You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Tuesday, November 29, 2011

علامہ اقبال کی دوتہائی شاعری فارسی زبان میں موجود بعنوان "اقبال کی فارسی شاعری کا تعارف"


ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب کا خطاب
حیدرآباد (ایاز الشیخ) جامع مسجد عالیہ کانفرنس ہال میں محفل اقبال شناسی کی 640 ویں نشست میں علامہ اقبال کی شخصیت کے عنوان سے متعلق دوسرے لکچر میں ڈاکٹر ضیاءالدین احمد شکیب نے "اقبال کی فارسی شاعری" کا تعارف کرایا۔ اگرچہ اقبال نے پہلے اردو زبان میں مہارت پیدا کی لیکن ابتدائی جماعتوں سے ہی انہوں نے فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی ۔ یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ انکی فارسی اور عربی کی تعلیم ابتداءسے اعلی درجہ تک انکے قابل استاد سید میر حسن صاحب کی مرہون منت ہے۔ مولوی سید میر حسن صاحب مشن اسکول میں پڑھاتے تھے جسکی وجہ سے انگریزوں کی طرز فکر اور جدید تعلیمی اصولوں سے بھی بخوبی واقف تھے۔ ان کی علمی جستجو کا اندازا اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کی نوجوانی میں جب مرزا غالب کا آخری زمانہ تھا دہلی جاکر مرزا غالب سے ملاقات کی پھر وہ سر سید احمد کی تحریک سے بہت متاثر ہوئے اور نہ صرف سر سید احمد سے ربط رکھا بلکہ ان کی ذات پنجاب میں علی گڑھ تحریک کا اہم ادارہ بن گئی۔ چنانچہ انکی شخصیت کے ان پہلووں سے اقبال متاثر ہوئے۔ اردو یا فارسی دونوں زبانوں میں شاعری میں اقبال نے اپنے نئے راستے نکالے۔ ہندوستان کا اقبال داں طبقہ آج بھی اقبال کو محض اردو کا بڑا شاعر مانتا ہے لیکن انکی فارسی شاعری سے بے بہرہ ہے۔ جبکہ علامہ اقبال کی دو تہائی شاعری فارسی زبان میں ہے اور صرف ایک تہائی اردو میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے تصورات پہلے فارسی میں پیش کئے گئے لیکن ایک زمانہ تک انکی اردو شاعری میں ان کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا ۔ جب کہ اقبال نے تصور خودی کو اپنی عظیم الشان مثنویوں اسرار خودی اور رموز بے خودی میں پیش کیا جو علی الترتیب 1915 اور 1916 میں شائع ہوئیں۔ یہ مثنویاں دو کتابی صورتوں میں تھیں۔ ان کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان کے اعلی طبقہ میں اقبال کا اہم مقام بنا بلکہ اسکی وجہ سے اقبال کے سینئیر انگریز نکلسن نے اسکا انگریزی میں ترجمہ کیااور 1920 میں یہ ترجمہ انگلینڈ میں شائع ہوا۔ اس وقت اقبال کی اردو شاعری کا کوئی مجموعہ اردو میں شائع نہیں ہوا تھا۔ اردو پڑھنے والے شیدائیان اقبال کے ہاتھوں میں صرف شکوہ اور جواب شکوہ تھے اور ا سی سے اردو والوںمیں انکی شہرت تھی۔ جبکہ انکی فارسی شاعری کے وجہ سے وہ یورپ میں نہ صرف مانے گئے بلکہ ایک فلسفی اور مفکر کی حیثیت سے جانے گئے۔ ان ہی کے معاصر پروفیسربراون نے کئی جلدوں میں فارسی ادبیات کی تعریف لکھی تو اس میں اقبال کا ذکر ایک نوجوان مفکر کی حیثیت سے کیا۔ 1922 میں اقبال کی اہم کتاب پیام مشرق شائع ہوئی جو جرمنی کے عظیم شاعر گوئٹے کے جواب میں لکھی گئی۔ پیام مشرق ایک مہتمم بالشان کارنامہ ہے جس میں ایک مشرقی شاعر نے اعتماد کے ساتھاپنے تصورات مغرب کو پیش کئے۔ اس وقت تک بھی اردو میں صرف شکوہ اور جواب شکوہ ہی مروج تھا۔ 1924 میں کہیں جاکر اردو کا پہلا شعری مجموعہ بانگ درا شائع ہوا۔ بانگ درا اردو کی نہایت خوبصورت شاعری کا مجموعہ ہے۔ لیکن اس میں اقبال کے فلسفہ خودی کے بارے میں چند اشعار ہیں۔ اسی طرح 1924 میں فارسی کا چوتھا شعری مجموعہ عجم فلسفہ خودی، فلسفہ بے خودی، مغربی تہذیب و افکار پر انکی تنقید ، فنون لطیفہ کے بارے میں اقبال کے تصورات اور اقبال کے روانی مسلک پوری طرح واضح ہو چکے تھے۔ 1931 میں فارسی شاعری سے ہٹ کر علامہ اقبال نے اپنے تصورات کو اپنی شہرہ آفاق انگریزی تصنیف The Reconstruction of Religious thoughts in Islam پیش کیں ، جسمیں مشرق اور مغرب کے درمیان سونچ کا ایک پل تعمیر کیا ۔ اس وقت اردو میں صرف بانگ درا چھپی تھی۔ 1932 میں اقبال کا ایک عظیم کارنامہ جاوید نامہ سامنے آیا ۔ یہ کتاب بھی جو مغربی شاعر دانتے کی Devine Comdedy کے جواب میں لکھی گئی ہے۔ اس کے بعد کہیں جاکر 1935 میں بال جبرئیل اور 1936 میں ضرب کلیم شائع ہوئی جن میں پہلی دفعہ اقبال کے تصور خودی اور دوسرے اہم تصورات کو پیش کیا گیا۔لیکن اپنی ساری دلکشی کے باوجود ان نظموں میں وہ گہرائی نہیں ہے جو فارسی شاعری کی نظموں میں ہے۔ مثال کے طور پر بال جبرئیل کی نظم روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے ، ایک پوری طرح دلکش اور سادہ ہے۔ اس کی جگہ پیام مشرق می میلاد آدم ایک عظیم الشان فکری اور شعری کارنامہ ہے۔ 1939 میں اقبال کی ایک اور فارسی مثنوی پس چہ باید کرد ، اقوام شرق مع مثنوی مسافرشائع ہوئی جس میں مشرق وسطی کی سیاست کا نہایت بالغ نظری کے ساتھ مشاہدہ کیا گیا ہے۔ اور آخری تصنیف ارمغان حجاز جو آدھی اردو اور آدھی فارسی میں ہے1938 میں شائع ہوئی۔ اس گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ محظ اردو شاعری کے ذریعہ اقبال کے تصورات اور پیام کو سمجھنا ممکن نہیںہے۔ یہ ضروری ہے کہ جو لوگ اقبال کو سمجھنا چاہتے ہوں وہ انکا فارسی کلام ضرور پڑھیں۔ اگر راست طور پر فارسی کلام پڑھنے کی توفیق نہ ہو تو اس کے تراجم پڑھیں ۔ ماہر اقبال مضطر مجاز اور ڈاکٹر سید سراج الدین نے اقبال کے اہم فارسی کارناموں کا اردو ترجمہ کردیا ہے جو بہ سہولت اقبال اکیڈیمی سے حاصلہ کئے جاسکتے ہیں۔
جناب غلام یزدانی سینیر ایڈوکیت و کنوئنیر محافل جامع مسجد عالیہ نے واضح کیا کہ سامعین میں زبان فارسی سیکھنے کا شوق بدرجہ اتم موجود ہے، فارسی درس و تدریس کے لئے بھی ضروری تعاون کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے سامعین سے مقرر کے مشوروں پر عمل کو ضروری قرار دیا۔ مقرر کی درخواست پر نشست برخواست ہوئی۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP