نیڈس اور کتاب دار کے زیر اہتمام بروز سنیچر مورخہ 26 نومبر 2011ء کو شام میں5 بجے انجمن اسلام سی ایس ٹی ، احمد ذکریا ہال میں ساجد رشید کا آخری افسانوی مجموعہ "ایک مردہ سر کی حکایت''کی رسم اجراء کی تقریب مغعقد کی گئی تھی ۔جس کی نطامت اردو ادب کی جانی مانی شخصیت گل بوٹے کے مالک و مدیر فاروق سیّد صاحب نے کیں ۔ صدر صاحب مشہور ٹی وی سیریئل ''گل گلشن گلفام اور کتھا ساگر کے رائٹر'' وید راہی '' رہے ۔مہمان خصوصی جاوید صدیقی ،شمع زیدی ، ریحانہ اندرے، سلام بن رزاق، ساگر سرحدی ، وجۓ کمار ، سلیم عارف صاحب لبنہ سلیم، آصف خان، انور کنول، م ناگ ، عرفان فقیہہ، غلام مومن صاحب ، قمر صدیقی، اقبال نیازی ، ڈاکٹر قاسم امام، یاسین مومن ، شاعر کے ایڈیٹر نعمان صدیقی، صادقہ نواب سحر جاوید ڈاکٹر روپیش سریواستو اسرار کامریڈ ،مقدر حمید ، ظہیر انصاری ، عزیز شریفی، ریاض منصف ، منور سلطانہ ،اسلم خان اور شہر و اطراف کی اہم شخصیات موجود تھیں ۔کسی وجہ سے نکھیل واگھے اس تقریب میں پہنچ نہ سکے ۔ اس لۓ ساجد رشید صاحب کی اہلیہ مسسز شاہدہ (بھابھی )کے ہاتھوں ان کی کتاب کا اجراء کیا گیا ۔ سلام بن رزاق ۔وجۓ کمار اور جاوید نے تاّثرات پیش کۓ ۔ سلام بن رزیق نے اپنے خیالات کے اظہار کے وقت یہ باتیں بتائیں کہ ساجد رشید اچھے جنرلسٹ اچھے صحافی کرٹونیسٹ ،ڈرامہ نگار اور اچھے صحافی تھے ۔کیوں کہ ان کے افسانے قاری کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات پیدا کرتے تھے ۔یہ ان کا احتجاجی نظریہ ہوتا تھا ۔ جاوید صدیقی نے کہا کہ ساجد رشید کی یہ کہانی ( مردہ سر کی حکایات) شئہ پارہ کی حیّثیت رکھتی ہے ۔مجھے اس بات کی چوشی ہے کل اس مجموعہ کا نام میرے پسندیدہ افسانے پر رکھا گیا ۔انھوں نے کہا کہ جو افسانہ قاری کی نیند حرام کردے ۔اور سوال کرتا رہے وہی ایک قابل افسانہ ہے اس افسانہ کو عالمی ادب میں جگہ ملنی چاہیے ۔ ا نھوں نے ایک واقع بیان کیا کہ شمع زیدی اور جاوید صدیقی آگرہ کۓ تھے ۔ جب بھی کوئی آگرہ جاتا ہے تو وہ تاج محل دیکھنے ضرور جاتا ہے اور پیٹھا ضرور لیتا ہے ۔مگر یہ لوگ آگرہ میں مشہور ومعروف شاعر وادیب نظیر اکبر آبادی کی مزار پر گۓ وہاں دیکھا کہ ایک قبرستان میں بے نور اور چراغ ایک قبر تھی جس پر تختی پر لکھا تھا میاں نظیر اکبر آبادی جوکہ بر صغیر کے سب سے پہلے ادیب و شاعر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ساجد رشید کا کام ایک جہاد کی طرح ہے انھوں نے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کو لے کر کہانیاں لکھی تھیں ۔جو واقئی جہاد ہے ۔ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنا ہے ۔ شاداب رشید نے رسم شکریہ ادا کیا ۔ رنگ باز تھیٹر کی طرف سے افسانے کی ڈرامائ انداز میں ریڈنگ کی گئ۔ اس طرح سے ساجد رشید کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔اور اس کے ساتھ ہی اس تقریب کا اختتام ہوا ۔
Sunday, November 27, 2011
رسم اجراء
نیڈس اور کتاب دار کے زیر اہتمام بروز سنیچر مورخہ 26 نومبر 2011ء کو شام میں5 بجے انجمن اسلام سی ایس ٹی ، احمد ذکریا ہال میں ساجد رشید کا آخری افسانوی مجموعہ "ایک مردہ سر کی حکایت''کی رسم اجراء کی تقریب مغعقد کی گئی تھی ۔جس کی نطامت اردو ادب کی جانی مانی شخصیت گل بوٹے کے مالک و مدیر فاروق سیّد صاحب نے کیں ۔ صدر صاحب مشہور ٹی وی سیریئل ''گل گلشن گلفام اور کتھا ساگر کے رائٹر'' وید راہی '' رہے ۔مہمان خصوصی جاوید صدیقی ،شمع زیدی ، ریحانہ اندرے، سلام بن رزاق، ساگر سرحدی ، وجۓ کمار ، سلیم عارف صاحب لبنہ سلیم، آصف خان، انور کنول، م ناگ ، عرفان فقیہہ، غلام مومن صاحب ، قمر صدیقی، اقبال نیازی ، ڈاکٹر قاسم امام، یاسین مومن ، شاعر کے ایڈیٹر نعمان صدیقی، صادقہ نواب سحر جاوید ڈاکٹر روپیش سریواستو اسرار کامریڈ ،مقدر حمید ، ظہیر انصاری ، عزیز شریفی، ریاض منصف ، منور سلطانہ ،اسلم خان اور شہر و اطراف کی اہم شخصیات موجود تھیں ۔کسی وجہ سے نکھیل واگھے اس تقریب میں پہنچ نہ سکے ۔ اس لۓ ساجد رشید صاحب کی اہلیہ مسسز شاہدہ (بھابھی )کے ہاتھوں ان کی کتاب کا اجراء کیا گیا ۔ سلام بن رزاق ۔وجۓ کمار اور جاوید نے تاّثرات پیش کۓ ۔ سلام بن رزیق نے اپنے خیالات کے اظہار کے وقت یہ باتیں بتائیں کہ ساجد رشید اچھے جنرلسٹ اچھے صحافی کرٹونیسٹ ،ڈرامہ نگار اور اچھے صحافی تھے ۔کیوں کہ ان کے افسانے قاری کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات پیدا کرتے تھے ۔یہ ان کا احتجاجی نظریہ ہوتا تھا ۔ جاوید صدیقی نے کہا کہ ساجد رشید کی یہ کہانی ( مردہ سر کی حکایات) شئہ پارہ کی حیّثیت رکھتی ہے ۔مجھے اس بات کی چوشی ہے کل اس مجموعہ کا نام میرے پسندیدہ افسانے پر رکھا گیا ۔انھوں نے کہا کہ جو افسانہ قاری کی نیند حرام کردے ۔اور سوال کرتا رہے وہی ایک قابل افسانہ ہے اس افسانہ کو عالمی ادب میں جگہ ملنی چاہیے ۔ ا نھوں نے ایک واقع بیان کیا کہ شمع زیدی اور جاوید صدیقی آگرہ کۓ تھے ۔ جب بھی کوئی آگرہ جاتا ہے تو وہ تاج محل دیکھنے ضرور جاتا ہے اور پیٹھا ضرور لیتا ہے ۔مگر یہ لوگ آگرہ میں مشہور ومعروف شاعر وادیب نظیر اکبر آبادی کی مزار پر گۓ وہاں دیکھا کہ ایک قبرستان میں بے نور اور چراغ ایک قبر تھی جس پر تختی پر لکھا تھا میاں نظیر اکبر آبادی جوکہ بر صغیر کے سب سے پہلے ادیب و شاعر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ساجد رشید کا کام ایک جہاد کی طرح ہے انھوں نے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کو لے کر کہانیاں لکھی تھیں ۔جو واقئی جہاد ہے ۔ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنا ہے ۔ شاداب رشید نے رسم شکریہ ادا کیا ۔ رنگ باز تھیٹر کی طرف سے افسانے کی ڈرامائ انداز میں ریڈنگ کی گئ۔ اس طرح سے ساجد رشید کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔اور اس کے ساتھ ہی اس تقریب کا اختتام ہوا ۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment