آداب و تسلیماتآپ تمام حضرات کا بے حد شکریہ جنہوں نے لفظ "جان کاری" پر بر محل تبصرہ فرمایا اور قارئین کرام کے علم میں اضافہ فرمایا. فی الحقیقت ایسی علمی بحث اردو زبان کی ترویج و ترسیل کے لئے بے حد ضروری ہے اور بحث معیاری ہو تو کیا کہنے.
اول بات یہ کہ، اس بحث کا اختتام شاید اس نقطہ پر ہو سکتا ہے کہ جان کاری اور اس طرح کے دیگر الفاظ عام بول چال میں بھلے استعمال ہوں یا نہ ہوں لیکن اسے ادب میں مستعمل کرنا اور خاص کر اردو ترقی کے متعلق کام کرنے والے کسی ادارہ کے خط و کتابت میں پایا جانا معیوب بات ہے. ایسے الفاظ شاید اردو ادب کی فصاحت اور سلاست سے میل نہیں کھاتے . ایسے ہزاروں الفاظ لغت میں موجود ہیں اور ہر دور میں مستعمل بھی رہے ہیں جبکہ انکے متبادل فصیح الفاظ بھی موجود ہیں جو ذو معنی بھی ہیں اور مفرد بھی . کسی صاحب لغت کی علمیت پر بحث کرنا انکی عمر بھر کی عرق ریزی سے انکار کرنا ہے اور ہم جیسے کسی طالب علم کو یہ نا زیبا ہے .
دوم یہ کہ، محترم جناب اعجاز شاہین صاحب سے التماس ہے کہ وہ اردو لغت، الفاظ اور صرف و نحو پر اپنا سابقہ سلسلہ پھر سے جاری کریں. ہم جیسے کئی طالب علم ہیں جو ان سے استفادہ کرتے رہے ہیں. ہاں اس بات کا اقرار کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم جیسے قارئین ایسی کسی کوششوں کی تعریف یا شکریہ تو کیا ادا کرتے کبھی ہمت افزائی تک نہیں کرتے. آخرکار ایسے سلسلے بند کر دیے جاتے ہیں.
سوم یہ کہ، محبان اردو کو یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اردو کے کئی متخصص ہیں جنہوں نے فارسی، عربی، سنسکرت زبانوں میں سے کسی ایک زبان کو اردو پر مسلط نہ کرنے پر ہمیشہ زور دیا ہے، تاکہ اردو زبان میں توازن برقرار رہے اور اردو کی اپنی انفرادیت ختم نہ ہو . معتبر اردو ادبا کا یہ بھی قول ہے کہ بول چال کی زبان اور محاورے اصل قواعد اور صرف ونحو پر بھاری رہے ہیں اور ادب نے اکثر و پیشتر اسے خوشدلی سے قبول کیا ہے۔ لیکن چلن اکثریت کے ساتھ ثابت ہونا ضروری ہے.
اردو زبان کی انفرادیت قائم رکھنے میں بہت سے عناصر کارفرما رہے ہیں جن میں مرکب الفاظ کی اپنی خاصیت ہے. زیادہ تر مرکب الفاظ کسی بھی دو داخلی یا خارجی الفاظ سے ملکر بنے ہیں. تبصرہ میں صحیح فرمایا گیا کہ لفظ "جان" ہندی، سنسکرت لفظ سے اخذ کیا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ "جن" یا " گیان" دونوں سے اخذ کیا گیا ہو، جس میں جن سے جان بمعنی انسان کے اور گیان سے جان بمعنی سمجھ کے شاید لیا گیا ہو. اردو لغت میں جاننا اور جاننا بوجھنا، جان بوجھ کر وغیرہ محاورے درج ہیں اور بمعنی واقفیت کے لیے گئے ہیں. بعد میں بطور مترادف الفاظ جیسے جان پہچان یا جان بوجھ جو سمجھ بوجھ کا متبادل ہے رائج ہوئے ہونگے. اردو و فارسی کے شعرائے کرام جیسے غالب و اقبال کے اشعار میں لفظ جان فارسی قواعد کے اضافی کے ساتھ بمعنی انسانی جان کے بھی مستعمل رہا ہے اس لئے یہ بھی ممکن ہے کہ یہ لفظ فارسی زبان میں بھی مستعمل ہو یا اخذ کیا گیا ہو۔
" لفظ کاری "کار" سے اخذ کیا گیا ہے جو فارسی زبان کا لفظ ہے. لفظ کار امر ہے کاشتن کا. مصدر کاشتن کے معنی ہیں بونا یا کھیتی باڑی یا زراعت یا کسی قسم کا کام. اسی طرح مرکب لفظ "جان کار" رائج ہوا ہوگا. لغت میں جان کار اور جان کاری دونوں الفاظ درج کیے گئے ہیں.
جگر صاحب کے اس شعر سے لفظ جان کا بمعنی سمجھ کے مستعمل ہونا ثابت ہے.
"جان کر من جملہ خاصانہء میخانہ مجھے......مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے".
خاکسارزبیر
No comments:
Post a Comment