ان
مسلمانوں کو، جو کہتے ہیں کہ اردو پڑھنے سے کیا ہوگا اس سے نوکری نہیں ملتی، سشیل
کمار سے سبق سیکھنا چاہیے
قسمت
جب مہربان ہوتی ہے تو ایسے ہوتی ہے۔ کل تک چھ ہزار روپے ماہانہ کمانے والا سشیل
کمار ایک گھنٹے کے اندر اندر پانچ کروڑ روپے کا مالک بن گیا۔ اس کی زندگی اچانک
بدل گئی اور ہندوستان کے کروڑوں گمنام لوگوں میں شامل یہ نوجوان یکلخت پورے ملک کے
نوجوانوں کا ہیرو بن گیا۔ اس واقعہ کی تفصیلات پر آگے چل کر روشنی ڈالیں گے۔ پہلے
یہ بتا دیں کہ وہ کون سی بات ہے جس نے ہمیں اس موضوع پر لکھنے کے لیے آمادہ کیا۔
در اصل سشیل کمار اردو کا شیدائی ہے۔ اسے اردو زبان بہت اچھی لگتی ہے۔ اسے شاعری
پسند ہے اور افسانے بھی اچھے لگتے ہیں۔ وہ گذشتہ کچھ دنوں سے اردو سیکھ رہا ہے اور
اس نے ایک نیوز چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اردو
سیکھنا اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک کہ وہ پوری طرح اردو لکھ پڑھ نہیں لیتا۔
سشیل کمار کا یہ عزم ان تمام لوگوں کے لیے ایک تازیانہ ہے جو اردو والے ہوتے ہوئے بھی اردو سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جن کی مادری زبان اردو ہے اور پھر بھی وہ روزمرہ کی زندگی میں ہندی یا انگیزی کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو اردو اخبارات کی جگہ پر ہندی اور انگریزی اخبارات خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ اردو پڑھنے سے کیا ہوگا نوکری تو ملے گی نہیں۔ جو اردو میڈیم سے تعلیم کے مخالف ہیں اور جو اپنے بچوں کو اردو کی بجائے دوسری زبانیں پڑھاتے ہیں۔ سشیل کمار ایسے لوگوں کے لیے ’’پریرنا شروت‘‘ ہے جن کے آبا واجداد اردو والے تھے اور جو اب اردو سے اپنا رشتہ توڑ چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اس نوجوان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایک ایسا نوجوان جس کے پاس اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور جو بے حد مفلوک الحالی میں پڑھائی کر رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ ایک اضافی زبان اردو بھی سیکھ رہا ہے جو کہ نہ تو اس کی مادری زبان ہے اور نہ ہی جسے اس کے اہل خانہ بولتے ہیں۔وہ اسے پوری طرح سیکھنے اور لکھنے پڑھنے کا عزم رکھتا ہے۔ وہ مسلم گھرانے جو اردو سے کنارہ کش ہو گئے ہیں اس نوجوان سے نصیحت پکڑیں اور خود بھی اپنی مادری زبان اردو سیکھیں اور پڑھیں اور اپنی اولاد کو بھی پڑھائیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ دوسری زبانیں نہ پڑھیں، پڑھیں اور ضرور پڑھیں لیکن اپنی زبان کو نہ چھوڑیں۔ یہ کوئی معقول دلیل نہیں کہ اردو پڑھنے سے چونکہ نوکری نہیں ملتی اس لیے ہم اردو والے ہو کر بھی اردو نہیں پڑھیں گے۔ کیا سشیل کمار کو اردو زبان سے نوکری ملے گی؟ کیا اس نے اس لیے اس زبان کو سیکھنا شروع کیا کہ وہ اس کو ذریعہ معاش بنائے گا؟ کیا اس نے اردو سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسے سیکھنا شروع کیا؟ اور کیا اب قومی ہیرو بن جانے کے بعد بھی اردو پڑھنے کے عزم کے اظہار کے پیچھے کوئی مفاد پرستی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سشیل کمار جہاں اپنی محنت، لگن، اور قابلیت کی وجہ سے ہماری مبارکبادیوں کا مستحق ہے وہیں وہ اس لیے بھی ہماری مبارکبادی اور شکریے کا مستحق ہے کہ وہ اردو والا نہ ہو کر بھی اردو پڑھ رہا ہے، اسے سیکھ رہا ہے اور اردو زبان سے اس کی شاعری سے اور اس کے افسانوں سے محبت رکھتا ہے۔ اگر اس کا یہ جذبہ قائم رہا تو امید کی جانی چاہیے کہ اس ملک میں جہاں اردو والے دن بہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں کم از کم اس کے چاہنے والوں اور اس کے پڑھنے والو ں میں ایک قابل ذکر شخصیت کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ نوجوان آئی اے ایس بننا چاہتا ہے۔ ہماری دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اگر وہ آئی اے ایس بن گیا تب بھی او رنہیں بنا تب بھی اردو سے پیار کرتا رہے گا۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک مقبول نیوز چینل ’’ٹائمس ناؤ‘‘ نے اس سے جب ایک طویل انٹرویو کیا اور بہت سارے سوالات کیے تو اسی دوران اس نے اردو سے اپنے عشق کا اظہار کیا۔ حالانکہ چینل کی اینکر نے اس سلسلے میں اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے از خود کہا کہ اسے مطالعے کا شوق ہے اور اسے اردو زبان بہت اچھی لگتی ہے، وہ اردو سیکھ رہا ہے اور اب اسے سیکھنا اور لکھنا پڑھنا مزید جاری رکھے گا۔ اگر اینکر نے اس سلسلے میں اس سے مزید وضاحت چاہی ہوتی تو ہمارا خیال ہے کہ ہم اردو زبان کے بارے میں اس نوجوان کے مزید خیالات جان پاتے۔ لیکن اینکر نے اس سوال کو آگے نہیں بڑھایا۔ بہر حال یہ بہت اچھی اور حوصلہ افزا بات ہے کہ اس ملک میں جہاں اردو سے اس قدر نفرت کی جاتی ہے کہ اسے تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، اسے غیر ملکی زبان کہا جاتا ہے، اس کی تعلیم کے راستے میں جان بوجھ کر دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں، اس کے نام پر فسادات برپا کیے جاتے ہیں اور خود اردو والے بھی اس سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس واقعہ سے ہمیں ایک اور پیغام ملتا ہے۔ وہ یہ کہ اردو واقعی گنگا جمنی تہذیب کی زبان ہے۔ پیار محبت اور دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ وہ اپنی شیرینی اور مٹھاس کی وجہ سے بیگانوں کو بھی اپنی جانب راغب کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ اس زبان کے فروغ میں مسلمانوں کے علاوہ ہندووں کا بھی قابل ذکر حصہ ہے، ان کی خدمات ہیں اور ان کی قربانیاں ہیں۔ حالانکہ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اردو صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن جب بھی ایسے خیالات مضبوط ہونے لگتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ہو جاتا ہے جو یہ احساس دلاتا ہے کہ نہیں اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ پہلے بھی اس کے چاہنے والوں اور اس سے عشق کرنے والوں میں ہندووں کی بڑی تعداد شامل رہی ہے اور اب بھی ایسے ہندووں کی کمی نہیں ہے جو اردو کے دیوانے ہیں۔ جب تک سشیل کمار جیسے لوگ اس ملک میں ہیں اردو کو کوئی فنا نہیں کر سکتا، اسے کوئی مٹا نہیں سکتا اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ لاکھ مخالفانہ ہوائیں چلیں اور اس کے چراغ کو بجھانے کے لیے کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کی جائیں اس کو کوئی نہیں بجھا سکتا۔ اس کا اجالہ ذہن کی تاریکیوں کو دور کرتا رہے گا۔
سشیل کمار کا یہ عزم ان تمام لوگوں کے لیے ایک تازیانہ ہے جو اردو والے ہوتے ہوئے بھی اردو سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جن کی مادری زبان اردو ہے اور پھر بھی وہ روزمرہ کی زندگی میں ہندی یا انگیزی کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو اردو اخبارات کی جگہ پر ہندی اور انگریزی اخبارات خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ اردو پڑھنے سے کیا ہوگا نوکری تو ملے گی نہیں۔ جو اردو میڈیم سے تعلیم کے مخالف ہیں اور جو اپنے بچوں کو اردو کی بجائے دوسری زبانیں پڑھاتے ہیں۔ سشیل کمار ایسے لوگوں کے لیے ’’پریرنا شروت‘‘ ہے جن کے آبا واجداد اردو والے تھے اور جو اب اردو سے اپنا رشتہ توڑ چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اس نوجوان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایک ایسا نوجوان جس کے پاس اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے پیسے نہیں تھے اور جو بے حد مفلوک الحالی میں پڑھائی کر رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ ایک اضافی زبان اردو بھی سیکھ رہا ہے جو کہ نہ تو اس کی مادری زبان ہے اور نہ ہی جسے اس کے اہل خانہ بولتے ہیں۔وہ اسے پوری طرح سیکھنے اور لکھنے پڑھنے کا عزم رکھتا ہے۔ وہ مسلم گھرانے جو اردو سے کنارہ کش ہو گئے ہیں اس نوجوان سے نصیحت پکڑیں اور خود بھی اپنی مادری زبان اردو سیکھیں اور پڑھیں اور اپنی اولاد کو بھی پڑھائیں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ دوسری زبانیں نہ پڑھیں، پڑھیں اور ضرور پڑھیں لیکن اپنی زبان کو نہ چھوڑیں۔ یہ کوئی معقول دلیل نہیں کہ اردو پڑھنے سے چونکہ نوکری نہیں ملتی اس لیے ہم اردو والے ہو کر بھی اردو نہیں پڑھیں گے۔ کیا سشیل کمار کو اردو زبان سے نوکری ملے گی؟ کیا اس نے اس لیے اس زبان کو سیکھنا شروع کیا کہ وہ اس کو ذریعہ معاش بنائے گا؟ کیا اس نے اردو سے فائدہ اٹھانے کے لیے اسے سیکھنا شروع کیا؟ اور کیا اب قومی ہیرو بن جانے کے بعد بھی اردو پڑھنے کے عزم کے اظہار کے پیچھے کوئی مفاد پرستی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سشیل کمار جہاں اپنی محنت، لگن، اور قابلیت کی وجہ سے ہماری مبارکبادیوں کا مستحق ہے وہیں وہ اس لیے بھی ہماری مبارکبادی اور شکریے کا مستحق ہے کہ وہ اردو والا نہ ہو کر بھی اردو پڑھ رہا ہے، اسے سیکھ رہا ہے اور اردو زبان سے اس کی شاعری سے اور اس کے افسانوں سے محبت رکھتا ہے۔ اگر اس کا یہ جذبہ قائم رہا تو امید کی جانی چاہیے کہ اس ملک میں جہاں اردو والے دن بہ دن کم ہوتے جا رہے ہیں کم از کم اس کے چاہنے والوں اور اس کے پڑھنے والو ں میں ایک قابل ذکر شخصیت کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ نوجوان آئی اے ایس بننا چاہتا ہے۔ ہماری دعائیں اس کے ساتھ ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اگر وہ آئی اے ایس بن گیا تب بھی او رنہیں بنا تب بھی اردو سے پیار کرتا رہے گا۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک مقبول نیوز چینل ’’ٹائمس ناؤ‘‘ نے اس سے جب ایک طویل انٹرویو کیا اور بہت سارے سوالات کیے تو اسی دوران اس نے اردو سے اپنے عشق کا اظہار کیا۔ حالانکہ چینل کی اینکر نے اس سلسلے میں اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے از خود کہا کہ اسے مطالعے کا شوق ہے اور اسے اردو زبان بہت اچھی لگتی ہے، وہ اردو سیکھ رہا ہے اور اب اسے سیکھنا اور لکھنا پڑھنا مزید جاری رکھے گا۔ اگر اینکر نے اس سلسلے میں اس سے مزید وضاحت چاہی ہوتی تو ہمارا خیال ہے کہ ہم اردو زبان کے بارے میں اس نوجوان کے مزید خیالات جان پاتے۔ لیکن اینکر نے اس سوال کو آگے نہیں بڑھایا۔ بہر حال یہ بہت اچھی اور حوصلہ افزا بات ہے کہ اس ملک میں جہاں اردو سے اس قدر نفرت کی جاتی ہے کہ اسے تقسیم ہند کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، اسے غیر ملکی زبان کہا جاتا ہے، اس کی تعلیم کے راستے میں جان بوجھ کر دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں، اس کے نام پر فسادات برپا کیے جاتے ہیں اور خود اردو والے بھی اس سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اس واقعہ سے ہمیں ایک اور پیغام ملتا ہے۔ وہ یہ کہ اردو واقعی گنگا جمنی تہذیب کی زبان ہے۔ پیار محبت اور دلوں کو جوڑنے والی زبان ہے۔ وہ اپنی شیرینی اور مٹھاس کی وجہ سے بیگانوں کو بھی اپنی جانب راغب کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ اس زبان کے فروغ میں مسلمانوں کے علاوہ ہندووں کا بھی قابل ذکر حصہ ہے، ان کی خدمات ہیں اور ان کی قربانیاں ہیں۔ حالانکہ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اردو صرف مسلمانوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔ لیکن جب بھی ایسے خیالات مضبوط ہونے لگتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ہو جاتا ہے جو یہ احساس دلاتا ہے کہ نہیں اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ پہلے بھی اس کے چاہنے والوں اور اس سے عشق کرنے والوں میں ہندووں کی بڑی تعداد شامل رہی ہے اور اب بھی ایسے ہندووں کی کمی نہیں ہے جو اردو کے دیوانے ہیں۔ جب تک سشیل کمار جیسے لوگ اس ملک میں ہیں اردو کو کوئی فنا نہیں کر سکتا، اسے کوئی مٹا نہیں سکتا اسے کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ لاکھ مخالفانہ ہوائیں چلیں اور اس کے چراغ کو بجھانے کے لیے کتنی ہی سازشیں کیوں نہ کی جائیں اس کو کوئی نہیں بجھا سکتا۔ اس کا اجالہ ذہن کی تاریکیوں کو دور کرتا رہے گا۔
-
سہیل انجم
No comments:
Post a Comment