From K. Ashraf :
اردو ادب پر بالعموم اور اردو شاعری پر بالخصوص شعیہ اسلام نے بہت گہر ے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اردو کے بہت سے شعرا کا شعیہ اسلام سے تعلق تھا لیکن جن کا تعلق نہیں بھی تھا انہوں نے شہادت حسین کے موضوع کو نہ صرف اپنے اشعار کا حصہ بنایا بلکہ اپنے اپنے انداز میں اُنہیں ہدیہ عقیدت پیش کیا ۔ بعض شعرا تو اس حد تک چلے گئے کہ ''ایک ذرا بیدار تو ہو لینے دو انساں کو۔۔ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین۔ '' اور اقبال نے تو یہاں تک کہہ دیا ''اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر۔۔معنی ضبحً عظیم آمد پسر۔''اردو ادب اور شاعری میں یہ رجحان کیسے داخل ہوا اور اس نے اردو زبان و ادب پر کیا اثرات مرتب کئے یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے جس پر اردو زبان و ادب کے محقیقن کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس رجحان کے زبان و ادب پر منفی اور مثبت اثرات کے مطالعہ کے بعداردو بولنے ، سمجھنے اور لکھنے والوں پر اور اُن سے متعلقہ بڑے سماجی پر اس کے نفسیاتی اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔جن دنوں اردو معرض وجود میں آ رہی تھی اُس وقت واقعہ کربلا اردو استعاروں میں کم کم نظر آتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اردو کے دلی اور لکھنو میں اثر و نفوذ کے بعد اس استعارے نے بتدریج اردو شاعری میں ایک طاقت ور استعارے کی شکل اختیار کی ہے۔ ابتدائی اردو شاعری کے نمونوں میں ہندی ثقافت کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں۔ امیر خسرو کی اردو شاعری تو ہندی ثقافت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ میرتقی میر کی شاعری پر بھی ہندی ثقافت غالب نظر آتی ہے۔ میر انیس اور دبیر کے کے مرثیوں کے بعد تو ہر اردو شاعر نے اپنے لئے شہادت حسین پر کچھ نہ کچھ لکھنا اپنا فریضہ قرار دے لیا۔ یہاں تک کہ اپنے آپ کو بائیں بازو کے نمائندے سمجھنے والے جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض صاحب بھی اس موضوع کو اپنی شاعری کا حصہ بنائے بغیر نہ رہ سکے۔تنویر پھول صاحب کے یہ اشعار بھی اسی روایت کا حصہ ہیں۔ اچھے اشعار ہیں۔ لیکن اتنے اچھے اشعار پڑھنے کے بعد میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا اردو شاعروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ قتل و غارت کے یہ استعارے ہمیشہ اُن کے کلام کا حصہ رہیں؟ یہ بجا ہے کہ ان روائتوں کو ہم نے جنم نہیں دیا۔ یہ تاریخ نے ہم تک منتقل کی ہیں۔ لیکن روائتوں کو نہ صرف ہمیشہ جاری رکھنا بلکہ ان میں اپنی قوت ِ متخیلہ سے مزید اضافہ کرنا ضروری ہے۔ انہیں مزید طاقت پہنچانا ۔ اپنی قوت متخیلہ کی آمیزش سے انہیں مزید بنا سنوار کر اگلی نسلوں کو منتقل کرنا اتنا ضروری ہے کہ ہم اپنی بہترین تخلیقی صلاحیتیں ان پر صرف کردیں۔
Wednesday, December 18, 2013
Zulm ki talwaar daikho panja-e-qaatil maiN hai - Ghazal - Tanwir Phool
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment