ذرا نگاہ کبھی اپنے چار سو تو کرو
وہ مل ہی جائے گا تم اس کی جستجو تو کرو
جنوں کا ڈھونگ رچانے سے کچھ نہیں ہوتا
کرے گا دشت سواگت، پہ ہاؤ ہو تو کرو
میں اپنے عکس سے کچھ دیر گفتگو کر لوں
وہ آئنہ ہے اسے میرے روبرو تو کرو
نہیں اٹھائے گا انگلی کوئی تمھاری طرف
جو کر رہا ہے زمانہ، وہ ہوبہو تو کرو
نکل ہی آتا ہے ہر مسئلے کا حل کوئی
سکوں سے بیٹھ کے تم مجھ سے گفتگو تو کرو
ہزار پھول سرِ راہ مسکرائیں گے
خلوصِ دل سے تمنائے رنگ و بُو تو کرو
تمھارا رنگِ سخن جاوداں بھی ٹھہرے گا
فصیح پہلے تم اپنا جگر لہو تو کرو
شاہین فصیح ربانی
Thursday, December 26, 2013
غزل
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment