عصرِ حاضر میں خواتین کا کردار
منور سلطانہ
صدر ذی قدر
شریکانِ بزم
وجودز ن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
( علامہ اقبال)
عزیزانِ گرامی !
اس میں دو رائے نہیں کہ وجود کائنات
سے لے کر اب تک ہزاروں ، لاکھوں برس کی بوڑھی دنیا کی قدیم ترین تاریخ میں عورت کو
دوسرے درجہ کا انسان سمجھا جاتا رہا ہے ۔ کسی زمانہ میں اسے باعث نحوست گردانا گیا
تو کبھی اسے زندہ درگور کیا جاتارہا ،کبھی شوہر کی چتا پر ستی بننے پر مجبور کیا گیا،
جدید تیکنکی و سائنسی انقلاب نے عورت دشمنوں کا کام مذید آسان کیا اور اب اس صنف نازک
کو رحم مادر میں ہی قتل کردیا جاتا ہے۔ ان تمام ظلم و ستم نا انصافیوں اور بد سلوکیوں
کے باوجود عورت نے دنیائے انسانیت کے ہر دور میں اپنی اہمیت ، افادیت اور ضرورت کو
باوقار انداز میں برقرار رکھا۔
جب تک تیری زلفوں میں پروے نہیں جاتے
پھولوں کو مہکنے کی اد ا بھی نہیں
آتی
( قیصر الجعفری)
جہاں تک عصرِ حاضر کی بات ہے تو بتانے
کی ضرورت نہیں کہ آج کی دوڑتی ، بھاگتی دنیا میں صنف نازک نے تعلیمی ، سماجی ، سائنسی
، صحافتی ، سیاسی ، ثقافتی ہر شعبۂ حیات میں اپنی پر وقار موجودگی درج کرا رکھی ہے۔
حضرت مریم سے حضرت ہاجرہ تک ، حضرت خدیجہ سے حضرت فاطمہ تک ، ملکہ زبیدہ سے ہندوستان
کی بیگم حضرت محل تک ، رضیہ سلطانہ سے جھانسی کی رانی تک ، مدر ٹرسیا سے شریں عبادی
تک کتنی پر عزم خواتین کا تذکرہ کروں کہ تاریخ کے صفحات ان خواتین کے کارناموں سے بھرے
پڑے ہیں ۔ ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہماری ایک خاتون کلپنا چاولہ آسمان چھو آئی ۔ اور
یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ آسمان سیاست پر سونیا گاندھی جیسی پر عزم خاتون کس طرح
120کروڑ آبادی والے ملک پر حکمرانی کررہی ہیں ۔ آج سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ہر
دوسری اور تیسری ایجاد کسی نہ کسی خاتون سائنس داں کی مرھون منت ہے۔ آج کے کارپوریٹ
سیکڑ میں بڑی بڑی کمپنیوں کی کمان ہماری خواتین ہی سنبھال رہی ہیں ۔ درس و تدریس کی
بات کریں تو خواتین نے اس شعبہ میں مردوں کو پچھاڑ رکھا ہے ۔ آج ہر تعلیمی ادارہ میں
لیڈی ٹیچرس کو اولیت و فوقیت اس لئے دی جارہی ہے کہ اس طبقہ نے درس و تدریس کو تعلیم
و تربیت سے جوڑ کر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار نبھایا ہے۔ لیکن اس حقیقت
کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آزادی نسواں اور حقوق نسواں کے نام پر خواتین کا استحصال
بھی خوب ہورہا ہے ۔ اس سنہری نعرے کی آڑ میں عورت کو شمع محفل اور تسکین نفس کا سامان
بنا کر فلموں اور اشتہارات کے ذریعے خواتین کی مارکیٹنگ ہورہی ہے ۔ مس ورلڈ اور مس
یونیورسٹی جیسے القابات کی آڑ میں عورت کو نمائشی شۂ بنا کر مغربی دنیا نے اس کے اصل
مقام و مرتبہ سے کھلواڑ کر رکھا ہے۔ میں خواتین کے اس ناجائز استعمال کی سخت مذمت کرتی
ہوں ۔ اور آج بھی ہمارے معاشرہ میں بالخصوص مسلم معاشرہ میں خواتین کی عصری و اعلیٰ
تعلیم پر روک لگائی جارہی ہے ۔ جب کہ اقرار کا حکم نامہ پوری انسانیت کیلئے آیا تھا۔
اس میں عورت و مرد کی تمیز نہیں کی گئی ۔ میں پوچھتی ہوں عورت کیوں نہ پڑھے ؟؟
بتائیے ! عورت کیوں نہ پڑھے کہ اسے
معاشرے کی تعمیر کرنا ہے۔
عورت کیوں نہ پڑھے کہ اسے سسکتی انسانیت
کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔
وہ کیوں نہ پڑھے کہ اسے تعصب کی آندھیوں
میں امن و آشتی کے چراغ روشن کرنا ہے۔
وہ کیوں نہ پڑھے کہ اسے باطل کے اندھیروں
سے نورِ حق کی طرف سفر کرنا ہے۔
وہ کیوں نہ پڑھے کہ یہی حکم ربی ہے
۔ ’’ اقراء باسم ربی ‘‘ یہی حکم نبی ﷺہے ۔ ’’ علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے
۔‘‘ وہ کیوں نہ دعا گو ہو۔ ’’ رب زدنی علما ‘‘
وہ پڑھے ضرور پڑھے کہ علم جہالت کے
اندھیرے کو دور کرتا ہے ۔ علم انسانی ذہن کو وسعت دیتا ہے۔ علم زندگی کے ہر شعبے میں
انسان کی رہنمائی کرتا ہے ۔ علم بندے کو اللہ سے قریب سے قریب تر کردیتا ہے ۔ علم عورت
کیلئے بھی ضروری ہے لیکن شرعی حدود میں رہ کر۔ مغربی تہذیب خا تونِ مشرق کیلئے سمِ
قاتل ہے ۔ مغربی تمدن کی شاخِ نازک پر جو آشیانہ بنے گا یقیناًوہ ناپائیدار ہوگا۔ عورت
علم کیلئے جستجو کرے لیکن مردوں سے مقابلہ آرائی کیلئے نہیں ، بلکہ ان کی ہم سفر بننے
کیلئے ۔ وہ تعلیم کا پرچم لہرائے لیکن علم بغاوت بلند نہ کرے۔ وہ چراغ خانہ ہی رہے۔
سبھا کی پری بننے کی کوشش نہ کرے۔ بے شک عورت پڑھے ضرور پڑھے اور آگے بڑھے ۔
میں اتنا ضرور کہوں گی کہ
وہ بس چند لمحوں کی ہمدم نہیں ہے
کہ عورت فقط شہد و شبنم نہیں ہے
تبسم نہیں صرف تلوار بھی ہے
وہ نغمہ نہیں صرف جھنکار بھی ہے
محبت کی مسند پر حسن وجوانی
شجاعت کے میداں میں جھانسی کی رانی
وہ شمع شبستاں وہ نور سحر
وہ ہر گا م پر مرد کی ہم سفر ہے
(علی سردار جعفری)
***
Abdul Haleem Siddiqui
Malegaon
Abdul Haleem Siddiqui
Malegaon
No comments:
Post a Comment