اہالیان مالیگاؤں نے ہم مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرکے اپنی
سماجی و ملی بیداری کا ثبوت دیا
( سات محروسین اور ان کے اہل خانہ سے عبدالحلیم صدیقی کی خصوصی ملاقات کے اقتباسات پیش ہیں )
(۱) ہمارا ساتھ بہت ظلم ہوا (شبیر احمد مسیح اللہ)
شبیر احمد مسیح اللہ کے گھر آج ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔ ان میں ان کے کاروباری احباب ، تاجر، تعلیم کے زمانے کے دوست اور رشتہ دار و پڑوسی سبھی ہیں ۔ جمعتہ علماء مالیگاؤں کا ایک وفد بھی گلدستہ اور مٹھائیاں لئے ہوئے مفتی آصف انجم کی قیادت میں براجمان ہے اور شبیر احمد انکے بھائی جمیل احمد کا خیر مقدم کیا جارہا ہے ۔
شبیر احمد کے مطابق رات ۳؍ بجے جب ہمارا قافلہ شہر میں داخل ہوا تو ہم یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ پورا شہر جاگ رہا ہے ۔ جگہ جگہ روشنی ہے ، اور خوشی کا ماحول ہے واقعی یہ شہر بیدار شہر ہے ۔ ہم اس کی بیداری کو سلام کرتے ہیں ۔ مشاورت چوک میں جس طرح سے ہمارا استقبال کیا گیا ہم کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچ سکتے تھے ۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے چار بج گئے پانچ سال کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملنے کی خوشی کیا ہوگی ہم بیان نہیں کرسکتے ۔ میرے بچے اسریٰ ، مجاہد عالم ، ذکرٰی ، معاذ ارقم ، پوری رات جاگتے جاگتے میرا انتظار کررہے تھے ۔ میں سب سے پہلے اپنے والد بزرگوار سے ملا فرط جذبات سے ان کی آنکھیں نم تھیں اور وہ اپنی زبان سے کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے ۔ جب مالیگاؤں بلاسٹ ہوا تو میں خود ٹرین بلاسٹ میں جیل میں بند تھا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مجھے اس دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بنا کر پیش کیا گیا ہے جیل کے اندر ابتدائی دنوں میں پوچھ تاچھ اور تحقیقات کے نام پر ہم لوگوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ میں ان تلخ یادوں سے آج ان مسرت آگیں لمحات کو برباد کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن اللہ نے مجھے صبر دیا اور میں اس مصیبت کو جھیل گیا خدا کا شکر ہے کہ چارج شیٹ کے تمام الزامات کو میں نے دوسرے ہی دن جج کے سامنے مسترد کرتے ہوئے انھیں باور کردیا کہ اعترافی بیان پر دستخط دباؤ اور ظلم کے ذریعے لئے گئے ہیں ۔ جیل جانے سے پہلے کنگ آف بیٹری کہلانے والے شبیر احمد کی معثیت پوری طرح تباہ ہوچکی ہے ۔ میں جلد از جلد اپنے کاروبار کو پھر سے کھڑا کرنا چاہتا ہوں ۔
(۲) مالیگاؤں کی عوام نے ثابت کردیا کہ وہ بیدار شہری ہیں (ڈاکٹر سلمان فارسی)
مضبوط قوت ارادی کے مالک ڈاکٹر سلمان فارسی جیل سے رہا ہونے کے دوسرے ہی دن اپنی بیگم ڈاکٹر نفیسہ کے مطب میں آبیٹھے کل سے وہ باقائدہ مریضوں کی تشخیص اور علاج و معالج کا سلسلہ شروع کررہے ہیں۔ ان کی گود میں اس وقت مطؤنہ موجود ہے ۔ مطۂنہ یہاں کے جے اے ٹی اسکول میں جماعت پنجم کی طالبہ ہے اور بیٹا عدی مقاتر بھی اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں پانچویں پڑھ رہا ہے ۔ بڑ ابیٹا تمیم سالک پروگریسیو انگلش اسکول میں آٹھویں کا طالب علم ہے ۔ مالیگاؤں دھماکوں میں پھنسائے گئے ملزمین میں سب سے زیادہ پر جوش انداز ڈاکٹر سلمان فارسی کا نظر آیا انھوں نے جیل سے نکلتے وقت خالص اسلامی حلیہ بنایا تھا ۔ اس نے جمعتہ علماء مہاراشٹر کی ممبئی پریس کانفرنس میں بھی میڈیا کو مخاطب کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم اپنی رہائی کا کریڈیٹ اللہ رب العزت کو دینا چاہتے ہیں ۔ اسکے بعد اس نے کل جماعتی تنظیم ، جمعتہ علماء مہاراشٹر اور ممبئی و مالیگاؤں کی عوام سبھی چھوٹی بڑی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا تھا۔ جیل سے نکلتے ہی انھوں نے سب سے پہلے مالیگاؤں میں نہال احمد سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم لوگ رات دیر گئے مالیگاؤں پہنچیں گے ۔ لیکن سب سے پہلے آپ کے دھرنا پنڈال میں مشاورت چوک پہنچ کر آپ لوگوں کا شکریہ ادا کریں گے اور واقعہ یہی ہے کہ پورا کارواں مشاور ت چوک پہنچا اور سبھی ملزمین کی طرف سے ڈاکٹر فارسی نے مالیگاؤں کی عوام کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر فارسی نے کہا کہ انھیں جیل میں رہتے ہوئے مالیگاؤں بلاسٹ کیس کی پوری پیش رفت سے اردوٹائمز نے باخبر رکھا۔ ہم نے بہت سارے خطوط جیل سے لکھے ۔ ہمارے ساتھیوں کے خطوط اس میں شائع بھی ہوئے ۔ اردو ٹائمز نے ہمارا درد پوری دنیا تک پہنچانے کا صحافتی فریضہ انجام دیا ہے ۔ ڈاکٹر فارسی نے کہا کہ ہم سب بے گناہ اور پھنسائے گئے لوگ تھے ۔ اگر مالیگاؤں کی عوام کی مخلصانہ جدوجہد اور تعاون نہ ہوتا تو ہم ٹوٹ جاتے ۔ موصوف نے اپنی پر عزم بیگم ڈاکٹر نفیسہ کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے شوہر کی غیر موجودگی کے باوجود گھر کے حالات کو سنبھالے رکھا۔ بچوں کی پڑھائی جاری رہی اور باعزت زندگی گذرتی رہی ۔ آپ نے تمام وکلاء حضرات کا بھی شکریہ ادا کیا۔ مالیگاؤں کی عوام نے ثابت کردیا کہ وہ بیدار شہری ہیں ۔
(۳) کیا ہمیں اسلامی تشخص کی سزا مل رہی ہے ؟؟(نورالہدی شمس الضحیٰ )
میں پانچ سال پہلے ایک مزدو تھا لیکن جیل میں پانچ سال گذارنے کے دوران میں نے عربی و اردو زبان کی در س وتدریس کے جو تجربات حاصل کئے ہیں میری خواہش ہے کہ میں اپنی بی اے کی ادھوری تعلیم مکمل کرلوں اور جلد از جلد ایک معلم کی حیثیت سے اپنا کیرئیر شروع کروں ۔یہ باتیں ہیں نورالہدی کی جس نے آج اردو ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے میڈیا والے پوچھتے ہیں کہ کیوں اور کس نے پھنسایا ۔ لیکن میں جواب دیتا ہوں کہ یہ سوال تو ان ظالم افسران سے پوچھا جائے جنھوں نے ہم کوپھنسایا۔ اور پوچھا جائے کہ کیوں پھنسایا گیا کیوں اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں اور شریعت کے مطابق زندگی گذارنے میں یقین رکھتے ہیں نورالہدی نے اپنی بے گناہی پر دو ٹوک کہاکہ میں کسی بھی معاوضہ و ہر جانے سے بہلنے پھسلنے والا نہیں ہوں ۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اصل سازش کو بے نقاب کرکے ان کو جیل بھیجا جائے جو قصور وار ہیں۔
نورالہدی کے مکان واقع جعفر نگر جھوپڑپٹی میں آج جشن کا سماں ہے اس کے مکان پر پھیکا گلابی آئیل پینٹ کیا گیا ہے ۔ اور پوری گلی میں اور مکان پر چھوٹے بڑے قمقمے گلی محلے کے لوگوں نے اپنی خوشی سے آراستہ کئے ہیں۔ ملنے جلنے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے اسی لئے آج گھر کا ہر فرد موجود ہے ۔ بوڑھا باپ شمس الضحیٰ اور دیگر برادران بھی آج یہ خاندان پاورلوم مزدوری کیلئے ڈیوٹی پر نہیں گیا۔ خوشی کا عالم یہ ہے کہ گھر کے سارے بچے اور خواتین نے عید کے اٹھا رکھے گئے نئے کپڑے پہن رکھے ہیں ۔ نورالہدی کے والدنے کہا کہ ہمیں آج ادھوری خوشی ملی ہے سچی اور مکمل خوشی تو اس وقت ملتی جب حکومت سچائی جان لینے کے بعد مقدمہ واپس لے لیتی اور باعزت بری کرنے کا فیصلہ آتا۔
(۴) ’’ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آیا‘‘ ( ابرار احمد غلام احمد )
’’ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آیا‘‘ ابرار کی اپنے والدین کے گھر واپسی کا سماں اسی قول کی ترجمانی کررہا ہے ۔ 80سالہ بوڑھا باپ فرط مسرت سے روتے ہوئے اپنے لاڈلے بیٹے کو گلے لگا رہا ہے ۔ ایک دن وہ تھا جب اسی غیرت مند باپ نے اعلان کردیاتھا کہ اگر ابرار سرکاری گواہ بن گیا ہے تو اس کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہم اس کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے ۔ آج وہ دن ہے جب ابرار سب کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے ایک دن وہ تھا جب اس کے سرکاری گواہ بننے کی خبر سے پورے محلے میں غصے کی لہر پھیلی تھی اور اس عمارت کو لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے ۔ جہاں آج ابرار سے ملنے جلنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔ ابرار کے بھائی فرید نے بتایا کہ پورا محلہ رات بھر جاگتا رہا۔ ابرار گھر پہنچا سبھوں نے اسکا استقبال کرلیا۔ تب لوگ کچھ دیر کیلئے سوگئے صبح سے پھر ملاقاتیوں کا تانتا ہے۔ ابرار نے اپنی بے گناہی کے سلسلے میں کہا کہ جب مجھے چارج شیٹ کے متعلق معلوم ہوا تو میں حیرت زدہ رہہ گیا۔ جن لوگوں کو میرے نام پر پھنسایا جارہا تھا ان میں سے اکثر کو میں تو جانتا تک نہیں تھا۔ سبھی ملزمین سے میری واقفیت کورٹ کی تاریخوں پر ہوئی۔ شبیر مسیح اللہ سے انورٹر کی خریدی کرتا تھا۔ اسی لئے تھوڑا تجارتی تعلق تھا ۔ باقی لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ابرا ر نے بتایا کہ میری حماقت کی وجہ سے میرے گھر والوں نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور بم دھماکوں کے بعد 30جنوری 2009والے دن میرے بھائی جلیل احمد پہلی بار جیل میں ملاقات کیلئے پہنچے تھے ۔ اس سے قبل تو بالکل اکیلا تھا۔ جیل میں میرا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ابتدائی مہینوں میں اے ٹی ایس کے سدا نند پاٹل اور انسپکٹر سچن کدم کی جانب سے مجھے جیب خرچی کیلئے منی آرڈر ملا کرتے تھے یہ رقم دو ہزار سے لے کر پندرہ سو یا کبھی ایک ہزار بھی رہا کرتی تھی۔ ابرا رکے مطابق مجھے سرکاری گواہ بنانے کیلئے میرے سالے اور میری بیوی نے پولس سے ساز باز کی تھی اور مجھے تھپتھپائے رکھتے تھے ۔ جس وقت مجھے اپنے بھائی کی ہیبس کارپس رٹ پیٹشن کے عوض ممبئی ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا تھا تب میں پولس والوں کی گھیرا بندی اور دباؤ میں تھا ۔ مجھے سچ بولنے سے روکا گیا تھا۔ لیکن جب میں نے سچ بولنے کی ٹھانی اور اپنے گھر پر خطوط لکھے تو کوئی سال دیڑھ سال تک جواب نہیں آیا میرے گھر والے سخت ناراض تھے ۔ میں نے تقریباً 65خطوط لکھے اور معافیاں مانگیں تب 30جنوری 2009کو میرے بھائی پہلی بار جیل میں آئے اور تلقین کی کہ جو بات سچ ہے وہی کہو گے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے پھر میں نے اپریل مہینے میں نیا حلف نامہ لکھوایا اس سے قبل چار سال تک کیا چلتا رہا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔ باہر کی دنیا سے مجھے لاعلم رکھا گیا ۔ بائیکلہ جیل میں مجھے اردو ٹائمز اخبار جون 2010سے ملنا شروع ہوا جس کیلئے میں نے باقاعدہ عریضہ دیا تھا کہ مجھے روز اخبار چاہئے ۔
میں نہ صرف اخبار والوں بلکہ سبھی علماء کرام اور مسلم تنظیمیوں کا کل جماعتی تنظیم و جمعتہ علماء کا شکر گذار ہوں ۔ اس موقع پر ایڈوکیٹ جلیل انصاری نے جمعتہ علماء کے ذمہ داران ارشد مدنی ، محمود مدنی اور شفیق قاسمی وغیرہ کے خصوصی تعاون اور مستقل رابطہ کا ذکر بھی کیا اور سبھی مسلم تنظیموں کا شکریہ اداکیا۔
(۵) میں نے زندگی میں کبھی ابرار سے ملاقات نہیں کی تھی ( مولانا زاہد عبدالمجید)
مولانا زاہدیوں تو جیل سے رہا ہوچکے ہیں لیکن ڈر ، خوف ، مصیبت ان کا پیچھا نہیں چھوڑرہی ہے اس با عمل صالح فکر انسان پر ابھی اور آزمائشوں کا دور باقی ہے آج شام جب ہم نے اس سے عائشہ نگر کے ایک مکان میں ملاقات کی تو وہ اپنی والدہ کا انتطار کرتے بیٹھا تھا۔ جو رہائی ملنے کے بعد اب تک اس سے نہیں مل سکی تھی مولانا زاہد کی سیمی سے وابستگی سے سخت نالاں والد عبدالمجید ماسٹر تو اس قدر ناراض ہیں کہ جیل سے آئے بچے کو اپنے گھر میں داخل ہونے تک کی اجازت نہیں دی۔ مجبوراً زاہد اپنی خالہ کے گھر چلا گیا اور وہیں مقیم ہے ۔ زاہد کو لینے کیلئے ممبئی تک اس کی ساس مونسہ اور بیوی سلمی بھی آئیں تھیں ۔ جو چار پانچ دن تک مفتی اسمعیل کے ایم ایل اے ہاسٹل میں رہائی کی منتظر تھیں ۔ بہرحال ان دونوں مونسہ اور سلمی کا اب اس دنیا میں زاہد کے علاوہ دوسرا سہارا نہیں ہے پانچ برس تک دوسروں کے گھر کے جھوٹے برتن مانجھ کر گذر بسر کرنے اور بہت مرتبہ فاقہ کشی کرنے والی یہ پرعزم خواتین آج بھی سچی خوشی کو ترس رہی ہیں ۔ زاہد کے والد عبدالمجید کو غلط فہمی ہے کہ اس کے سیمی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہی ان کے خاندان پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ۔ اسلحہ ضبطی کیس کے دوران زاہد کو تلاش کرنے والی پولس نے زاہد کی جگہ چھوٹے بھائی جاوید کو پکڑ لیا۔ لیکن اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے زاہد کہتے ہیں کہ پولس نے جان بوجھ کر جاوید کو پھنسایا وہ میرے ساتھ آرتھر روڈ جیل میں ایک ہی کمرے میں بند تھا اسی لئے میں سارے حقائق جانتا ہوں۔ ہم دونوں بھائیوں میں آپسی محبت و اخلاص ہے اور کہیں کوئی غلط فہمی نہیں ہے ۔ زاہد کو آج ساڑھے سات سال کے بعد مالیگاؤں میں داخلہ نصیب ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بار بار کی پولس چھان بین سے وہ 2004میں ہی ہجرت کرکے خاموشی سے پوسد کے قریب ایک گاؤں میں امامت کرنے لگا تھا۔ تب سے اس نے مالیگاؤں کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اے ٹی ایس نے اس کو جھوٹے الزام میں جب پھنسایا تو اردو ٹائمز کی ٹیم نے ہی سب سے پہلے پوسد پہنچ کر حقائق کا پتہ لگایا اور گاؤں والوں سے معلوم کرنے پر یہ انکشاف ہوا کہ زاہد مولانا تو بم دھماکے والے دن مسجد میں ہی موجود تھے جس کی گواہی کل جماعتی تنظیم کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو اجتماعی حلف نامہ کی صورت میں دی گئی۔ جب کہ اے ٹی ایس نے الزام رکھا کہ ابرار کے ساتھ مل کر زاہد نے مشاورت چوک میں بم رکھا۔ آج زاہد نے کہا کہ میں نے زندگی میں کبھی ابرار سے ملاقات نہیں کی تھی ۔ نہ ہی میں اسے نام و شکل سے جانتا تھا۔
پانچ سالہ قید و بند کے دوران زاہد نے حفظ قرآن مکمل کرلیا اور جیل میں گذشتہ دو سال سے ماہِ رمضان میں تراویح کی امامت بھی فرمائی ۔ اب مستقبل میں وہ مالیگاؤں کی ہی کسی مسجد میں امامت و معلمی کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔
(۶) پوری ملت کی ترجمانی اردو ٹائمز کے ذریعے ہورہی تھی (رئیس احمد رجب علی)
انورٹر کے کاروبار میں اپنے بہنوی شبیر احمد مسیح اللہ کا ہاتھ بٹانے کی سزا پانے والے رئیس احمد آج اپنی رہائی پر بہت خوش و خرم ہیں اپنے بچوں کی تعلیمی پیش رفت کو جان کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور ساتھ ہی ان کے جیل جانے کے چند دنوں بعد ہی ولادت پانے والی معصو م عائشہ اب پانچ سال کی ہوگئی ۔ اور جے اے ٹی اسکول کی جونئیر کے جی میں زیر تعلیم ہے ۔ اس بچی کو پہلی بار اپنے باپ کی گود نصیب ہوئی۔ ان کے دیگر بچوں میں بڑی بیٹی فرحین بارہویں جماعت میں نمایاں نمبرات حاصل کرنے کے بعد ڈی ایڈ کورس میں زیر تعلیم ہے اور معلمہ بننے کی تیاری کررہی ہے۔ بڑا بیٹا دانش بارہویں میں زیر تعلیم ہے ۔ اس نے باپ کی جدائی کے صدمہ کے باوجود SSCمیں اچھی پوزیشن حاصل کی ۔ اور کئی مقابلوں میں حصہ لے کر انعامات حاصل کئے ۔ فائزہ گیارہویں اور اسامہ ساتویں جماعت میں پڑھ رہے ہیں ۔ سارے بچے باپ کو گھیرے ہوئے ہیں اور گھر کے باہر برقی قمقموں کی لڑیاں یہ ظاہر کررہی ہیں کہ رئیس رجب کی رہائی میں پورا محلہ خوش دشرسار ہے ۔ کثیر العیال خاندان کی کفالت کرنے والے رئیس کے خاندان کو اس کے سالے خلیل احمد نے خوب کوب سہارا دیا۔ اور جمیل مسیح اللہ کی مسیحائی بھی رنگ لائی ۔ جنھوں نے تمام قانونی معاملات کو دیکھا۔ جیل کے اندر موقع ملنے پر رئیس نے پہلی بار ناظرۂ ختم قرآن کی سعادت حاصل کی ۔ اور اسلحہ ضبطی کیس کے ملزم بلال کاتب ان کے عربی کے استاذ تھے۔ اس کامیابی میں اردو اخبارات کے کردار پر بات کرتے ہوئے رئیس احمدرجب علی نے تمام اردو اخبارات سمیت اردو ٹائمز کی جم کر تعریف کی اور کہا کہ یہی اخبار ہمیں جیل میں میسر تھا اور ہم اس کی خبروں سے انداز لگا رہے تھے کہ ہماری بے گناہی پر ہم اکیلے آنسو نہیں بہارہے ہیں ۔ بلکہ پوری ملت کی ترجمانی اردو ٹائمز کے ذریعے ہورہی تھی ۔
(۷) قید و بند نے ڈاکٹر فروغ مخدومی کو ایڈوکیٹ کا کردار نبھانے پر مجبور کیا
اس ساز ش کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پھنسائے گئے سبھی ملزمین میرے لئے انجان تھے سوائے شبیر احمد مسیح اللہ کے میں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ا ور شبیر احمد سے بھی معمولی تعلقات تھے اور7مئی 2006کونورالہدی کی شادی کی تقریب میں جس سازشی میٹنگ کا تذکرہ چارج شیٹ میں لگایا گیا ہے اسی دن تو میرے بیٹے حسن کی پیدائش کی خوشی میں تقریب عقیقہ تھی سارے دوست احباب میرے گھر دعوت پر تھے ۔ ڈاکٹر مخدومی نے دعوی کیا کہ اگر سی بی آئی غیر معمولی تاخیر نہ کرتی اور مکوکا پر سپریم کورٹ میں میں دائر جمعتہ علماء کی پٹیشن کے سبب سماعت پر اسٹے آرڈر نہیں ملتا تب میں اپنی ذاتی جرح کی بدولت کیس سے باعزت بری ہوجاتا ۔ لیکن حالات نے ساتھ نہیں دیا اور جمعتہ علماء نے جن وکلاء کی خدمات حاصل کررکھی تھیں ان کو ہمارے مقدمہ پر توجہ دینے کی زیادہ فرصت نہیں تھی اسی لئے میں نے جج کو ڈسچارج عریضہ دے کر خود بحث کا آغاز کیا جو 3ماہ کے دوران پوری ہوئی میری اٹھارہ گھنٹہ کی بحث مجھے بے قصور ثابت کرنے کیلئے کافی تھی ۔ پیشے سے ڈاکٹر رہنے کے باوجود 2003میں LLBمیں داخلہ لینے والے ڈاکٹر مخدومی کو وکالت اور قانون کی تعلیم سے دلچسپی جیل میں خوب کام آئی اس نے جیل کے اندر اسے اپنا مشغلہ بنا لیا۔ بہت سارے ملزمین کیلئے عریضہ تیار کرنا۔ پٹیشن لکھنا اور عدالت سے انصاف دلانا اس کا معمول تھا۔ آرتھر روڈ میں ڈاکٹر فروغ مخدومی ، ایڈوکیٹ مخدومی کے نام سے مشہور ہوئے اپنے ساتھی ملزمین کی خوب مدد کی۔ ڈاکٹر مخدومی نے خود بتایا کہ پہلے ایک سال میں نے اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کا مطالعہ کیا اور دوسرے سال اس کا اردو ترجمہ کرکے اپنے دیگر بے قصور ساتھیوں کو بتلایا ۔ میں نے فارغ اوقات میں RTIقانون کا فائدہ لیتے ہوئے اپنے لئے اور دیگر ہندو مسلم ملزمین کیلئے عریضے تیار کرکے ان کی قانونی مدد کی۔
فروغ مخدومی کے والد اقبا ل مخدومی نے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں اپنے ساتھی جمیل مسیح اللہ کے ساتھ مل کر غیر معمولی جدوجہد کی ہے جس کا اعتراف سبھی ملزمین کے رشتہ دار کرتے ہیں۔ اقبال مخدموی نے بتایا کہ میرا بیٹا تصویر کشی نہیں چاہتا اسی لئے جیل سے نکلنے کے بعد ہم لوگ سیدھے اس کے قریبی دوست کے گھر گئے پھر دفتر جمعیت علماء ( امام باڑہ) پہنچے اور وہاں سے مسجد اہلحدیث مومن پورہ گئے پھر مالیگاؤں پہنچ کر مشاورت چوک اور دفتر جمعتہ علماء تک گئے ۔ ہم نے سب سے مل کر شکریہ ادا کیا۔ ہمیں ہر طبقہ کا تعاون ملا ہے۔
***
( سات محروسین اور ان کے اہل خانہ سے عبدالحلیم صدیقی کی خصوصی ملاقات کے اقتباسات پیش ہیں )
(۱) ہمارا ساتھ بہت ظلم ہوا (شبیر احمد مسیح اللہ)
شبیر احمد مسیح اللہ کے گھر آج ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔ ان میں ان کے کاروباری احباب ، تاجر، تعلیم کے زمانے کے دوست اور رشتہ دار و پڑوسی سبھی ہیں ۔ جمعتہ علماء مالیگاؤں کا ایک وفد بھی گلدستہ اور مٹھائیاں لئے ہوئے مفتی آصف انجم کی قیادت میں براجمان ہے اور شبیر احمد انکے بھائی جمیل احمد کا خیر مقدم کیا جارہا ہے ۔
شبیر احمد کے مطابق رات ۳؍ بجے جب ہمارا قافلہ شہر میں داخل ہوا تو ہم یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ پورا شہر جاگ رہا ہے ۔ جگہ جگہ روشنی ہے ، اور خوشی کا ماحول ہے واقعی یہ شہر بیدار شہر ہے ۔ ہم اس کی بیداری کو سلام کرتے ہیں ۔ مشاورت چوک میں جس طرح سے ہمارا استقبال کیا گیا ہم کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچ سکتے تھے ۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے چار بج گئے پانچ سال کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملنے کی خوشی کیا ہوگی ہم بیان نہیں کرسکتے ۔ میرے بچے اسریٰ ، مجاہد عالم ، ذکرٰی ، معاذ ارقم ، پوری رات جاگتے جاگتے میرا انتظار کررہے تھے ۔ میں سب سے پہلے اپنے والد بزرگوار سے ملا فرط جذبات سے ان کی آنکھیں نم تھیں اور وہ اپنی زبان سے کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے ۔ جب مالیگاؤں بلاسٹ ہوا تو میں خود ٹرین بلاسٹ میں جیل میں بند تھا مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ مجھے اس دھماکے کا ماسٹر مائنڈ بنا کر پیش کیا گیا ہے جیل کے اندر ابتدائی دنوں میں پوچھ تاچھ اور تحقیقات کے نام پر ہم لوگوں پر جو ظلم کے پہاڑ توڑے گئے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ میں ان تلخ یادوں سے آج ان مسرت آگیں لمحات کو برباد کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن اللہ نے مجھے صبر دیا اور میں اس مصیبت کو جھیل گیا خدا کا شکر ہے کہ چارج شیٹ کے تمام الزامات کو میں نے دوسرے ہی دن جج کے سامنے مسترد کرتے ہوئے انھیں باور کردیا کہ اعترافی بیان پر دستخط دباؤ اور ظلم کے ذریعے لئے گئے ہیں ۔ جیل جانے سے پہلے کنگ آف بیٹری کہلانے والے شبیر احمد کی معثیت پوری طرح تباہ ہوچکی ہے ۔ میں جلد از جلد اپنے کاروبار کو پھر سے کھڑا کرنا چاہتا ہوں ۔
(۲) مالیگاؤں کی عوام نے ثابت کردیا کہ وہ بیدار شہری ہیں (ڈاکٹر سلمان فارسی)
مضبوط قوت ارادی کے مالک ڈاکٹر سلمان فارسی جیل سے رہا ہونے کے دوسرے ہی دن اپنی بیگم ڈاکٹر نفیسہ کے مطب میں آبیٹھے کل سے وہ باقائدہ مریضوں کی تشخیص اور علاج و معالج کا سلسلہ شروع کررہے ہیں۔ ان کی گود میں اس وقت مطؤنہ موجود ہے ۔ مطۂنہ یہاں کے جے اے ٹی اسکول میں جماعت پنجم کی طالبہ ہے اور بیٹا عدی مقاتر بھی اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں پانچویں پڑھ رہا ہے ۔ بڑ ابیٹا تمیم سالک پروگریسیو انگلش اسکول میں آٹھویں کا طالب علم ہے ۔ مالیگاؤں دھماکوں میں پھنسائے گئے ملزمین میں سب سے زیادہ پر جوش انداز ڈاکٹر سلمان فارسی کا نظر آیا انھوں نے جیل سے نکلتے وقت خالص اسلامی حلیہ بنایا تھا ۔ اس نے جمعتہ علماء مہاراشٹر کی ممبئی پریس کانفرنس میں بھی میڈیا کو مخاطب کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم اپنی رہائی کا کریڈیٹ اللہ رب العزت کو دینا چاہتے ہیں ۔ اسکے بعد اس نے کل جماعتی تنظیم ، جمعتہ علماء مہاراشٹر اور ممبئی و مالیگاؤں کی عوام سبھی چھوٹی بڑی تنظیموں کا شکریہ ادا کیا تھا۔ جیل سے نکلتے ہی انھوں نے سب سے پہلے مالیگاؤں میں نہال احمد سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم لوگ رات دیر گئے مالیگاؤں پہنچیں گے ۔ لیکن سب سے پہلے آپ کے دھرنا پنڈال میں مشاورت چوک پہنچ کر آپ لوگوں کا شکریہ ادا کریں گے اور واقعہ یہی ہے کہ پورا کارواں مشاور ت چوک پہنچا اور سبھی ملزمین کی طرف سے ڈاکٹر فارسی نے مالیگاؤں کی عوام کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر فارسی نے کہا کہ انھیں جیل میں رہتے ہوئے مالیگاؤں بلاسٹ کیس کی پوری پیش رفت سے اردوٹائمز نے باخبر رکھا۔ ہم نے بہت سارے خطوط جیل سے لکھے ۔ ہمارے ساتھیوں کے خطوط اس میں شائع بھی ہوئے ۔ اردو ٹائمز نے ہمارا درد پوری دنیا تک پہنچانے کا صحافتی فریضہ انجام دیا ہے ۔ ڈاکٹر فارسی نے کہا کہ ہم سب بے گناہ اور پھنسائے گئے لوگ تھے ۔ اگر مالیگاؤں کی عوام کی مخلصانہ جدوجہد اور تعاون نہ ہوتا تو ہم ٹوٹ جاتے ۔ موصوف نے اپنی پر عزم بیگم ڈاکٹر نفیسہ کا بھی شکریہ ادا کیا جس نے شوہر کی غیر موجودگی کے باوجود گھر کے حالات کو سنبھالے رکھا۔ بچوں کی پڑھائی جاری رہی اور باعزت زندگی گذرتی رہی ۔ آپ نے تمام وکلاء حضرات کا بھی شکریہ ادا کیا۔ مالیگاؤں کی عوام نے ثابت کردیا کہ وہ بیدار شہری ہیں ۔
(۳) کیا ہمیں اسلامی تشخص کی سزا مل رہی ہے ؟؟(نورالہدی شمس الضحیٰ )
میں پانچ سال پہلے ایک مزدو تھا لیکن جیل میں پانچ سال گذارنے کے دوران میں نے عربی و اردو زبان کی در س وتدریس کے جو تجربات حاصل کئے ہیں میری خواہش ہے کہ میں اپنی بی اے کی ادھوری تعلیم مکمل کرلوں اور جلد از جلد ایک معلم کی حیثیت سے اپنا کیرئیر شروع کروں ۔یہ باتیں ہیں نورالہدی کی جس نے آج اردو ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے میڈیا والے پوچھتے ہیں کہ کیوں اور کس نے پھنسایا ۔ لیکن میں جواب دیتا ہوں کہ یہ سوال تو ان ظالم افسران سے پوچھا جائے جنھوں نے ہم کوپھنسایا۔ اور پوچھا جائے کہ کیوں پھنسایا گیا کیوں اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں اور شریعت کے مطابق زندگی گذارنے میں یقین رکھتے ہیں نورالہدی نے اپنی بے گناہی پر دو ٹوک کہاکہ میں کسی بھی معاوضہ و ہر جانے سے بہلنے پھسلنے والا نہیں ہوں ۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اصل سازش کو بے نقاب کرکے ان کو جیل بھیجا جائے جو قصور وار ہیں۔
نورالہدی کے مکان واقع جعفر نگر جھوپڑپٹی میں آج جشن کا سماں ہے اس کے مکان پر پھیکا گلابی آئیل پینٹ کیا گیا ہے ۔ اور پوری گلی میں اور مکان پر چھوٹے بڑے قمقمے گلی محلے کے لوگوں نے اپنی خوشی سے آراستہ کئے ہیں۔ ملنے جلنے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے اسی لئے آج گھر کا ہر فرد موجود ہے ۔ بوڑھا باپ شمس الضحیٰ اور دیگر برادران بھی آج یہ خاندان پاورلوم مزدوری کیلئے ڈیوٹی پر نہیں گیا۔ خوشی کا عالم یہ ہے کہ گھر کے سارے بچے اور خواتین نے عید کے اٹھا رکھے گئے نئے کپڑے پہن رکھے ہیں ۔ نورالہدی کے والدنے کہا کہ ہمیں آج ادھوری خوشی ملی ہے سچی اور مکمل خوشی تو اس وقت ملتی جب حکومت سچائی جان لینے کے بعد مقدمہ واپس لے لیتی اور باعزت بری کرنے کا فیصلہ آتا۔
(۴) ’’ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آیا‘‘ ( ابرار احمد غلام احمد )
’’ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آیا‘‘ ابرار کی اپنے والدین کے گھر واپسی کا سماں اسی قول کی ترجمانی کررہا ہے ۔ 80سالہ بوڑھا باپ فرط مسرت سے روتے ہوئے اپنے لاڈلے بیٹے کو گلے لگا رہا ہے ۔ ایک دن وہ تھا جب اسی غیرت مند باپ نے اعلان کردیاتھا کہ اگر ابرار سرکاری گواہ بن گیا ہے تو اس کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہم اس کا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے ۔ آج وہ دن ہے جب ابرار سب کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا ہے ایک دن وہ تھا جب اس کے سرکاری گواہ بننے کی خبر سے پورے محلے میں غصے کی لہر پھیلی تھی اور اس عمارت کو لوگ نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے ۔ جہاں آج ابرار سے ملنے جلنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔ ابرار کے بھائی فرید نے بتایا کہ پورا محلہ رات بھر جاگتا رہا۔ ابرار گھر پہنچا سبھوں نے اسکا استقبال کرلیا۔ تب لوگ کچھ دیر کیلئے سوگئے صبح سے پھر ملاقاتیوں کا تانتا ہے۔ ابرار نے اپنی بے گناہی کے سلسلے میں کہا کہ جب مجھے چارج شیٹ کے متعلق معلوم ہوا تو میں حیرت زدہ رہہ گیا۔ جن لوگوں کو میرے نام پر پھنسایا جارہا تھا ان میں سے اکثر کو میں تو جانتا تک نہیں تھا۔ سبھی ملزمین سے میری واقفیت کورٹ کی تاریخوں پر ہوئی۔ شبیر مسیح اللہ سے انورٹر کی خریدی کرتا تھا۔ اسی لئے تھوڑا تجارتی تعلق تھا ۔ باقی لوگوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ابرا ر نے بتایا کہ میری حماقت کی وجہ سے میرے گھر والوں نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور بم دھماکوں کے بعد 30جنوری 2009والے دن میرے بھائی جلیل احمد پہلی بار جیل میں ملاقات کیلئے پہنچے تھے ۔ اس سے قبل تو بالکل اکیلا تھا۔ جیل میں میرا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ابتدائی مہینوں میں اے ٹی ایس کے سدا نند پاٹل اور انسپکٹر سچن کدم کی جانب سے مجھے جیب خرچی کیلئے منی آرڈر ملا کرتے تھے یہ رقم دو ہزار سے لے کر پندرہ سو یا کبھی ایک ہزار بھی رہا کرتی تھی۔ ابرا رکے مطابق مجھے سرکاری گواہ بنانے کیلئے میرے سالے اور میری بیوی نے پولس سے ساز باز کی تھی اور مجھے تھپتھپائے رکھتے تھے ۔ جس وقت مجھے اپنے بھائی کی ہیبس کارپس رٹ پیٹشن کے عوض ممبئی ہائی کورٹ میں پیش کیا گیا تھا تب میں پولس والوں کی گھیرا بندی اور دباؤ میں تھا ۔ مجھے سچ بولنے سے روکا گیا تھا۔ لیکن جب میں نے سچ بولنے کی ٹھانی اور اپنے گھر پر خطوط لکھے تو کوئی سال دیڑھ سال تک جواب نہیں آیا میرے گھر والے سخت ناراض تھے ۔ میں نے تقریباً 65خطوط لکھے اور معافیاں مانگیں تب 30جنوری 2009کو میرے بھائی پہلی بار جیل میں آئے اور تلقین کی کہ جو بات سچ ہے وہی کہو گے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے پھر میں نے اپریل مہینے میں نیا حلف نامہ لکھوایا اس سے قبل چار سال تک کیا چلتا رہا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔ باہر کی دنیا سے مجھے لاعلم رکھا گیا ۔ بائیکلہ جیل میں مجھے اردو ٹائمز اخبار جون 2010سے ملنا شروع ہوا جس کیلئے میں نے باقاعدہ عریضہ دیا تھا کہ مجھے روز اخبار چاہئے ۔
میں نہ صرف اخبار والوں بلکہ سبھی علماء کرام اور مسلم تنظیمیوں کا کل جماعتی تنظیم و جمعتہ علماء کا شکر گذار ہوں ۔ اس موقع پر ایڈوکیٹ جلیل انصاری نے جمعتہ علماء کے ذمہ داران ارشد مدنی ، محمود مدنی اور شفیق قاسمی وغیرہ کے خصوصی تعاون اور مستقل رابطہ کا ذکر بھی کیا اور سبھی مسلم تنظیموں کا شکریہ اداکیا۔
(۵) میں نے زندگی میں کبھی ابرار سے ملاقات نہیں کی تھی ( مولانا زاہد عبدالمجید)
مولانا زاہدیوں تو جیل سے رہا ہوچکے ہیں لیکن ڈر ، خوف ، مصیبت ان کا پیچھا نہیں چھوڑرہی ہے اس با عمل صالح فکر انسان پر ابھی اور آزمائشوں کا دور باقی ہے آج شام جب ہم نے اس سے عائشہ نگر کے ایک مکان میں ملاقات کی تو وہ اپنی والدہ کا انتطار کرتے بیٹھا تھا۔ جو رہائی ملنے کے بعد اب تک اس سے نہیں مل سکی تھی مولانا زاہد کی سیمی سے وابستگی سے سخت نالاں والد عبدالمجید ماسٹر تو اس قدر ناراض ہیں کہ جیل سے آئے بچے کو اپنے گھر میں داخل ہونے تک کی اجازت نہیں دی۔ مجبوراً زاہد اپنی خالہ کے گھر چلا گیا اور وہیں مقیم ہے ۔ زاہد کو لینے کیلئے ممبئی تک اس کی ساس مونسہ اور بیوی سلمی بھی آئیں تھیں ۔ جو چار پانچ دن تک مفتی اسمعیل کے ایم ایل اے ہاسٹل میں رہائی کی منتظر تھیں ۔ بہرحال ان دونوں مونسہ اور سلمی کا اب اس دنیا میں زاہد کے علاوہ دوسرا سہارا نہیں ہے پانچ برس تک دوسروں کے گھر کے جھوٹے برتن مانجھ کر گذر بسر کرنے اور بہت مرتبہ فاقہ کشی کرنے والی یہ پرعزم خواتین آج بھی سچی خوشی کو ترس رہی ہیں ۔ زاہد کے والد عبدالمجید کو غلط فہمی ہے کہ اس کے سیمی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ہی ان کے خاندان پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹے ۔ اسلحہ ضبطی کیس کے دوران زاہد کو تلاش کرنے والی پولس نے زاہد کی جگہ چھوٹے بھائی جاوید کو پکڑ لیا۔ لیکن اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے زاہد کہتے ہیں کہ پولس نے جان بوجھ کر جاوید کو پھنسایا وہ میرے ساتھ آرتھر روڈ جیل میں ایک ہی کمرے میں بند تھا اسی لئے میں سارے حقائق جانتا ہوں۔ ہم دونوں بھائیوں میں آپسی محبت و اخلاص ہے اور کہیں کوئی غلط فہمی نہیں ہے ۔ زاہد کو آج ساڑھے سات سال کے بعد مالیگاؤں میں داخلہ نصیب ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بار بار کی پولس چھان بین سے وہ 2004میں ہی ہجرت کرکے خاموشی سے پوسد کے قریب ایک گاؤں میں امامت کرنے لگا تھا۔ تب سے اس نے مالیگاؤں کا رخ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن اے ٹی ایس نے اس کو جھوٹے الزام میں جب پھنسایا تو اردو ٹائمز کی ٹیم نے ہی سب سے پہلے پوسد پہنچ کر حقائق کا پتہ لگایا اور گاؤں والوں سے معلوم کرنے پر یہ انکشاف ہوا کہ زاہد مولانا تو بم دھماکے والے دن مسجد میں ہی موجود تھے جس کی گواہی کل جماعتی تنظیم کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو اجتماعی حلف نامہ کی صورت میں دی گئی۔ جب کہ اے ٹی ایس نے الزام رکھا کہ ابرار کے ساتھ مل کر زاہد نے مشاورت چوک میں بم رکھا۔ آج زاہد نے کہا کہ میں نے زندگی میں کبھی ابرار سے ملاقات نہیں کی تھی ۔ نہ ہی میں اسے نام و شکل سے جانتا تھا۔
پانچ سالہ قید و بند کے دوران زاہد نے حفظ قرآن مکمل کرلیا اور جیل میں گذشتہ دو سال سے ماہِ رمضان میں تراویح کی امامت بھی فرمائی ۔ اب مستقبل میں وہ مالیگاؤں کی ہی کسی مسجد میں امامت و معلمی کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔
(۶) پوری ملت کی ترجمانی اردو ٹائمز کے ذریعے ہورہی تھی (رئیس احمد رجب علی)
انورٹر کے کاروبار میں اپنے بہنوی شبیر احمد مسیح اللہ کا ہاتھ بٹانے کی سزا پانے والے رئیس احمد آج اپنی رہائی پر بہت خوش و خرم ہیں اپنے بچوں کی تعلیمی پیش رفت کو جان کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور ساتھ ہی ان کے جیل جانے کے چند دنوں بعد ہی ولادت پانے والی معصو م عائشہ اب پانچ سال کی ہوگئی ۔ اور جے اے ٹی اسکول کی جونئیر کے جی میں زیر تعلیم ہے ۔ اس بچی کو پہلی بار اپنے باپ کی گود نصیب ہوئی۔ ان کے دیگر بچوں میں بڑی بیٹی فرحین بارہویں جماعت میں نمایاں نمبرات حاصل کرنے کے بعد ڈی ایڈ کورس میں زیر تعلیم ہے اور معلمہ بننے کی تیاری کررہی ہے۔ بڑا بیٹا دانش بارہویں میں زیر تعلیم ہے ۔ اس نے باپ کی جدائی کے صدمہ کے باوجود SSCمیں اچھی پوزیشن حاصل کی ۔ اور کئی مقابلوں میں حصہ لے کر انعامات حاصل کئے ۔ فائزہ گیارہویں اور اسامہ ساتویں جماعت میں پڑھ رہے ہیں ۔ سارے بچے باپ کو گھیرے ہوئے ہیں اور گھر کے باہر برقی قمقموں کی لڑیاں یہ ظاہر کررہی ہیں کہ رئیس رجب کی رہائی میں پورا محلہ خوش دشرسار ہے ۔ کثیر العیال خاندان کی کفالت کرنے والے رئیس کے خاندان کو اس کے سالے خلیل احمد نے خوب کوب سہارا دیا۔ اور جمیل مسیح اللہ کی مسیحائی بھی رنگ لائی ۔ جنھوں نے تمام قانونی معاملات کو دیکھا۔ جیل کے اندر موقع ملنے پر رئیس نے پہلی بار ناظرۂ ختم قرآن کی سعادت حاصل کی ۔ اور اسلحہ ضبطی کیس کے ملزم بلال کاتب ان کے عربی کے استاذ تھے۔ اس کامیابی میں اردو اخبارات کے کردار پر بات کرتے ہوئے رئیس احمدرجب علی نے تمام اردو اخبارات سمیت اردو ٹائمز کی جم کر تعریف کی اور کہا کہ یہی اخبار ہمیں جیل میں میسر تھا اور ہم اس کی خبروں سے انداز لگا رہے تھے کہ ہماری بے گناہی پر ہم اکیلے آنسو نہیں بہارہے ہیں ۔ بلکہ پوری ملت کی ترجمانی اردو ٹائمز کے ذریعے ہورہی تھی ۔
(۷) قید و بند نے ڈاکٹر فروغ مخدومی کو ایڈوکیٹ کا کردار نبھانے پر مجبور کیا
اس ساز ش کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ پھنسائے گئے سبھی ملزمین میرے لئے انجان تھے سوائے شبیر احمد مسیح اللہ کے میں کسی کو نہیں جانتا تھا۔ا ور شبیر احمد سے بھی معمولی تعلقات تھے اور7مئی 2006کونورالہدی کی شادی کی تقریب میں جس سازشی میٹنگ کا تذکرہ چارج شیٹ میں لگایا گیا ہے اسی دن تو میرے بیٹے حسن کی پیدائش کی خوشی میں تقریب عقیقہ تھی سارے دوست احباب میرے گھر دعوت پر تھے ۔ ڈاکٹر مخدومی نے دعوی کیا کہ اگر سی بی آئی غیر معمولی تاخیر نہ کرتی اور مکوکا پر سپریم کورٹ میں میں دائر جمعتہ علماء کی پٹیشن کے سبب سماعت پر اسٹے آرڈر نہیں ملتا تب میں اپنی ذاتی جرح کی بدولت کیس سے باعزت بری ہوجاتا ۔ لیکن حالات نے ساتھ نہیں دیا اور جمعتہ علماء نے جن وکلاء کی خدمات حاصل کررکھی تھیں ان کو ہمارے مقدمہ پر توجہ دینے کی زیادہ فرصت نہیں تھی اسی لئے میں نے جج کو ڈسچارج عریضہ دے کر خود بحث کا آغاز کیا جو 3ماہ کے دوران پوری ہوئی میری اٹھارہ گھنٹہ کی بحث مجھے بے قصور ثابت کرنے کیلئے کافی تھی ۔ پیشے سے ڈاکٹر رہنے کے باوجود 2003میں LLBمیں داخلہ لینے والے ڈاکٹر مخدومی کو وکالت اور قانون کی تعلیم سے دلچسپی جیل میں خوب کام آئی اس نے جیل کے اندر اسے اپنا مشغلہ بنا لیا۔ بہت سارے ملزمین کیلئے عریضہ تیار کرنا۔ پٹیشن لکھنا اور عدالت سے انصاف دلانا اس کا معمول تھا۔ آرتھر روڈ میں ڈاکٹر فروغ مخدومی ، ایڈوکیٹ مخدومی کے نام سے مشہور ہوئے اپنے ساتھی ملزمین کی خوب مدد کی۔ ڈاکٹر مخدومی نے خود بتایا کہ پہلے ایک سال میں نے اے ٹی ایس کی چارج شیٹ کا مطالعہ کیا اور دوسرے سال اس کا اردو ترجمہ کرکے اپنے دیگر بے قصور ساتھیوں کو بتلایا ۔ میں نے فارغ اوقات میں RTIقانون کا فائدہ لیتے ہوئے اپنے لئے اور دیگر ہندو مسلم ملزمین کیلئے عریضے تیار کرکے ان کی قانونی مدد کی۔
فروغ مخدومی کے والد اقبا ل مخدومی نے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں اپنے ساتھی جمیل مسیح اللہ کے ساتھ مل کر غیر معمولی جدوجہد کی ہے جس کا اعتراف سبھی ملزمین کے رشتہ دار کرتے ہیں۔ اقبال مخدموی نے بتایا کہ میرا بیٹا تصویر کشی نہیں چاہتا اسی لئے جیل سے نکلنے کے بعد ہم لوگ سیدھے اس کے قریبی دوست کے گھر گئے پھر دفتر جمعیت علماء ( امام باڑہ) پہنچے اور وہاں سے مسجد اہلحدیث مومن پورہ گئے پھر مالیگاؤں پہنچ کر مشاورت چوک اور دفتر جمعتہ علماء تک گئے ۔ ہم نے سب سے مل کر شکریہ ادا کیا۔ ہمیں ہر طبقہ کا تعاون ملا ہے۔
***
No comments:
Post a Comment