آدھا تیتر آدھا بٹیر
آج
کل اصلاح معاشرے کے لیے جس قدر دینی جلسے کے پروگرام اصلاحی بیانات وغیرہ ہوتے ہیں
ٹی وی چینل نے بھی دینی چینل کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کررہے ہیں مگر ہمارے سماج و معاشرے
میں برائیوں بے حیائیوں ، اللہ کی نافرمانی اور گناہوں میں اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا
ہی۔ ممبئی ہو یا مضافات بڑے ہو یا بچی، مرد ہو یا عورتیں، امیر ہو یا غریب، پڑھے لکھے
ہو یا جاہل، کہیں بھی اسلامی تہذیب ، ثقافت، مسلمانوں کو طور طریقہ نیکی، اچھائی گناہوں
سے اجتناب، تقدیٰ و طہارت اخلاق کی پاکیزگی، معاملات کی صفائی مکمل طور پر نظر نہیں
آتی۔ گزشتہ دنوں کئی سالوں کے بعد ایک عزیز دوست کے گھر شام کے وقت جانا ہوا۔ بڑا سا
گھر دیوار پر آیت کے فریم، مکہ مدینے کی تصویر، قرآن شریف طاق میں لپٹے ہوئے جانماز،
ہر اسلامی چیز موجود تھی اور میرا دوست چڈی بنیان میں صوفے پر بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ
کر خوش ہوگیا۔ مغرب کا وقت تھا ، ایک ایک کرکے اس کے بچے گھر آنے لگی، بڑا بیٹا گھر
میں قدم رکھا سلام نہ دُعا، سامنے بیٹھ گیا۔ بڑے بڑے بال بالوں میں ربڑ لگا رکھا تھا۔
چھوٹا بیٹا آیا تو اس نے سلام کیا ۔ سلام وعلیکم میں نے کہا۔ بیٹا کہو اسلام وعلیکم
عجیب سا حلیہ بنا رکھا تھا، کان میں بالی، ہاتھوں میں فرینڈ شپ کی پٹی ، کان میں موبائل،
ایئرفون پر گانا سُن رہا تھا اور ہلکا ہلکا ڈانس بھی کررہا تھا۔ میرے دوست نے کہا بچپن
سے اسے ڈانسر بننے کا شوق ہی۔ پھر بیٹی کالج سے آئی تو جینس پینٹ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، موبائل پر بات کرتے ہوئے
گھر میں داخل ہوئی۔ میرے دوست نے کہا سب کو دعوت دی کہ نہیں؟ میں نے پوچھاکیسی دعوت تو کہنے لگا اس کا برتھ ڈے
ہے تو گھر میں پارٹی ہی۔ بیٹی نے ٹی وی چالو کردیا، آواز تیز کردی، مغرب کی اذان ہونے
لگی، ماں نے کہا بیٹی آواز دھیمی کردے اذان ہورہی ہی۔ بڑا بیٹا ماں سے کہنے لگا موم
آج کھانا باہر کھائوں گا، میں نائٹ شو فلم ’’زندگی پھر نہ ملے گی دوبارہ‘‘ دیکھنے جارہا
ہوں۔ ہمارے سماج اور معاشرے میں برائیاں بڑھ رہی ہی، مسجدیں خالی ہیں۔ سنیما ہال برابر
آباد ہیں۔ اپنی حالات سے بڑھ کر مالی نمائش صاف ظاہر ہی۔ ضرورت سے زائد گناہوں کے ے کے پروگرام اصلاحی بیانات وغیرہ ہوتے ہیں
ٹی وی چینل نے بھی دینی چینل کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کررہے ہیں مگر ہمارے سماج و معاشرے
میں برائیوں بے حیائیوں ، اللہ کی نافرمانی اور گناہوں میں اضافہ ہی ہوتا نظر آرہا
ہی۔ ممبئی ہو یا مضافات بڑے ہو یا بچی، مرد ہو یا عورتیں، امیر ہو یا غریب، پڑھے لکھے
ہو یا جاہل، کہیں بھی اسلامی تہذیب ، ثقافت، مسلمانوں کو طور طریقہ نیکی، اچھائی گناہوں
سے اجتناب، تقدیٰ و طہارت اخلاق کی پاکیزگی، معاملات کی صفائی مکمل طور پر نظر نہیں
آتی۔ گزشتہ دنوں کئی سالوں کے بعد ایک عزیز دوست کے گھر شام کے وقت جانا ہوا۔ بڑا سا
گھر دیوار پر آیت کے فریم، مکہ مدینے کی تصویر، قرآن شریف طاق میں لپٹے ہوئے جانماز،
ہر اسلامی چیز موجود تھی اور میرا دوست چڈی بنیان میں صوفے پر بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھ
کر خوش ہوگیا۔ مغرب کا وقت تھا ، ایک ایک کرکے اس کے بچے گھر آنے لگی، بڑا بیٹا گھر
میں قدم رکھا سلام نہ دُعا، سامنے بیٹھ گیا۔ بڑے بڑے بال بالوں میں ربڑ لگا رکھا تھا۔
چھوٹا بیٹا آیا تو اس نے سلام کیا ۔ سلام وعلیکم میں نے کہا۔ بیٹا کہو اسلام وعلیکم
عجیب سا حلیہ بنا رکھا تھا، کان میں بالی، ہاتھوں میں فرینڈ شپ کی پٹی ، کان میں موبائل،
ایئرفون پر گانا سُن رہا تھا اور ہلکا ہلکا ڈانس بھی کررہا تھا۔ میرے دوست نے کہا بچپن
سے اسے ڈانسر بننے کا شوق ہی۔ پھر بیٹی کالج سے آئی تو جینس پینٹ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی، موبائل پر بات کرتے ہوئے
گھر میں داخل ہوئی۔ میرے دوست نے کہا سب کو دعوت دی کہ نہیں؟ میں نے پوچھاکیسی دعوت تو کہنے لگا اس کا برتھ ڈے
ہے تو گھر میں پارٹی ہی۔ بیٹی نے ٹی وی چالو کردیا، آواز تیز کردی، مغرب کی اذان ہونے
لگی، ماں نے کہا بیٹی آواز دھیمی کردے اذان ہورہی ہی۔ بڑا بیٹا ماں سے کہنے لگا موم
آج کھانا باہر کھائوں گا، میں نائٹ شو فلم ’’زندگی پھر نہ ملے گی دوبارہ‘‘ دیکھنے جارہا
ہوں۔ ہمارے سماج اور معاشرے میں برائیاں بڑھ رہی ہی، مسجدیں خالی ہیں۔ سنیما ہال برابر
آباد ہیں۔ اپنی حالات سے بڑھ کر مالی نمائش صاف ظاہر ہی۔ ضرورت سے زائد گناہوں کے موجودنت
نئے موبائل کا استعمال فیشن بن چکا ہی، کھانے پینے کا انگریزی اسٹائل جب کہ اسلام کی
پاکیزہ تعلیمات رسول اکرمؐ کی مقدس سنتوں کو اپنا کر غیروں کے طور طریقوں ، رسم و رواج
اور ناجائز حرام کاموں نیز خراب معاملات سے بچنے کی پوری کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں
مذکورہ باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ا
No comments:
Post a Comment