ کرناٹکی
ادبی خدمات کابھی ضمنی طور پر ذکر کیا۔ اور اکیڈمی کو فعال بنانے کے لیے انہیں مبارکباد
دی۔
اس موقع سے حافظ کرناٹکی صاحب کا
لکھا ہوا ایک بڑا سپاس نامہ بھی جناب صدیقی صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا۔
آخر میں حافظ کرناٹکی صاحب نے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ
آج کا دن ہمارے لیے بڑا قیمتی اور
قابل افتخار ہے۔ کیوں کہ آج ہمارے درمیان محترمی افتخار امام صدیقی صاحب تشریف فرما
ہیں۔
حضرت افتخار امام صدیقی صاحب محض
ایک تاریخ ساز مدیر کا ہی نہیں بلکہ ایک لازوال تاریخ کا نام ہے جسے اردو دنیا کبھی
فراموش نہیں کرسکے گی۔ علامہ سیماب اکبرآبادی کے گھرانے کے اس روشن چراغ سے میرا تعارف
آفاق عالم صدیقی نے کرایا۔ یہ تعارف ہمارے لیے نیک فال ثابت ہوا۔ کیوں کہ میں نے پایا
کہ افتخار امام صدیقی صاحب محض ایک مدیر اور شاعر ہی نہیں بلکہ ایک نہایت ہی مخلص،
فن شناس، اور نورایمانی سے منور اس شخصیت کا نام ہے جس کی قربت کسی بھی انسان کا دل
جیب سکتی ہے۔ ان کی شخصیت میں جو صداقت اور اپناپن پایا جاتا ہے اس کی مثال بہت کم
دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ’’شاعر‘‘ کی ادارت کے علاوہ کسی کام پر توجہ
نہیں دیتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان کے اندر تخلیقیت خیزی کا ایک سیل رواں جاری ہے۔
جس کے باہر آنے کی دیر ہے۔ اب تک نظم ونثر میں ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ان
کی غزلوں کا ایک مجموعہ ’’چاند غزل‘‘ حمدوں کے دو مجموعے ’’اللہم‘‘ اور ’’انک سمیع
الدعا‘‘ نعتوں کے چار مجموعے ’’آپؐ‘‘، ’’آقاؐ‘‘، ’’سرداؐر‘‘، ’’سرکاؐر‘‘اور افسانوں
کا ایک مجموعہ ’’ربع دیدی آپ کہاں ہیں‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔ جب کہ ’’شاعر‘‘ کے ہزاروں
صفحات پر بکھرے ان کے ’’جرعات‘‘، ’’انٹرویوز‘‘ اس کے ماسوا ہیں۔ کم لوگوں کو معلوم
ہوگا کہ ان کے پاس ہزاروں غیرمطبوعہ غزلوں کا مخزونہ محفوظ ہے۔ بقول افتخار امام صدیقی
صاحب، جماعت اسلامی کی ڈائری ’’شب و روز‘‘ کی آٹھ جلدیں ان کی شاعری سے بھری پڑی ہیں۔
یہ حالت ہے ان کے تخلیقی وفور کا۔
یہ ہمارے لیے یقیناًخوشی کی بات ہے
کہ آج ہم اردو ادب کے باقیات صالحات جیسی شخصیت کے ساتھ یہاں بیٹھے ہیں۔ اور انہیں
دیکھنے اور ان سے باتیں کرنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں۔ میں یہاں ایک بات جو خاص طور
پر کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر جناب افتخار امام صدیقی صاحب اپنی شاعری کی اشاعت
کے لیے راضی ہوں تو اکیڈمی ان کا مجموعہ کلام اپنی طرف سے شائع کرکے خوشی محسوس کرے
گی۔
یوں بھی جناب صدیقی صاحب کے کلام
کو منصہ شہود پر لانا ضروری ہے۔ تاکہ لوگوں کو اندازہ ہوسکے کہ جو مدیر اپنا ہر رسالہ
تخلیق کرتا تھا۔ اس نے تخلیق شعر و ادب کی کیسی کیسی منزلیں سرکی ہیں۔ میں جناب افتخار
امام صدیقی صاحب کا اپنی اور کرناٹک اردو اکیڈمی کی طرف سے دلی خیرمقدم کرتا ہوں۔ اور
اپنی ممنویت کا اظہار کرتا ہوں کہ انہوں نے اکیڈمی میں تشریف لانے کی زحمت گوارہ کی۔
ہمیں یقین ہے کہ ان کی آمد کی برکت
سے ہم تمام لوگوں میں زبان و ادب کی خدمت کا انہیں جیسا سچا جذبہ پیدا ہوگا اور ہم
سب لوگ ان کے خواب کی (جو تمام اردو والوں کا خواب ہے) کی تعبیر کی ہر ممکن کوشش کریں
گے۔
اللہ جناب افتخار امام صدیقی صاحب
کی عمر دراز کرے۔ اور انہیں صحت مند رکھے۔ تاکہ اردو زبان و ادب کے سر پر ان کا سایہ
تادیر قائم رہے۔ آمین