الحمد لللہ قربانی ہوگئی۔بکرے کٹے
بھی اور تقسیم بھی ہوگئے۔ گھر گھر سے کلیجی اور بٹ کے پکوان کی خوشبو نے اعلان کیا
کہ امّتِ ابراہیمی کے ہر فرزند نے مزے لے لے کر سنّتِ ابراہیمی کا لطف اٹھایا۔ حضرت
ابراہیمؑ کو تو مفت میں فرشتوں نے دُنبہ پیش کردیا اور بغیر کسی مشقّت کے انہوں نے
ایک اکیلے بکرے کو ذبح کردیا۔لیکن فرزندانِ امتِ ابراہیمی کودو دو اور چار چار بکرے
ڈھونڈھنے، قصّاب کو لانے، اور پھرصاف صفائی میں جتنی محنت اور مشقّت سے دوچار ہونا
پڑا یہ تو حضرتِ ابراہیم ؑ کو بھی نہیںکرنا پڑا۔ اور نہ انہیں علماءسے پوچھنا پڑا کہ
بکرے کی عمر کیا ہو، اسکا رنگ کیسا ہو، اسکی ٹانگ اور کان کیسے ہوں، اور نہ بی بی ہاجرہؑ
کو گوشت صاف کرنے، اچھا والا گوشت صمدھاوے میں بھیجنے ، درمیانی گوشت رشتہ داروں میں
اور کم درجے کا گوشت غریبوں کو دینے کیلئے پیاکٹس بنانے کی زحمت اٹھانی پڑی۔ اور نہ
انہیں مسلمان بستیوں میں سے گزرتے ہوئے ناک پررومال رکھنے کی نوبت آئی جہاںقربانی کرکے
اوجڑی ، خون اور غلاظت گلی میں پھینک دینامسلمانوں کیلئے ثواب میں شامل ہے۔ سلام ہو
حضرت ابراہیمؑ پر کہ جنہوں نے بیٹے کی قربانی پیش کردی اور ہمارے لئے اتنی آسان سنت
چھوڑ گئے کہ ثواب کا ثواب بھی اور لذیذ گوشت کے مزے بھی۔
غیر مسلم بھی دیکھتے ہونگے تو حیرت
میں پڑجاتے ہونگے کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ ” Êِنَّ ہَذَا لَہُوَ ال ±بَلَاء ال ±مُبِی ±نُ بے شک یہ سب سے بڑی آزمائش
ہے“ کہتا ہے۔ جس قربانی پر اللہ تعالیٰ ” سَلَام µ عَلَی Êِب ±رَاہِی ±م یعنی ابراہیم پر سلام ہو“ کہہ کر انکی قربانی کو سلام
کرتا ہے۔ اور اسکو ذِبحِِ عَظِیم یعنی عظیم ذبیحہ قرار دیتاہے کیا وہ قربانی یہی ہیکہ
اس کی یاد میں ہر سال لاکھوں جانوروں کا خون بہادیاجائے؟ ایک دو وقت کا مزے لے کردستر
خوان سجایاجائے؟ جس قربانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” Êِنِّی ± جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ Êِمَاماً۔“ یعنی ہم آپ کو تمام انسانوں کی امامت اور قیادت یعنی لیڈرشپ
بخشیں گے۔اگر لاکھوں جانوروں کو ذبح کرنے سے دنیا کی قیادت مل سکتی تھی تو آج مسلمان
چاہے وہ مسلم ملکوں کے تاجدار ہوں کہ دوسرے ملکوں کے خستہ حال، سارے کے سارے امریکیوں،
یہودیوں یا ہندووں کے رحم و کرم پر نہ ہوتے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس گوشت کی تقسیم پر سلام
بھیجنے والا ہوتا تو نہ آج ہندوستانی مسلمان اخلاقی اور معاشی طور پر ہریجنوں سے بد
تر ہوتے اورنہ پاکستانیوں پر دہشت گردی اور کرپٹ ہونے کے الزام ہوتے۔
اس کا سبب صرف ایک ہے ۔ وہ یہ کہ
ہم جو ذبیحہ کررہے ہیںوہ تو الحمدلللہ فقہی اعتبار سے مکمل سنتِ ابراہیمی پر مبنی ہے
لیکن اس کی نیّت نیّتِ ابراہیمی و نیّتِ اسماعیلی نہیں۔ آپ کہیں گے یہ کون سی نئی نیّت
ہے؟
جی نہیں۔ یہ کوئی نئی نیّت نہیں ہے۔
یہ قربانی کی اصل روح ہے۔ جو کچھ آپ کررہے ہیں وہ تو صرف ایک جسم ہے۔ جب تک اس میں
روح نہ ہووہ جسم بے جان ہے۔ یہاں بخاریؒ کی حکمت سمجھ میں آتی ہے جنہوں نے ”تمام اعمال
کا دارومدار نیّتوں پر ہے “ والی حدیث کو سرِکتاب رکھا۔ جس وقت حضرت ابراہیمؑ چُھری
پھیرنے لگے تھے اُس وقت اُن کے ، حضرت اسماعیلؑ کے اور بی بی ہاجرہ کے ذہن میں جو عزم
اور ارادہ چل رہا تھاوہ دراصل نیّت ہے جو قربانی کرنے سے پہلے آپ کے ذہن میں سچے دل
سے چلنا چاہئے۔ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں پہنچتی ہے۔ گوشت دنیا والوں کیلئے ہے اور
نیّت اللہ تعالیٰ کیلئے ہے۔ اگر نیّت ہی نہ پہنچے تو زمین پر ایک جانور کا گلا کاٹ
کر آپ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے آپ کی زندگی میں کوئی انقلاب آئیگا۔ لن یَنَالَ
اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَا ¶ُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّق ±وَی مِنکُم۔ سورہ
الحج آیت ۷۳ یعنی ”ا للہ تعالیٰ کے
ہاںقربانی کا نہ گوشت پہنچتا ہے نہ اسکا خون بلکہ اسکے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“۔
یہ تقویٰ ہی دراصل وہ نیت ہے جو چھری پھیرنے سے پہلے سچے دل سے نکلتی ہے۔ پتہ یہ چلا
کہ جانور کو ذبح کرنا اصل سنّت نہیں بلکہ وہ نیت یا ارادہ اصل سنت ِ ابراہیمی یا سنّتِ
اسماعیلی ہے جسکے بغیر ہم نے اگر دس دس بکرے بھی کاٹ ڈالے تو یہ اللہ کے ہاں پہنچنے
والے نہیں۔چونکہ یہ نیت فقہہ کی کتابوں میں لکھی نہیں ہوتی اور نہ ہمارے مفتی سمجھاتے
ہیں اسلئے یہ بات عجیب سی لگ رہی ہے۔اصل سنت ایک مستحب بن گئی ہے۔ آیئے آئندہ سال کیلئے
اس نیّت کو ابھی سے اپنے دل میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ جب یہ یقین ہوجائے کہ واقعی
اس نیّت پر عمل کرنے کی ہمت ہے تو پھر قربانی کریں ۔قربانی صرف جانور کو ذبح کرنے کا
نام نہیں۔ یہ تو اصل قربانی کے عمل کی آخری قسط یا ہEpisode ہے ۔ قربانی کا بکرا
لانے کیلئے بکرا مارکٹ جانے سے پہلے کچھ ہوم ورک بہت ضروری ہے ورنہ آپ کا حال اس طالبِ
علم کا ہوگا جو اسٹیٹ کا Topperبننے کا ارمان تو رکھتاہے لیکن بغیر اسٹڈی کیئے امتحان ہال میں پہنچ
جاتاہے۔ یہ دلیل پیش کرتاہے کہ اسکا لباس، قلم، ہال ٹکٹ، وقت کی پابندی سب کچھ طریقے
کے مطابق ہے، پرچہ بھی اسکا صاف ستھراہے۔ لہذا اسکو پورے نمبر ملنے چاہئے۔
بکرا خریدنے کا پہلا مرحلہ:
اگر آپ نے قربانی دینے کا تہیّہ کرلیا
ہے تو گھر سے نکلنے سے پہلے ذرا گھر کے اندر حضرت ابراہیمؑ کی طرح مانباپ کے عقیدے
اور آمدنی پر نظر ڈالنی ہوگی۔اگر گھر میں ناجائز کاروبار کی آمدنی آرہی ہو، رشوت، زمینوں
پہ قبضے، جھوٹ اور فریب سے کمائی میں اضافہ ہورہاہو، جہیز کا مال جو کہ لڑکی کے باپ
سے سسٹم کے نام پر وصول کیاگیاہو، اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی کھلی نافرمانی ہوتی ہو تو
بکرا خریدنے سے پہلے گھر والوں کو سمجھانافرض ہے۔جب کوئی نہ مانے تو گھر چھوڑدینا سنّتِ
ابراہیمی ؑ ہے۔ یہ ہے بکرا مارکٹ چلنے کا پہلا مرحلہ۔
دوسرا مرحلہ : پھر محلے اور شہر والوں کو دینِ حنیف یعنی ایک
اللہ کی بندگی کی دعوت دینا۔ اور اس بات کیلئے تیار رہنا کہ آپ کو سزائے موت بھی دی
جاسکتی ہے۔ آپ کو قدم قدم پر قانون کا خوف، گھر اور شہر سے نکال دیئے جانے کا خوف،
بچوں کے مستقبل کا خوف راستہ روکیں گے۔ لیکن اگر آپ جانور کی قربانی دینے پر بضد ہیں
تو یہ سب آپ کونہ صرف برداشت کرنا ہے بلکہ اسکا مقابلہ کرنا ہے۔ ضرورت پڑے تو گھر،
محلہ، شہر اور ملک بھی چھوڑنا ہے۔ یہ ہے بکرا مارکٹ کے راستے کا دوسرا مرحلہ۔
تیسرا مرحلہ: اب اولاد رکاوٹ بنے گی۔یہ سب سے اہم مرحلہ ہے۔
انسان اولاد کی محبت میں سب کچھ کرسکتاہے۔ اگر ہم سوتے ہوئے اپنے اپنے اعمال کا احتساب
کریں تو پتہ چلے گا کہ ہمارے 90% بداعمالیاں صرف اس اولاد کے اچھے مستقبل کی خاطرسرزد
ہوی ہیںجسکی خاطر ہم اللہ اور اسکے رسولﷺ کا کوئی بھی حکم ٹال سکتے ہیں۔ انکار تو نہیں
کرتے لیکن جانتے بوجھتے وہ حکم ٹال کر دل میں یہ نیت کرلیتے ہیں کہ اللہ معاف کرنے
والا ہے۔ بعد میںنماز، روزہ یا کوئی وظیفہ یا درود و سلام پڑھ کر، خیرات زکوٰة دے کر،
نفل عمرے و حج کرکے یا کسی بزرگ کی درگاہ پر حاضری دے کر یا میلادالنبی خوب دھوم دھام
سے مناکر اللہ اور اسکے رسول کو منالیں گے۔انہیں ایسے مولوی اور مشائخ بھی آسانی سے
مل جاتے ہیں جو شفاعت اور مغفرت کے ایسے ایسےShortcut وسیلے فراہم کرتے ہیں
کہ علماءبھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ شریعت منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔
بکرا خریدنے کا یہ تیسرا مرحلہ بہت
سخت ہے۔ اولاد کو اللہ کے حکم کے آگے ذبح کرنا تو درکنارانسان اولاد کو ایک کانٹا بھی
چبھے یہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اور اگر کوئی عزم کربھی لے تو شیطان آکروہی کہتا ہے جو
ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور بی بی ہاجرہ سے کہتا تھا جسے سن کر انہوں نے کنکریاں دے ماریں
۔ آج بھی وہ ایک سچے مسلمان باپ سے کہتاہے ” دوسرے سارے احکام تو پورے کرہی رہے ہیں۔
داڑھی رکھی ہے، بیوی پردہ بھی کرہی لیتی ہے۔ نماز ، روزہ، زکوٰة سب کچھ تو ادا کرتے
ہی ہیںبعض معاملات میں اگر اولاد کی خاطر سمجھوتہ بھی کرنا پڑے تو برائی کیا ہے۔ اللہ
تعالیٰ معاف کرنے والا ہے“۔ اُدھر جاکر اولاد کے دل میں یہ وسوسہ ڈالتاہےکہ ”تمہارا
باپ اپنی مرضی چلانا چاہتاہے چاہے اولاد کا مستقبل تباہ ہوجائے“۔ اور اُدھر بیوی کو
جاکر یہ بھڑکاتاہے اور کہتا ہے ”تمہارے شوہر کو بس دین معلوم ہے، دنیا کیا معلوم۔ اولاد
کیلئے لوگ کیا نہیں کرتے لیکن ایک یہ آدمی ہیکہ غیر ذمہ دار اور لاپروا ہے۔ تم اسکی
ایک بات بھی نہ سننا۔ وہی کرنا جو اولاد کیلئے بہتر ہو۔ اگر شوہر ناراض بھی ہوگا تو
تھوڑی دیر غصّہ کرے گا اور پھر چپ ہوجائیگا“۔
شیطان کی اس طاقتورچال سے بچ کر نکلنا
ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اگر آپ اس سے نکل سکتے ہیں تو چلئے اب بکرا خریدیئے۔ اور
چُھری چلاتے ہوئے یہ دل میں ٹھوس نیّت کیجئے۔
ایک باپ کی نیّت یوں ہوگی: اے اللہ
تیرے حکم کے آگے گھر، مانباپ، شہر اور ملک ہی نہیں اگر اولاد کو بھی چھوڑنا پڑے تو
چھوڑ دونگا، تیر ی مرضی کے آگے اگراولاد کو اس بکرے کی طرح قربان بھی کرنا پڑے تو کردونگا
بسم اللہ اللہ اکبر۔۔۔۔
ایک بیٹے یا بیٹی کی نیّت یہ ہوگی:
اے اللہ، تیری رضا کیلئے اپنی جان بھی لٹادینگے ۔ اگر تیرا حکم ہےکہ والد کی فرمانبرداری
میں اپنا گلا بھی ذبح کرنے کیلئے پیش کردوتو اسماعیل ؑ کی طرح پیش کردینگے ۔ بسم اللہ
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔
ایک بیوی کی نیّت: اے اللہ تیری رضا
کی خاطر شوہر کی خواہش یا حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کردونگی۔ تیرے حکم پر اگر وہ اولاد
کو بھی قربان کردینے کا ارادہ کرلے تو میں شیطان کا نہیں اسکا ساتھ دونگی۔ بسم اللہ
اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔
جب یہ قربانی کا گوشت گھر گھر پہنچ
جائیگا تو یہ اعلان ہوجائیگا کہ اس آدمی نے عہد کرلیا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے آگے
اولاد کو بھی قربان کرسکتاہے۔ جب اولاد کی بھی وہ پروا نہیں کرے گا تو دوسرے کس شمار
میں۔ اسلئے اب اس آدمی پر اعتبار کیا جاسکتاہےکہ وہ انصاف کرے گا، کبھی جھوٹ دھوکہ
فریب رشوت اور ناجائز کمائی کا سہارا نہیں لے گا۔اگر ہر باپ کا یہ اعلان گھر گھر پہنچے
گا تو کیسے ممکن ہے کہ معاشرہ میں برائیاں پنپیں، لوگ اولاد کی خاطر اللہ کی نافرمانی
کریں؟
جب یہ گوشت گھر گھر پہنچے گا تو لوگوں
کو معلوم ہوجائیگاکہ اس شخص نے اپنے والد کی فرمانبرداری کا اعلان کردیا ہے۔ جسطرح
اسکے والد پر اعتبار کیا جاسکتاہے اس پر بھی اعتبار کیاجاسکتاہے۔ جب یہ اعلان گھر گھر
ہو توپھر کیسے ممکن ہے کہ اولاد آوارہ نکلے، والدین کا دل دکھائے۔ والدین کے دین اور
تہذیب کو چھوڑ کر کسی اور راستے پر نکل پڑے؟لوگ جوڑا جہیز کو جائز سمجھیں، بہویں اپنے
شوہروں کو لے کر ساس سسر سے علہٰدہ ہوجائیں اور ان بوڑھوں کی عزتِ نفس کو تکلیف پہنچے؟
جب یہ گوشت دوسری عورتوںتک پہنچے
گا تو یہ اعلان ہوجائیگا کہ یہ عورت خدا کے بعد اپنے شوہر کو درجہ دینے والی ہے۔ اسکے
ہر حکم پر اپنی جان اور اپنی اولاد کو بھی قربان کرسکتی ہے۔ اگر بیوی ابرا ہیم ؑ کی
اہلیہ حضرت بی بی ہاجرہ ؑ کے نقشِ قدم پر ہوکہ جب ابراہیمؑ نے انہیں مکہ میں جبکہ مکہ
تعمیر بھی نہیں ہوا تھا ایسی جگہ تنہا چھوڑا اور واپس پلٹے تو وہ ایک بیوی کے صبر اور
اللہ کی اطاعت کا عظیم ترین امتحان تھا۔ اس عظیم بیوی نے یہ بحث نہ کی کہ کس کے بھروسے
چھوڑ کر جارہے ہو، اناج، پانی اور گھر کا انتظام کئے بغیر کسطرح جاسکتے ہو۔ صرف اتنا
پوچھا کہ ”کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟“۔ جواب ہاں میں سننے کے بعد انہوں نے فوری سر جھکادیا۔یہی
نہیں بلکہ جتنے سال بعد حضرت ابراہیم ؑ آئے تب تک بیٹے اسماعیل ؑ بڑے ہوچکے تھے۔ اس
دوران ایک بیوی اپنے بیٹے کے کان بھر سکتی تھی کہ دیکھو تمہارا باپ کتنا غیر ذمہ دار
ہے، سوتن کے پاس رہ رہا ہے اور تنہا صحرا میں بے یارو مددگار، بے گھر اور بے روزگار
چھوڑ کر بچے کی کبھی خیریت لینے کا بھی اسے خیا ل نہ آیا۔ بجائے یہ سب کہنے کہ اس عظیم
ماں نے ایسا کیا تربیت کی ہوگی کہ بیٹا ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی بار باپ کو دیکھتا
ہے اور ذبح ہونے کیلئے اپنا گلا پیش کردیتاہے۔ اسقدر نووارد باپ پر اعتماد اور یقین
کہاں سے ایک بیٹے کے دل میں آیا۔ یہ دراصل اس عظیم ماں کی تربیت تھی جس نے شوہر کے
غیاب میں بھی اولاد کے ذہن پر باپ کا وہ امیج بنایا کہ اسے یقین ہوگیا کہ ہمارا باپ
اللہ کے حکم سے ہٹ کر کچھ نہیں کرتا۔ ہر وہ عورت جس کے نام کی قربانی آج ہوتی ہے اگر
وہ بھی بی بی ہاجرہ ؑ کی نیت کرے اور شوہر اور اسکے خدا پر ایسا ہی اعتماد و یقین پیدا
کرلے تو پھر کیسے ممکن ہے کوئی بیوی شوہر سے بحث یا حجّت کرے، اسکی مرضی جانتے ہوئے
بھی اسکے خلاف کرکے بچوں کو یہ سبق دے کہ گھر میں صرف ماں کی چلتی ہے باپ کی نہیںباپ
تھوڑی دیر پکارے گا اور پھر چپ ہوجائگا۔ لہٰذا باپ کی خواہش کو نظر انداز بھی کیاجا
سکتا ہے ۔ جس گھر میں بیوی شوہر سے بحث کرنے والی ہو ، شوہر سے اونچی آواز میں غصہ
دکھانے والی ہو، ہر بات میں شکایت اور طنز کرنے والی ہو اس گھر میں کبھی برکت نہیں
ہوتی، اولاد نافرمان نکلتی ہے۔ اور پھر ان کی اولادیں بھی ان کی نافرمان نکلتی ہیں۔شائد
اسی لئے جب حضرت ابراہیم ؑ مکہ تشریف لائے اور بہو سے ملے، خیر خیریت پوچھی تو بہو
نے بجائے صبر و شکر و قناعت کا جواب دینے کے، شوہر اور حالات کی ناشکری بیان کی۔ طنز
و شکایت بیان کرنے لگی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بیٹے کو مشورہ دیا کہ چوکھٹ بدل دیں۔ یعنی
اس بیوی کو چھوڑ دیں۔ اسماعیلؑ نے ایسا ہی کیا۔ جب اگلی بار ابراہیم ؑ مکہ تشریف لائے
اور دوسری بہو سے خیر خیریت پوچھی تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ہر حال میں
قناعت اور شوہر کی فرمانبرداری کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے انہیںدعا دی۔اور آپ
جانتے ہیں کہ بی بی ہاجرہ ؑ اور ان کی فرمانبردار بہو کی کوکھ سے پیغمبروں کی نسل چلی۔
یہی اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہیکہ جب بیویاں ہر معروف میں اپنے شوہر کی بلا چوں و
چرا اطاعت کرتی ہیں وہ جن حالات میں رکھیں خوش رہ کر شوہر کو بھی خوش رکھتی ہیں اللہ
تعالیٰ ان کے گھروں میں نہ صرف برکتیں نازل فرماتا ہے بلکہ ان کی گودوں سے صالحین پیدا
ہوتے ہیں۔
مختصر یہ ہیکہ بکرے کی قربانی تو
محض ایک علامت یا Symbolہے اس قربانی کے جذبے
کا جسکے نتیجے میں پورا گھر، معاشرہ اور ملک بدل جاتاہے۔ ایک انقلاب آجاتاہے۔ دنیا
خود آگے بڑھ کر ایسے باپ، ایسی اولاد اور ایسی بیوی کو قیادت پیش کرتی ہے۔یہی لوگ سیاست،
سماج، معیشت اور تہذیب کے اصلی قائد کہلانے کے لائق ہوتے ہیں۔ اور اگر اس نیتِ ابراہیمیؑ
اور نیتِ اسماعیل ؑ اور نیتِ ہاجرہ کے بغیر ذبیحے ہوتے رہے تو انقلاب تو کوئی نہیں
آئیگا۔ البتہ اس قوم کا سیاسی ، سماجی، معاشی اور تہذیبی وجود آج جتنا بدتر ہے اسکی
بدتری میں اور اضافہ ہوتاجائیگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔ آیئے ہم عہد کریں
کہ آئندہ سال کے بکرے کی خریدی کی تیاری ہم آج ہی سے شروع کرتے ہیں۔ انشاءاللہ۔
علیم خان فلکی۔ جدہ
aleemfalki@yahoo.com
www.socioreforms.com
mobile:00966504627452
No comments:
Post a Comment