آج بروز بدھ بتاریخ 06-03-2013 بوقت 9بجے گلبرگہ
یونیورسٹی کے 31کانویکیشن میں گیارہ افراد کو ڈاکٹریٹ سے نوازا گیا۔ جس میں اردو زبان
و ادب کی خدمت پر حافظ کرناٹکی ڈاکٹریٹ سے نوازا گیا۔ اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے
ہوئے حافظ کرناٹکی نے اپنے کچھ تاثرات پیش کئی۔ جو مندرجہ ذیل ہی:
Kبعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جو اوراق زندگی
پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دراصل زندگی تو انہیں
واقعات کی زائیدہ ہی۔ آج کا دن جو میری زندگی کے اہم ترین واقعے کا ضامن ہی۔ میرے لیے
تاریخی اہمیت کا حامل ہی۔ میں اس ریاست میں پیدا ہوا، اسی کی آب و ہوا میں پروان چڑھا۔
یہیں پڑھا اور پڑھایا اور یہیں سے شعر و ادب کے سفر کاآغاز کیا۔ اور یہیں کی ایک اہم
یونیورسٹی نے مجھے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے سرفراز کیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ مجھے
اس تاریخی شہر کی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی ہے جو اردو کے گہوارے کی حیثیت
رکھتا ہی۔
اگر میں اس موقع سے اپنے قارئین اردو برادری کے
احباب، اور بالخصوص عزت مآب گورنر کرناٹک، اور وائس چانسلر کا شکریہ ادا نہ کروں تو
بڑی ناانصافی ہوگی۔ اس اعزازی سند کے بعد میں خود پر ایک بڑی ذمہ داری محسوس کر رہا
ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ جس زبان کے حوالے سے مجھے یہ سند دی گئی ہے مجھے اس زبان اور
اس کے ادب کے لیے اب اور بھی زیادہ لگن سے کام کرنا ہوگا۔
میںنے حسب روایت اپنے ادبی سفر کا آغاز غزل سے
کیا۔ مگر بہت جلد ادب اطفال کی طرف متوجہ ہوگیا اور پھر ہمیشہ کے لیے اسی کا ہو کر
رہ گیا۔ بچوں کا ادب اور بچوں کی تعلیم و تربیت میری زندگی کا مقصد بن گیا۔ میں نے
جہاں بچوں کے لیے اردو تعلیم کا حتی المقدور بہترین انتظام کیا، وہیں ادب اطفال کی
ترقی کے لیے بھی شب و روز محنت کی جو آج بھی جاری ہی۔ کرناٹک اردو اکیڈمی کی صدارت
کی ذمہ داری سنبھالتے ہی میں نے اردو کے فروغ کے لیے ہر سطح پر کوشش تیز کردی۔ اور
ہر طرح کے پروگراموں کو اہمیت دی تاکہ زبان و ادب کے فروغ کی راہیں روشن ہوں۔ آج جو
مجھے اعزاز مل رہا ہے یہ اسی زبان اردو کی خدمت کا فیض ہی۔ اردو کے معمولی خادم کو
بھی اتنے بڑے بڑے اعزاز مل جاتے ہیں۔ اس کے باوجود بعض ناعاقبت اندیش لوگ اس زبان کی
افادیت، اہمیت، اور اس کے مستقبل سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنا
محاسبہ کرنا چاہےی۔ اور اپنی زبان کی ترقی کے لیے نئے جذبے کے ساتھ آگے آنا چاہےی۔
No comments:
Post a Comment