You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Sunday, December 08, 2013

اسلام میں کرنسی کا تصور

پروفیسر عرفان شاہد
استاذ برائے معاشیات و بزنس اسٹڈیز،

                کرنسی ایک انگلش لفظ ہے جو عربی لفظ ’’نقود‘‘ کا مترادف ہی۔ اصطلاح میں اس شئے کو کہتے ہیں جو کسی چیز کو خریدنے میں مدد کرے اور قیمت کی ادائیگی میں بطور مبادلہ کے کام کری۔ اس کے علاوہ بھی کرنسی کے بہت سارے افعال ہیں جن کا ذکر معاشیات کی کتابوں میں موجود ہے کرنسی کے متعلق فائنانس اور معاشیات کی کتابوں میں ایک طویل بحث ہی۔ موجودہ دور میں کرنسی کا دائرۂ کار بہت وسیع ہوگیاہی۔ انیسویں صدی کے اوائل سے لے کر اواخر تک۔ ممکن ہے بہت سارے ماہرین معاشیات  (School of thoughtsنے کرنسی کے متعلق اپنی آراء کو پیش کیا۔ لیکن ان میں بھی اکثر کی کوشش یہی رہی ہے کہ کرنسی کو سود سے جوڑ دیا جائی۔ بنیادی تفہیم کے لیے کرنسی سے کچھ افعال
                کرنسی کے اوصاف اور اقسام درج ذیل ہیں:
                                                (i)           کرنسی برائے تبادلہ (Medium of exchange of value )
                                             (ii)          کرنسی برائے تحویل مالیت  (Store of value)                    
                                                (iii)         کرنسی برائے تقسیم  (Medium of distribution)              
(1)         Medium of exchange  :
                کرنسی کا سب سے بنیادی کام اشیاء کی خرید و فروخت کو آسان بنانا ہی۔ جب دنیا مں کرنسی کا وجود نہیں تھا تو لوگوں کو ایک دوسرے کی چیزوں کو خریدنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً کسی شخص کے پاس پچاس کلو چاول ہے اور وہ پچاس کلو چاول کے بدلے میں پانچ میٹر کپڑا خریدنا چاہتے ہیں اور جس کے پاس پانچ میٹر کپڑا ہے وہ اسے پچاس کلو گیہوں کے بدلے بیچنا چاہتا ہی۔ یہاں دونوں فریقین کے پاس بیچنے والا سامان موجود ہے لیکن پھر بھی سامان ہونے کے باوجود بھی لوگ اپنا سامان ایک دوسرے کو نہیں بیچ پارہے ہیں کیونکہ یہاں دونوںکے پاس ایک دوسرے کی مانگ (Demand) کے مطابق مطلوبہ چیز موجود نہیں ہی۔ اس سودے کو مکمل کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنا پڑے گا جو چاول کو گیہوں کے بدلے میں خریدے اور اس طرح سے کپڑا خریدنے والے کے پاس گیہوں آجائے گا اور اس کی مدد سے وہ آسانی سے کپڑا خرید سکے گا۔ لیکن اس سودے کو مکمل کرنے کے لیے کسی تیسرے فریق کو ڈھونڈنا بہت آسان کام نہیں ہی۔ کرنسی کے آنے کی وجہ سے یہ کام بہت آسان ہوگیا۔ زمانہ ماضی بعیدمیں اشیاء کے ساتھ اشیاء کے تبادلہ کو لوگ Barter System کہتے تھی۔ بارٹر سسٹم ایک تکلیف دہ نظام تھا جس کا وجود کرنسی کی آمد سے ختم ہوگیا۔
(2)         Store of value  :
M             کرنسی کا دوسرا اہم مقصد اشیاء کی مالیت کو لمبی مدت تک محفوظ رکھنا جو بذات خود چیزوں کو محفوظ کرکے نہیں حاصل کیا جاسکتا ہی۔ مثال کے طور پر ایک کلو ٹماٹر کی مالیت بیس روپے ہے اور اگر کوئی ٹماٹر کی مالیت فی الجنس طویل مدت تک محفوظ نہیں رکھ سکتا ہے اس کی بہترین شکل یہی ہوسکتی ہے کہ ٹماٹر کو رائج الوقت قیمت پر بیچ دیا جائے اور اس سے حاصل شدہ رقم کو بینک میں یا کسی تجوری میں بیس سال کے لیے رکھ دیا جائے یا اس پیسے سے کوئی ایسی چیز خریدلی جائے جو بیس سال کے بعد بھی سڑے و گلے نہیں بلکہ اس کی قیمت میں اور اضافہ ہی ہوجائے مثال کے طور پر Steel یا Silver وغیرہ۔
(3)         Distribution of unit  :
                کرنسی کا تیسرا اہم مقصد یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو چھوٹے چھوٹے حصے میں تقسیم کردینا۔ مثال کے طور پر کسی ایک پاس ایک بکری ہے لیکن اس کے چار حصے دار ہیں اور چاروں اس بکری کو آپس میں تقسیم کرناچاہتے ہیں۔ لیکن تقسیم کی صورت میںبکری کو چار ٹکڑے نہیں کرسکتے کیونکہ اس حالت میں بکری کی موت ہوجائے گی اور سب کا حصہ ضائع ہوجائے گا۔
                کرنسی کے وجود کی وجہ سے یہ کام بہت ہی آسان ہوگیا بجائے بکری کو کاٹنے کے بکری کو مارکیٹ میں فروخت کرنا ہوگا اور اس سے حاصل شدہ رقم کو چاروں کے درمیان تقسیم کردیں۔ اس صورت میں تو بکری مرے گی اور نہ ہی کسی کی حق تلفی ہوگی سب کو اپنا حصہ مل جائے گا۔ حصے کے ملنے کا تعلق اس بات سے ہے کہ کرنسی چھوٹے چھوٹے حصے میں اور اسے چھوٹے چھوٹے حصے Unit میں تقسیم ہوسکتے ہیں جو ایک سالم بکری کی صورت میں ممکن نہیں ہی۔
 کرنسی کا ایک تنقیدی جائزہ  :
                اس کے علاوہ بھی کرنسی کے متعلق بہت سارے مسائل جو کافی غور و طلب ہیں مثلاً کرنسی کا کیا معیار ہونا چاہےی۔ پہلے زمانے میںکرنسی کا معیار سونا ہوتا تھا اکثر و بیشتر لوگ کرنسی کو سونے اور چاندی سے بناتے تھے اگر کچھ ممالک یا حکومتیں سونے اور چاندی کے دھات سے کرنسی نہیں بناپاتی تو بھی کرنسی کا معیار سونا ہی رکھتی تھی۔ موجودہ دور میں ہم جو کرنسی استعمال کررہے ہیں اسے فیٹ منی (Fiat Money) کہتے ہیں۔ فیٹ منی کے معنی ہوتے ہیں کرنسی کی اصل قیمت اس کی مسمیٰ قیمت (Face Value) سے کم ہی۔ مثال کے طور پر ہزار روپے کا نوٹ لے لیجئے ہزار روپے کے نوٹ کو بنانے کے لیے پچاس روپیہ خرچ ہوتا ہے تو ہزار روپے کے نوٹ کی اصل لاگت پچاس روپے ہے لیکن اس کی قیمتی قیمت ایک ہزار ہی۔ آج کی دنیا میں اسی طرح کے کرنسی کا رواج ہی۔ لیکن ان کرنسی کے پیچھے ان کی مسمیٰ قیمت کے بقدر سونا بطور ضمانت رکھنا ضروری ہوتا ہی۔ لیکن دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔ لہٰذا اب کرنسی کے مسمیٰ قیمت کے پیچھے سو فیصد سونا بطور ضمانت رکھنا ضروری نہیں رہ گیا۔
                                اسی وجہ سے کرنسی کا اصل معیار باقی نہیں رہا۔ امریکہ جتنابھی ڈالر چاہے چھاپ سکتا ہے اس کے پیچھے کتنا سونا بطور ضمانت رکھا گیا ہے کسی کو معلوم نہیں ہے اور اگر کسی ملک کے پاس ڈالر کا انبار ہے اور وہ امریکہ سے اس ڈالر کے بقدر سونا طلب کرے تو اسے سونا نہیں دیا جائے گا اور جن ممالک نے بھی امریکہ سے سونے کا مطالبہ کیا ہے دنیاکے نقشے میں ان کا وجود خطرے میں ہی۔ جو لوگ اخبار عالم پر نظر رکھتے ہیں تو بحسن و خوبی اس حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کرنسی کا ایک معیار ہونا بہت ہی ضروری ہی۔ اس کے بغیر کسی چیز کی صحیح مالیت کا پتہ لگانا بہت ہی مشکل ہوگا۔ اسی وجہ سے آج پوری دنیا میں افراط زر (inflation) کا مسئلہ ہی۔ اشیاء کی قیمتیں بے تہاشہ بڑھ رہی ہیں اور اس کا کوئی مؤثر تدارک نہیں ہوپارہا ہی۔ حکومتیں پیداوار بڑھانے کے بجائے کرنسی چھاپنے میں مصروف رہتی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے بے حد خطرناک چیز ہی۔ آج لوگ میڈلسٹ کی چمک دیکھ کر اسلامی بینکنگ پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف ہیں اور لوگوں کی توجہ اسلامی معاشیات سے بالکل ہٹ گئی ہی۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اسلامی معاشیات ایک کتابی چیز ہے اس کا بینکنگ اور فائنانس سے کوئی تعلق نہیں ہے حالانکہ اسلامی معاشیات اسلامی بینکنگ کی ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہی۔ اگر ملک کی معیشت اسلام کے اصولوں و ضوابط سے میل نہیں کھاتی ہے تو اسلامی بینکنگ کو بھی سود سے مصالحت کرنی پڑے گی۔اسلامی بینکنگ اسلام کے وضع کردہ اصولوں پر کام نہیں کرسکے گی۔ کرنسی کا چھاپنا کسی بینک کا کام نہیں ہے بلکہ یہ کام ملک اور معیشت کا ہی۔ چنانچہ اگر ملک کی معیشت سود کی بیساکھی پر کھڑی ہوئی ہے تو بے چاری اسلامی بینکنگ ہرگز سود کا خاتمہ نہیں کرپائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ اسلامی بینکنگ میں کچھ ایسے گوشے ہیں جہاں مکمل طور پر سود کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہی۔
                دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب کرنسی کا معیار نہیں ہوگا تو اشیاء کے قیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکے گا۔ قرآن نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو ایک طرح کی تباہی اور بربادی سے خبردار کیا ہے اور قرآن میں تقریباً چھ سے زائد مقامات پر صحیح پیمائش کی تلقین کی گئی ہے اور غلط پیمائش کرنے والوں کو وعید کی گئی ہے چنانچہ اس اعتبار سے کرنسی کا ایک صحیح معیار ہونا بہت ہی ضروری چیز ہی۔ اسلامی معاشیات کے اس پہلو پر کام ہونا ابھی باقی ہی۔ کچھ لوگوں نے ملیشیا اور ہندوستان میں اس موضوع پر کام کیا ہے لیکن یہ کام مزید تحقیق و تخریج کا طالب ہی۔
                ایک بہت ہی خطرناک مغالطہ (Confusion) لوگوں کے ذہن میں کرنسی کے متعلق پیدا ہوگیا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ کرنسی کو ایک شئے  (Commodity) کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے کرنسی ایک معیار اور ترازو کا نام ہے جس کا کام اشیاء کی مالیت کا اندازہ لگانا ہی۔ اگر کرنسی اشیاء کے مانند ہے تو کرنسی کی اجرت اور رہن پر دینا جائزہ ہوجائے گا اور لوگوں کو سودی کاروبار کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اسی وجہ سے اسلام میں کرنسی بطور اجارۃ دے کر اس پر ایک متعین کرایہ کی رقم نہیں وصول کی جاسکتی اور نہ ہی کرنسی کو ذخیرہ کرنا چاہیے کیونکہ کرنسی کی مثال ایک پوسٹ مین کی طرح ہے جو ہرگھر جاکر لوگوں کو ان کے اہم خطوط (Letters) دینا ہی۔ اگر پوسٹ مین کو کسی گھر میں بند کردیا جائے تو وہ دوسرے لوگوں کو ان کے اہم خطوط نہیں پہنچا سکے گا۔ خط نہ ملنے کی صورت میں لوگوں کا نقصان ہوجائے گا۔ بالکل یہی کیفیت کرنسی کے ساتھ ہی۔ کرنسی کا معیشت میں ایک اہم کام ہے اگر کسی نے اس کو ایک بکس میں بند کرنا شروع کردیا یا کرائے پر کسی کو دے دیا وہ اپنا کام اچھے طریقے سے نہیںکرسکے گا۔ اس حالت میں کرنسی کی کیفیت بالکل ایک قیدی جیسی ہوجائے گی۔ انہی مسائل کا خیال کرتے ہوئے شریعت نے کرنسی کے بے جا استعمال سے لوگوں کو روکا ہے اور کرنسی کا بے جا استعمال یہی ہے کہ اسکو جمع کیا جائے یا اسکو کرائے پر دیا جائی۔
                 

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP