نور محمدخان .ممبئی
عالمی سطح سے لیکر مقامی سطح تک قوموں کی قیادت کی لمبی فہرست اور مثال موجود ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی یہودیت اور عیسائیت سے لیکر نیلسن منڈیلا ،سنگھ پریوار نیزبابا صا حب امبیڈکر تک مختلف قوموں کی قیادت نے کامیابی وترقی کے تمام ارتقائی منازل طے کئے ہیں جسے قومیں صدیوں یاد رکھتی ہیں اور اس قیادت کے نقش قدم پر چلتی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ امت محمدیہ ؐ مسلماںکو جسے ماضی حال اور مستقبل کا کافی علم دیا گیا آج حیران اور ناوقف راہ بھٹک کر دنیا کی تاریکیوں سے روشنی کی بھیک مانگ رہی ہے ؟
عالمی سطح سے لیکر مقامی سطح تک قوموں کی قیادت کی لمبی فہرست اور مثال موجود ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی یہودیت اور عیسائیت سے لیکر نیلسن منڈیلا ،سنگھ پریوار نیزبابا صا حب امبیڈکر تک مختلف قوموں کی قیادت نے کامیابی وترقی کے تمام ارتقائی منازل طے کئے ہیں جسے قومیں صدیوں یاد رکھتی ہیں اور اس قیادت کے نقش قدم پر چلتی ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ امت محمدیہ ؐ مسلماںکو جسے ماضی حال اور مستقبل کا کافی علم دیا گیا آج حیران اور ناوقف راہ بھٹک کر دنیا کی تاریکیوں سے روشنی کی بھیک مانگ رہی ہے ؟
دور رسالتؐ ،دورخلافت راشدہ اوربعد کی مسلم حکومتوں میں مسلمانوں کی قیادت کی روشن مشال موجود ہے لیکن اکیسویں صدی کی مسلم قیادت کا ذکر کریں تو معلوم یہ ہوگا کہ عالمی سطح سے لیکر مقامی سطح تک مسلم قیادت ناکام ثابت ہوئی ہے عالمی سطح کی قیادت کا پس منظر یہ ہے کہ فلسطین میں غاصب ریاست اسرائیل اور یہودیوں کے قیام نے امت محمدیہ مسلمان کو یہ بتا دیا ہے کہ جس قوم میں اتحادہوتا ہے وہ قوم طاقتور ہو تی ہے اور یہودیت نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرکے فلسطین پر قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ سیکڑوں مساجد کو شہید کر دیا اور اب مسجد اقصی کو شہید کرکے ہیکل سلیمانی تعمیر کرنے کی تیاری میں ہی۔ افریقی گاندھی نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کو گورے لوگوں کی اذیتوں سے آزادی اور حقوق کے لئے تحریک چلائی برسوں تک قید خانوںمیں مقید رہنے کے بعدرہائی ہی نہیں ملی بلکہ قوم کو آزادی اور حقوق کی حصولیابی میں کامیابی حاصل کی وطن عزیز میں دیوی دیوتائوں اور پتھروں کی پوجا کرنے والے ہندو کٹر پنتھی آر ایس ایس نے ہندوئوں کو رام کے نام پر متحد کرکے ملک پر حکومت ہی نہیں کی بلکہ قدیم مسلمانوں کی عبادت گاہ بابری مسجد کو شہید کرکے رام مندر کی تعمیر کا آغاز بھی کردیا ۔بابا صاحب بھیم رائو امبیڈ کر نے دلتوں پر ہونے والے مظالم سے مقابلہ کرنے اور حقوق کی حصولیابی کے لئے قوم کو بیدار کیا اور جب یہ قوم بیدار ہوگئی تب ملک کی سیاست میں حصہ داری اور ریاست میں حکومت کی جس کی بدولت دلت قوم ترقی کی جانب قدم بڑھاتی چلی گئی ۔علاوہ اس کے آرٹیکل ۰۷۳ میں سے جب اقلیتوں میں عیسائی، سکھ ،دلتوںاور مسلمانوں کو صدارتی حکم کے مطا بق ریزرویشن سے خارج کر دیا تب اول سکھوں نے تحریک چلا کر ریزرویشن میں شمولیت اختیار کی اس کے بعد دلتوں کی تحریک کے آگے حکومت نے گھٹنے ٹیک کر دلتوں کو ریز رو یشن میں شامل کرلیا لیکن مسلمانوں کی بد نصیبی کہ آج تک مسلمانوں میں پچھڑی قوم کو ریزرویشن میں شامل نہیں کیا گیا گذشتہ ۵۴ برسوں سے جن لوک پال بل کو حکومت نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا تھا جو ملک میں ہونے والی بدعنوانی و دیگر نکات پر مشتمل بل ملک اور عوام کی مفاد میںتھا اس بل کو نافذ کرنے کے لئے اکیسویں صدی کا گاندھیائی لیڈر انا ہزار ے نے احتجاج کرکے آخر کا ر بل کو نافذ کرانے میں کامیابی حاصل کرلی جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی یہ مختصر سا خاکہ دیگر قوموں کی قیادت کا تاریخی منظر تھا ۔
8
وطن عزیز میں مسلم لیڈران ،مسلم تنظیمیں ،سیاسی علماء اکرام کو عام مسلمانوں کی قیادت کا خطاب حاصل ہے اور اکیسویں صدی کی مسلم قیادت کا تاریخی پس منظر نہایت ہی المناک ہے
بابری مسجد میں بت رکھے جانے سے لیکر مسجد کی شہادت اور فرقہ وارانہ فسادات سے لیکر بم دھماکوں تک عام مسلمانوں کو ہر محاذ پر مسلم قیادت کی دعویداری کے باوجود ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ۔یہاں تک کہ مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر ہوگئی ۔لیکن مسلم قیادت ہے کہ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا مسلمانوں کے مکانوں کوآگ لگا کر اس کی روشنی میں تباہی کا منظرمسلم قیادت کو دکھایا گیا ۔یہی نہیں بلکہ۲۹۹۱ کے بعد بم دھماکوں کے الزامات میں بے قصور تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کوپھنسایا گیا ۰۲ برس کے طویل عرصے میںبم دھماکوں کے بے بنیاد الزامات سے عدالت نے درجنوں افراد کو باعزت بری کردیا جامعہ ٹیچر سولیڈریٹی کی رپورٹ یہ بتا تی ہے کہ عدالت نے رہائی کے دوران ان افسران پر کاروائی کا حکم بھی صادر کیا تھا جن افسران نے بے قصوروں کو گرفتار کرکے ان کا مستقبل خراب کیا اس کے باوجود مسلم لیڈران ،مسلم تنظیمیں اور سیاسی علماء اکرام خاموش ہیں ۔اس ضمن میں آج تک قیادت کی جانب سے کوئی تحریک نہیں چلائی گئی عام مسلمانوں کی حالت کا تذکرہ کیا جائے تو معلوم یہ ہو گا کہ ماضی میں بزرگوں نے اپنی جائداد کو قوم کے نام وقف کردیا تھا تاکہ مستقبل میں عام مظلوم ،مفلس ،مسکین،غریب مسلما ن اس جائداد سے استفادہ کریں ۔ملک میں کم و بیش ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ وقف کی ملکیت ہے جس پر سرکاری قبضہ کے علاوہ ایسے مسلمانوں کا قبضہ ہے جن کو اس جائداد کی حفاظت اور مسلمانوں کے امداد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن غریبوں کی امانت میں خیانت کرنے والے مسلمانوں کی بدولت آج مسلمانوں کی حالت دلتوں اور پچھڑی ذاتوں سے بھی بدتر ہوگئی ہے اب ایسی صورت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات کا ذمہ دار کون ہے ؟
آخری بات یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی قیادت متحرک ہوتی تو یقینی طور پرفرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کی نسل کشی نہیں ہوتی اور نہ ہی فرقہ وارانہ فسادات پر مبنی جانچ کمیشنوںکا قیام عمل میں آتا (جو کہ فسادات سے پیدا ہونے والے عوامی غصے کو کم کرنے کیلئے ہی کیا جاتا ہے )مسلم لیڈران کو اگر عام مسلمانوں کی فکر ہوتی تو وقف بورڈ کی ملکیت سے ہونے والی آمدنی سے مطلقہ اور بیوہ خواتین کو وظیفہ ملتا اورنوجوان لڑکیوں کے ہاتھوں میں مہندی سجنے کی بجائے قحبہ خانوں کی زینت نہ بنتی مسلم تنظیموں اور سیاسی علماء اکرام کو اگر عام مسلمانوں کی فکر ہوتی تو دہشت گردی کے الزامات میں بے قصوروں کی گرفتاری نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے ماتھے پر دہشت گردی اور دلتوں سے بھی بدتر کا بد نما داغ لگتا اور نہ ہی مسلم قیادت شرمشار ہوتی ۔کاش کہ اناہزارے سے مسلم قیادت سبق حاصل کرتی ۔
نور
محمد خان ۔029516236
No comments:
Post a Comment