میری داستانِ حیات اتنی طویل نہیں کہ اسکو پڑھنے یا سمجھنے میں کسی کو دیر لگے کیونکہ بڑی آزاد مزاج اور ملنسار واقع ہوئی ہوں، اس لئے جو مجھے اپنانا چاہتا ہے میں اس کی ہو جاتی ہوں، جو مجھے پناہ دیتا ہے میں اس سے محبت کرتی ہوں، جو مجھے پڑھتا ہے میں اس کو آگہی بخشتی ہوں، جو مجھے سمجھتا ہے میں اسے رازِ حیات بتاتی ہوں، میرا کہیں قیام نہیں، میری کو ئی حد نہیں، ہر قوم سے میری دوستی ہے، ہر ملّت سے میرا ناطہ ہے، ہر زبان سے میرا رشتہ ہے، انسانیت میرا مذہب ہے، مٹھاس میری شرست ہے، اتحاد میرا نعرہ ہے اوریگانگت میری کوشش ہے۔میرا دامن عربی کی طلاقت ،جامعیت اور قادر الکلامی سے ، فارسی کی شیرینی اور حلاوت سے ،ہندی کے پیار اور انسیت سے دکنی کی نغمگی سے ، پنجابی کے جوش اور ولولوں سے، ترکی کی وسیع القلبی سے اور انگریزی، فرانسیسی و اطا لوی زبانوں کی اصطلاحوں سے بھرا پڑا ہے- میری طرف سے بے توجہی برتنے والے بھی میری توجہ کے محتاج رہتے ہیں، مجھ سے پیار کرنے والے میرے ہوکر رہ جاتے ہیں، میں جنگ کے میدانوں میں ترانہ بن کر گونجتی ہوں اور علم و ادب کی کی محفلوں میں گنگناتی ہوں، اجنتا اور الورا پر لکھے جانے والے گیتوں اور تاج محل پر لکھی جانے والی پاکیزہ نظموں کو میں نے جنم دیا ہے، آزادی کے متوالوں کو نعرے دئے ہیںاور امن کے نقیبوں کو پروان چڑھایا ہے۔ حضرت امیر خسروؔ کو مجھ پر فخر تھا، ولیؔ دکنی میرے شریک ِ بزم تھے ، میر تقی میرؔ میرے مرہون منت، اور میر انیسؔ میرے عظیم مداحوں کی فہرست میں شامل ہیں، میں برصغیر کی دھرتی کو سیراب کرنے والے دریاؤں کے کناروں پر آباد شہروں اور بستیوں میں قرنوں سے پنپنے اور ان علاقوں سے نکل کر ہر سو پھیلنے والی عظیم برصغیر کی عظیم تر تہذیب و ثقافت کا پس منظر ہوں، اس لئے میں سارے برصغیر کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہوں، میں راجپوتوں کی شجاعت ، پٹھانوں کے عظمت اور مغلوں کی فراست و ثفاقت کی امین ہوں، پورا برصغیر ہر قسم کی حد بندیوں کے باوجود میرا وطن ہے اور میری نظر میں ایک ہے، کیونکہ میرا دستر خوان وسیع تر ہے اور سب کے لئے ہے۔میرؔ، غالبؔ، نظیرؔانیس ؔ،سرشارؔاور چکبستؔ سے لیکر، فراقؔ ،فیضؔ، ، شکیلؔ ، ساحرؔ، فرازؔ، مجروحؔ، خمارؔ، پھر حالی ؔاور ذکاہ اللہ سے کرشن چندر، راجندربیدی ِِ پطرس بخاری ،انتظار حسین اور شمس الرحمن فاروقی تک کون ہے جس کو میرے دستر خوان کا خوشہ چیں ہونے پر ناز نہیں؟ہندؤں کے شنکھوں، مسلمانوں کی اذانوں، سکھوں کی گربا نیوں اور مسیحوںکی عبادتوں کا گدازمیرے اندر جذب ہے، اگر ایک طرف مسلمان برصغیر میں اپنے اثاثوں کا واحد امین مجھے قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف ہند و مجھے اپنی سبھیتااور ثقا فت کے من موہ لینے والے کرداروں کا محافظ مانتے ہیں، ترکوں افغانوں اورمغلوں نے میری سرپرستی کی تو انگریزوں نے مجھے انتظامی امور کا ذریعہ بنایا ۔مجھے جاننے اور سمجھنے والے کہیں کے بھی ہوں کوئی بھی انکی بولی ہو کوئی بھی انکی زبان ہوجب اپنے اپنے لہجوں میں مجھے بولتے ہیں تو میں انکی بولی میں گنگناتی ہوں انکے گیتوں میں گاتی ہوں اس لئے میرے ان گنت لہجے ہیں ، بنگالی لہجہ کی چاشنی، دکنی لہجہ کا رچاؤ، پنجابی لہجہ کی کھنک ،بلوچی اور سندھی لہجوں کی غنائیت،گجراتی اور مراٹھی لہجوں کی شفا فیت اور ملیالم اورتامل لہجوں کی گونج میں مجھے اپنا ئیت کا احساس ہوتا ہے۔ جی ہاں میں اردو ہوں وہی اردو جسے دِلّی کے گلی کوچوں میں حضرت امیر خسرو نے پروان چڑھا یا،لکھنوء کی علمی و ادبی محفلوں میں جس نے ہوش سنبھالا، حیدر آباد کے ایوانوں میں ہر سو دیکھنے والی نظر پائی، عظیم آباد کلکتہ اور پنجاب کے ادب نوازوں نے جسے آراستہ کیا اور لاہور کے چھا پہ خانوں اور کتب خانوں نے جسے دور دور تک پہنچا یا اور اب میرے چاہنے والے میری شمع فروزاں کو تھامے ہوئے یورپ و امریکہ کے شہروں کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کی پھلتی پھولتی بستیوں اور آبادیوں تک جاپہنچے ہیں۔ میں سب کو ساتھ لئے چل رہی ہوں ، میں نے کسی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑامیں سب کا دل رکھتی چلی آرہی ہوں، میں نے کبھی کسی کی وراثت پر حریصانہ نظر نہیں ڈالی بلکہ ہرایک کی اچھائی کو اپنے اندرجذب کیا ہے اوراس کو دوام بخشا ہے۔
محمد سلیمان دہلوی
بانی صدر انڈو قطر اردو مرکز(دوحہ دہلی) ۸۹۷۵، کوچہ رحمن، دہلی ۔
No comments:
Post a Comment