آل انڈیا فنکار
اکیڈمی ممبئی کی شاخ کے زیر اہتمام بروز
اتوار مورخہ 24 مارچ 2013ء کو سیوڑی کراس
روڈ ممبئی ہندوستان میں عوامی وکاس پارٹی
کے قومی صدر جناب شمشیر خان پٹھان صاحب کی صدارت میں عظیم الشان مشاعرے کا اہتمام
کی گیا تھا ۔ اس پروگرام کے مہمان خصوصی
مشہور فلم اسٹار علی خان تھے ۔ انھوں نے دوران مشاعرے اپنے تاثرات بھی پیش کیۓ اور
فلم خداگواہ '' کے ڈائیلاگ سنا کر سامعین کو محظوظ کیا ۔ اس موقع پر بنگلور سے
تشریف لاۓ ہوۓ ڈاکٹر حافظ امجد حسین کرناٹکی کو گلبرگہ یونیورسٹی کے کنووکیشن
پروگرام میں کرناٹک کے گورنر ہنس راج بھاردواج کے ہاتھوں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی ۔انھیں اعزازی استقبالیہ دیا گیا
۔ جس ميں انھیں میمینٹو ، شال اور پھولوں
سے نوازا گیا ۔ اور ساتھ ہی بدایوں سے
تشریف لاۓ ہوۓ ۔ شاعر اقبال ندیم صاحب کو بھی اعزاز سے نوازا گیا ۔ اٹھارہ
شاعروں نے خوبصورت انداز میں اپنے اپنے کلام سنا کر سامعین کو محظوظ کیا ۔ سیوڑی
کی عوام نے اس تقریب میں آکر بہت خوشی محسوس کی ۔ کافی تعداد میں لوگوں کی بھیڑ
موجود تھیں ۔ یہ مشاعرہ کافی کامیاب رہا ۔
Sunday, March 31, 2013
Thursday, March 28, 2013
رپور
تاژ
آفتاب
احمد آفاقی
شعبۂ
اردو ،بنارس ہندو یونیورسٹی
وارانسی
’’اردو اور
بھوجپوری :آواجاہی کے پہلو ‘‘تہذیب اور زبان کے رشتوں کی نئی تلاش
قومی کونسل برائے
فروغ اردو زبان نئی دہلی، اس لحاظ سے قابل مبارک باد ہے کہ اس کے مالی تعاون سے بھوجپوری
ادھین کیندر ،بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیر اہتمام’’اردو اور بھوجپوری : آواجاہی کے
پہلو ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک دو روزہ قومی
سمینار ، ۲۲،۳۲ مارچ کو منعقد کیا گیا
۔یہ سمینار موضوع اور مواد کے لحاظ سے ان معنوں میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اس
سے قبل اردو یا بھوجپوری زبان میں اس نوعیت کا کوئی سمینار، مذاکرہ یا مباحثہ عمل میں
نہیں آیا ۔ویسے بھی ہمارے یہاں کلاسیکی شعر و ادب اور معروف اہل قلم یا موضوعات ،ہماری
فکر و دانش کا ہی حصہ رہے ہیں ،اور ہماری تمام تر توجہات و ترجیہات قدمااور متاخرین
پر ہی رہی ہیں ایسے میں نئے موضوعات یا اردو سے علاحدہ ہو کر غور و فکر کرنے یا عصری
تقاضوں اور مطالبات پر ہم نے کم ہی بنائے ترجیح رکھی Tuesday, March 26, 2013
ضرورت ہے عزم و ہمت کی ۔ کامیابی یقینی ہے ۔سہیل لو کھنڈ والا
ضرورت ہے عزم و ہمت کی ۔ کامیابی یقینی ہے ۔سہیل لو کھنڈ والا
ڈاکٹر حافظ کرناٹکی ہماری قوم کا اثاثہ ہے ۔ شمشیر خان پٹھان
کرناٹک میں اردو کو دوسری زبان بنایا جاۓ ۔ہم یہ مانگ کررہے ہیں۔
لنترانی میڈیا ہاؤس
کے زیر اہتمام ڈاکٹر حافظ
کرناٹکی کو بمقام
پرشین دربار ہوٹل بھائیکلہ میں ا عزازی استقبالیہ دیا گیا ۔ کیوں کہ حافظ کرناٹکی کو
گلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک میں ووکیشنل پروگرام میں کرناٹک کے گورنر ہنس راج بھار دواج کے ہاتھوں ان
علمی و ادبی خدمات کا اعتراف کرتے
ہوۓ ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی ہے ۔
اس خوشی کے موقع پر لنترانی میڈیا ہاؤس کی جانب سے سپاس
نامہ ، میمینٹو، شال اور پھولوں سے ان کا
استقبال کیا گیا ۔ اس تقریب کی صدارت کمہارواڑہ ویلفیئر کے صدر نصیر پٹھان صاحب نے
کی۔مہمان خصوصی کینسر اینڈ کیر کے
ڈائریکٹر سہیل لو کھنڈوالا صاحب رہے ۔مہمان اعزازی شمشیر خان پٹھان صاحب ، نظام الدین راعین صاحب رہے ۔اس تقریب میں شہر کی معزّز شخصیات موجود تھیں ، سلیم الوارے
، ارشاد خطیب صاحب ، حسرت سر ، پروفیسر
جمیل کامل ، ڈاکٹر شاہد صدیقی،لوک کلیان کاری سنستھا کے جنرل سیکریٹری
ناصر خان ، دوردرشن ممبئی سے نیوز ڈائریکٹر احمد منظور صاحب ، مشہور ومعروف شاعر عبدالا حد ساز بھائي ، معین الدین شیخ ، نگار
سلطا نہ ، ممتاز اقبال نیازی ، نادرہ
موٹلیکر ، ریشماء دلاور بھائی ، انجم
بدایونی ، سرفراز پٹھان ،سمیع شیخ اور اشفاق بھائی ، اس تقریب کو اپنے
نظامت کے خوبصورت انداز سے اقبال نیازی سر
نے چار چاند لگا ديئے۔سلیم الوارے صاحب نے
ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کو بڑے ہی موثر انداز میں سپاس نامہ پیش کیا ۔اورایک خاص بات
کی طرف رجوع کیا کہ ویسے تو ہزاروں
لوگ ڈگریاں حاصل کرتے ہیں ۔ مگر ان کی
خدمات کا اعتراف کرتے ہوۓ صرف 45 لوگوں کو
ہی یہ شرف حاصل ہوا ہے ۔ جس میں ایک ہمارے
کرٹاٹکی صاحب ہیں ۔جمیل کامل صاحب نے کرناٹکی صاحب کو بچوں کے ادب کا امام کہا ہے سہیل لوکھنڈوالا صاحب نے کہا کہ تنقید کے لیۓ
زبان سترگز کی ہوتی ہے پر تعریف کے لیۓ زبان لڑکھڑاتی ہے ۔شمشیر پٹھان صاحب نے کہا
کہہم دیا کرتے ہیں کہ مہاراشٹر میں بھی حافظ مہاراشٹروی پیدا ہوجاۓ اور اردو کا
بول بالا کردیے ۔ نطام الدین راعین صاحب نے لنترانی کے کاموں کو سراہا اور مبارکباد دی کہ لنترانی میڈیا ہاؤس کے
ذریعے علمی و ادبی پروگرام کوریج کرکے
محتلف ممالک میں دکھاۓ جارہے ہیں جو کا
قابل تعریف ہے ۔لنترانی کی ڈائریکٹر منور سلطانہ نے کہا کہ انسان اس کے نام سے نہیں بلکہ کاموں سے پہچانا
جاتا ہے ۔ لنترانی کی پہچان ہے اور وہ اردو کی خدمات انجام دیتی رہے گي ۔ اس
وقت علمی وادبی او ر سیاسی اور
علم دوست موجود تھے ۔ پروگرام بہت
کامیاب رہا ۔ اس پروگرام کے کنوینر عوامی وکاس پارٹی کے ممبئی پرسیڈینٹ اعجاز مقادم تھے ۔پروگرام بہت کامیاب رہا ۔
0
comments
Labels:
Hafiz karnataki,
shamsher pathan
Sunday, March 24, 2013
Tuesday, March 19, 2013
شموگہ میں اردو اساتذہ کا سالانہ جلسہ
شموگہ
میں اردو اساتذہ کا سالانہ جلسہ
اساتذہ
کو اپنے منصب کو پیشہ نہیں خدمت کے طور پر استعمال کرنا چاہئے (حافظ کرناٹکی)
آج بروز منگل بتاریخ 19مارچ 2013ء مسلم
ہاسٹل شموگہ کے کانفرنس ہال میں اساتذہ کا سالانہ جلسہ منعقد کیا گیا جس میں ڈاکٹر
حافظ کرناٹکی چیرمین کرناٹک اردو اکیڈمی سمیت کئی سرکاری افسروں اور دوسرے اساتذہ کرام
نے شرکت کی، اس جلسہ میں بطورخاص
DDPIاین ایس کمار،EOای این
کملاکر، BROلوکیش سبجیکٹ انسپکٹر عبدالغفارملا ڈائٹ
کے سینیرلیکچرر منجوناتھ ECOپاٹل صاحب اردو
ECOذاکر صاحب اور تعلیمی مقالہ پیش کرنے والی لیکچرر ڈاکٹر
سیدہ نازنین سابق ہائی اسکول میرمدرس حافظ سید ثناء اللہ صاحب،وقف بورڈ سابق چیرمین
سمیع اللہ صاحب اورصدرواراکین اساتذہ ضلع شموگہ حاضرتھے جلسہ کے صدارت کے فرائض شموگہ
ضلع کے صدر احمداللہ خان صاحب نے ادا کیں، اس موقع سے اعزازی صدر جناب حبیب اللہ خان
بھی موجود تھی۔ DDPIاین ایس کمار نے جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے
کہ ہم ایک معززپیشہ سے وابستہ ہیں، ہم نے سال بھرمحنت کی ہی، اب امتحان ہمارے سامنے
ہی، امتحان کا نتیجہ بتائے گا کہ ہم نے پورے سال کیا کام کیا ہے اور کن کاموں کو نظر
انداز کیا ہی، ہمیں وقتاً فوقتاً اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئی، کہ ہمارے کرنے کے کون
کون سے کام ادھورے رہ گئے ہیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمیں ایک معاشرہ کی تعمیرکی ذمہ
داری سونپی گئی ہی، آج ہمارے اسکولوں کاحال براہی، آج کا سالانہ جلسہ اس بات کی دعوت
دیتا ہے کہ ہم خود آگے بڑھیں اور اپنے اسکولوں کو بہتر بنائیں تاکہ اسکول کا مستقبل
خطرے میں نہ پڑی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں اپنے درمیان حاضر ایک کامیاب ترین شخصیت
ڈاکٹر حافظ کرناٹکی کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا
کر وقت کی ہر کامیابی حاصل کی اور ہماری برادری کا نام روشن کیا،
BEOشموگہ کملاکر نے کہا کہ ہمیں اپنا
محاسبہ کرنا ہوگابالخصوص اساتذہ کو اپنی خامیوں کا جائزہ لینا ہوگا، اس ضلع میں ان
کی تعداد تقریباً 350ہے مگر ان میں اتحاد نہیں ہے انتشار کی وجہ سے اساتذہ کی باتیں
بے وزن ہوجاتی ہیں اگر یہ اساتذہ متحد ہوجائیں تو وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو آج تک نہیں
ہو پایا ہی
منجوناتھ سینیرلیکچررڈائٹ نے کہا کہ
ہمارے لئے خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر حافظ کرناٹکی ہمارے درمیان حاضرہیں،زندگی میں کامیابی
کس طرح حاصل کی جاتی ہے ہمیں ایسی ہی شخصیت سے سیکھنے کو ملتا ہی،
ماسٹر منصور احمد نے تفصیل سے حافظ کرناٹکی
کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی اس موقع سے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ
اساتذہ کرام میرا تعلق
آپ ہی کی برادری سے ہے میں آپ ہی کے پاس سے اٹھکرکرناٹک اردو اکیڈمی گیا اور پھر اپنی
ذمہ داریوں کی تکمیل میں لگ گیا، بعد میں حکومت کرناٹک نے مجھے ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے
سرفراز کیا یہ ڈاکٹریٹ مجھے ہی نہیں بلکہ پوری اساتذہ برادری کو ملی ہی، ایسا میں سمجھتا
ہوں،
آج کے اس جلسہ میں شرکت کرکے مجھے دلی
خوشی حاصل ہوئی کیوں کہ اپنی برادری میں شمولیت سے ہر کسی کو خوشی ہوتی ہی، آپ ذرا
سا غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حکومت نے ہر علاقہ میں اردو کے فروغ کے لئے سیکڑوں کی
تعداد میں اساتذہ مقرر کررکھے ہیں تاکہ اردو کا ماحول بہتر سے بہتربن سکے اور اس کے
فروغ کی راہیں ہموار ہو سکیں، اسی غرض سے حکومت کروڑوں روپئے خرچ کررہی ہے اس کے باوجود
اگر ماحول بہتر نہیں ہورہا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی ذمہ داری اساتذہ پر عائدہوتی ہی،
ہم تمام اردو والوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنی آمدنی کا کتنا حصہ اردو کی ترقی پر
خرچ کرتے ہیں، اخبارو رسائل سے لیکر اردو کی کتابوں تک کی خریداری پر کتنا خرچ کرتے
ہیں، اردو پڑھنے والے کسی ضرورت مند طالب علم کی کس حد تک دستگیری کرتے ہیں اور یہ
بھی کہ آپ کے آنے کے بعد اسکول نے کیا ترقی کی اور آپ کے جانے کے بعد اسکول کس راستہ
پر آگے بڑھے گا اساتذہ کو اپنے اس منصب کو پیشہ نہیں خدمت کے طور پر استعمال کرنا چاہئے
اور اپنی لگن سے ثابت کرنا چاہئے کہ واقعی وہ لوگ اردو کے سچے خدمت گار ہیں، انہوں
نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان دنوں جمعہ کی چھٹی کے تعلق سے بھی مسائل کھڑے
کردئے گئے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ جمعہ کی چھٹی سے کم پراس موضوع پر نہ تو کوئی بات
کرنی چاہئے اور نہ سننی چاہئے جمعہ کی چھٹی تو انگریزوں کے زمانہ سے رائج ہے پھر اسے
کوئی کیوں کرملتوی کرسکتا ہے ہم اپنے بزرگوں کی اس روایت کو قطعی نہیں بدلنے دیںگی،
ہم متحد ہو کر ہر صورت حال کا سامنا کریںگی
صدر جلسہ احمد اللہ خان نے کہا کہ ہمارے
لئے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم نے کافی وقت بڑے افسروں کی موجودگی میں گزارا اور
بہت ساری کام کی باتیں سنیں اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹرحافظ کرناٹکی نے اپنی
شمولیت سے ہمارے جلسہ کا وقار بڑھایا، ہمیں اپنی ریاست سے زیادہ اپنے ضلع پر فخر ہے
کہ اس مٹی سے حافظ کرناٹکی جیسی عظیم شخصیت نے جنم لیاجنہوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل
کی۔ جلسہ عزازی صدر جناب حبیب اللہ خان کے شکریہ کے ساتھ اختتام کو پہونچا
Monday, March 18, 2013
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے ؟
ندیم
دیویکر۔کرلا ،ممبئی۔موبائل۔ 9769928390
مجھے
رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
؟
( ’’ہماری قیادت کیسی ہو ؟ :مجلس مذاکرہ پر ایک طائرانہ نظر)
بروز ۶۱ مارچ
۳۱۰۲
،انجمن اسلام ممبئی وی ٹی کے احمدزکریا ہال میں یہ پروگرام
منعقد کیا گیا تھا ۔اکثر و عموماً اس طرح کے نام نہاد پروگرام ایک بند کمرے میں بالخصوص A/Cکمرے یا ہال میں رکھے جاتے ہیں ۔ امت
مسلمہ وعوام کے قائد ہونے و کہلانے کا نام نہاد دعویٰ کرنے والے یہ نام نہادنامی گرامی
حضرات اپنی آرام دہ A/Cکاروں میں آکر
A/Cکمرے یا ہال میں بیٹھ کر اپنی اس گپ شپ سے امت مسلمہ کے
سنگین و اہم ترین مسائل کاحل تلاش کرنا چاہتے ہیں ۔کیا اس طرح کی نام ونمود و ریاکاری
کی ان مجالس سے اب تک امت مسلمہ کے کسی بھی مسئلہ کا اطمینان بخش حل میسر آسکا ہے ؟نشستً
گفتً وبرخاستً کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔
وہی پرانے ۰۲ سے
۰۳
چہرے اس طرح کی نام نہاد مجالس میںاپنی خود نمائی اور
نام و نمود کی بھوک کو غذا فراہم کرنے کی غرض سے اس طرح پروگرام میں کھینچے چلے آتے
ہیں ۔ اخبارات کی سرخیوں میں اپنا نام و تصاویر دیکھنے اور خود کو ملت اسلامیہ کا قائد
و رہنما جتلانے کے لئے اس طرح کے پروگرام ان نام نہاد نامی گرامی لوگوں کے لئے ایک
موثر ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ۔ ان کے منہ سے امت مسلمہ کی قیادت و اس کی فکر کرنے و رکھنے
کی یہ کھوکھلی باتیں کچھ اچھی نہیں لگتی ۔یہ سفید پوش بھیڑے اُن لٹکتے ہوئے بیگن ہی
کی طرح ہیں جو کبھی ادھر تو کبھی اُدھر نظر آتے ہیں ۔ان گفتار کے غازیوں سے بھلا یہ
امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ یہ امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو پار لگائیں گے جبکہ امت مسلمہ
کوان مسائل کے بھنور میں پھنسائے رکھنے میں
یہ نام نہاد مذہبی اور نام نہاد مسلم سیاسی افراد بھی برابر کے شریک ہیں ۔میں بذات
خود ان میں سے پیشتر کے حقیقی چہروں سے بخوبی واقف ہوں جو ایک چہرے پر کئی چہرے لگائے
ہوئے ہیں ۔جو خود بکے ہوئے ہیں اور جنہوں نے اپنی ملت کا سودا بہت ہی سستے داموں میں
ان دشمنان اسلام سے کرلیا ہے ان ضمیر فروشوں سے امت مسلمہ کی بھلائی کی امید کرنا نہ
صرف فضول و لایعنی ہے بلکہ سراسر حماقت و جہالت ہے ۔ امت مسلمہ کی خیر خواہی کا جھوٹا
دم بھرنے والوں اپنی اس لفاظی سے باز آجائوکہ اللہ کو فکر نہیں کردار مطوب ہے جبکہ
افسوس تمہاری فکر کا محور و مرکز صرف اپنی ذات ،خاندان اور زیادہ سے زیادہ اپنی نسل
و برادری کے ارد گرد گھومتا ہوا نظر آتا ہی۔اس افسوس ناک صورت حال کے پیش نظرفی الوقت
یہ بحث لایعنی ہے کہ ہماری قیادت کیسی ہو؟ جبکہ آج ہم خود کو اس لائق نہیں پاتے کہ
ہم منصب ِ قیادت کاحق پوری سنجیدگی ،خلوص و ایمانداری کے ساتھ بخوبی ادا کرسکتے ہیں
۔
اگر واقعی ہم یہ چاہتے ہیں کہ امت مسلمہ
ہر لحاظ سے منصب ِ قیادت کے لائق و قابل ہوجائے تو ہمیں اپنی اس منافقت سے باز آجانا
چاہئی۔کیا آج کسی بھی نام نہاد عالم میں یہ دم خم ہے کہ وہ اپنے کالے کرتوتوں کا اعتراف
صدق دل سے کرے کہ ہم ہی وہ ہیں جنہوں نے محض اپنی دوکانداری کو چمکانے اور اپنی چودھراہٹ
کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لئے مسلک کے نام پر امت مسلمہ کو ٹکروں میں بانٹ رکھا
ہے ۔کیا ان نام نہاد مولوی حضرات نے کبھی اس بات کی کوشش کی بھی ہے کہ امت مسلمہ کو
یکجا اور متحد کرنے کیلئے اسلام کے صحیح ایڈیشن کو پیش کیا جائے ؟ نہیں قطعی نہیں
۔ امت مسلمہ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنے کیلئے خود کو امت مسلمہ کا سچا غم خوار بتانے
کیلئے اس طرح کے موضوع ’’ہماری قیادت کیسی ہو؟‘‘کو زیر بحث لاکر یہ تاثر دینا چاہتے
ہیں کہ ہم ہی تمہارے سچے خیر خواہ ہیں ۔اسی طرح یہ ہمارے نام نہاد مسلم سیاسی گیدڑنیتا
حضرات کوچاہئے کہ اپنی اس بھیڑ چال سے باز آجائیں ۔کیا ہمارے یہ نام نہاد مسلم نیتا
حضرات اب اس اعتماد کے لائق رہ گئے ہیں کہ ان کی باتوں پر مزید بھروسہ کیا جاسکے ؟
نہیں قطعی نہیں ۔ کیا اب بھی عوام الناس کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ قیادت اور
مسائل کو حل کرنے کی سیاست کو لیکر وہی سیاست کھیلی جارہی ہے ؟ ان نام نہاد مذہبی اور نام نہاد سیاسی ،دونوں طرح
کے برساتی مینڈکوں سے کسی تبدیلی کی کوئی امید کرنے کے بجائے ہمیں چاہئے کہ ہم خود
اپنا تعلق براہ راست کتاب اللہ سے جوڑیں اور اسے اپنی ذاتی اور سماجی زندگی کا حصہ
بنانے کے لئے اپنی تمام تر توانائی ،لیاقت ،صلاحیت ،قابلیت ،دولت اور وقت اس مقصد کے
لئے صرف کریں ۔ اگر ہم خود کو اس کام کے لئے تیار و آمادہ کرلیتے ہیں تو یقینا ظلم
وستم ، جہالت و مفلسی کی یہ سیاہ رات ختم ہوکر نئی صبح کی روشنی ہمارا مقدر ہوگی ۔
ندیم
دیویکر ۔769928390
Subscribe to:
Posts (Atom)