آیا تھا اپنے دیس میں اک خوش نوا فقیر
آیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گيا
سنسان راہیں خلق سے آباد ہوگئيں
ویران میکدوں کا نصیبا سنور گیا
تھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیا
اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدا نما
اور پھر سے اپنے دیس کی راہیں اداس ہیں
چند اک کو یاد ہے کوئی اس کی اداۓ خاص
وہ ایک نگاہیں چند عزیزوں کے پاس ہیں
پر اس کا گیت سب کے دلوں میں مقیم ہے
اور اس لے سے سیکڑوں لذت شناس ہیں
اس گیت کے تمام محاسن ہیں لازوال
اس کا وفور اس کا خروش اس کا سوز وساز
یہ گیت مثل شعلہ ، جوالہ تندوتیز
اس کی لپک سے بعد فنا کا جگرگداز
جیسے چراغ وحشت صر صر سے بے خبر
یا شمع بزم صبح کی آمد سے بے خبر
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment