ایک مشہور جدید انگریزی ڈرامہ نگار نے اپنے کئی ڈراموں میں اس نظریہ کو بطور ایک فلسفہ اور ایک مرکزی خیال کے استعمال کیا ہے اور نتائج پرکشش اور عجیب و غریب تھے آدمی اب وقت کو ایک نظریہ سے دیکھنے لگ گئے ہیں۔مختصراً اس انگریزی ڈرامہ نگار نے (اس کا نام پریسٹلے ہے) آئن سٹائن کے نظریہ کی فلسفیانہ اصطلاح میں جو تشریح پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کبھی نہیں بدلتا۔ صرف چوتھی بعد وقت، بدلتی ہے اور اس کے رابع کے بدلنے سے آدمی بظاہر مختلف نظر آتا ہے اس وقت سے جب کہ وہ پہلے پہل اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے، اس وقت سے جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں محض ایک جنین کی شکل میں ہوتا ہے اس وقت سے جب وہ اپنے باپ کے پٹھوں میں ایک تند سپرم (Sperm) ہوتا ہے اور اس سے بھی پہلے اپنے لاتعداد موروثوں کے خون میں، وہ وہی ایک ہی آدمی ہوتا ہے جو وہ اب ہے جو وہ دس ہزار سال بعد ہوگا۔ میرا خیال ہے ہم سب نے کبھی نہ کبھی یہ ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ہم ہی "پہلی زندگی" ہیں، ہم جاودانی اور مدام ہیں اور یہ کہ ہم ازل کی تاریک کھوﺅں تک زندہ رہیں گے۔ مذہب کے سب بڑے بانیوں نے اسے ضرور محسوس کیا ہوگا۔ ورنہ ہر مذہب میں روحوں کی ازلی تخلیق، انسان کی زندگی کی ابدیت اور کسی نہ کسی طریق پر موت کے بعد وجود میں ہونے کا تصور نہ پیش کیا جاتا۔ مذہب مذاہب کو چھوڑ کر افریقہ کے حبشی کا (ہوڈو ازم) بھی اس کے سامنے اگرچہ ایک مختلف طریقہ پر حیات بعد موت اور سزا و جزا کا یہی تخیل رکھتا ہے اور یہ امر کہ آدمی کی ابدیت ہر مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے، محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔
اس احساس کو لکھے ہوئے لفظ کی قید میں لایا جاسکتا ہے، اسے صرف کسی الہامی لمحے میں اچانک محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی احساس نے ہندوﺅں کے مسئلہ تناسخ کو جنم دیا اور یہی ایک مسلمان کے سزا و جزا کے عقیدہ کا موجب ہے اس وقت کی ابدیت کے عظیم پس منظر کے سامنے جانچنے پر آدمی کی پیدائش اور موت کی ازلی زندگی میں د و بالکل غیر اہم اور معمولی واقعے نظر آتے ہیں اور صرف اس کے دنیاوی سفر میں آغاز اور اختتام کے دو سنگ میل قرار پاتے ہیں۔
بعض دفعہ یہ آگے بڑھتا ہوا رواں دواں وقت پیچھے بھی دوڑ سکتا ہے اور پھر بظاہر عجیب اور ناقابل فہم باتیںعمل میں آتی ہیں۔ایسا ہی چونکا دینے والا اور ناقابل فہم تجربہ چند روز ہوئے ان سطور کے لکھنے والے کے ساتھ پیش آیااگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس وقت بیٹھا مابعدالطبیعاتی مسئلہ کو زیر بحث لا کر پڑھنے والے کو اس احساس کے سمجھانے کی غالباً بے فائدہ کوشش کا مرتکب نہ ہوتا۔
میری اول ترین یادوں میں سے ایک جو ایک عرصے کی دیکھی ہوئی خواب کی طرح دھندلکوں میں لپٹی ہوئی ہے۔چارپائی پر سفید چادر میں ملفوف ایک ساکن لیٹی ہوئی شکل کی ہے۔ چادر برف کی طرح چمکیلی سفید ہے۔ چارپائی جس پر وہ ساکن شکل لیٹی ہے ایک وسیع چبوترے کے وسط میں ہے اور اس کے پیچھے ایک وسیع مکان کے برآمدے کے محرابی دروازوں کا پس منظر ہے۔چارپائی کے ارد گرد بہت سے آدمی جمع ہیں۔ ان میںسب سے ممتاز اور باقی سب لوگوں کے لئے میل مرکزی بنا ہوا ایک لمبا سفید بزرگانہ داڑھی والا شخص ہے۔ بہت سے آدمی اس کے پاس آتے ہیں اور پھر ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں وہ اسی طرح جامد ایک گڑی ہوئی لاٹھ کی طرح کھڑا رہتا ہے۔
وقت غالباً پہلے پہرکا ہے اور دھوپ کی روشنی زرد، زریں ہے۔ میں اپنی انا مائی
بکھان کی انگلی پکڑے ایک سنہری دھوپ میں نہائے ہوئے جیسے شہر میں پر اسرار وسیع گلی کوچوں میںچل رہا ہوں۔ (اگرچہ میں اکتیس سال جی چکا ہوں اور کئی ملکوں اور کئی ہواﺅں میں سے میں نے اس شہر کی تلاش کی ہے، میں نے اس شہر کو نہیں پایا۔ وہ شہر شاید نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر .... ماسوا ایک بچے کے دماغ میں۔ ہاں قدیم فرعونوں کے تھبیس(Thebes) کی تصویروں میں مجھے اس شہر کی ایک جھلک دکھائی دی ہے)مائی بکھارن قدرے تیز تیز چل رہی ہے۔ میری چھوٹی ٹانگیں اس کے ساتھ برابر قدم نہیں رکھ سکتیں اور میں تقریباً گھسٹ رہا ہوں۔ اچانک ہم ایک بڑے لکڑی کے پھاٹک کے پاس آکر رکتے ہیں جو کھلا ہے اور اس میں سے وہ منظر ناگہانی ہماری نظروں کے سامنے آتا ہے۔ برف سی سفید چادر میں لپٹی ہوئی شکل اور خاموش لوگوں کا منظر جسے میں نے پہلے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں مائی بکھان سے پوچھتا ہوں "اماں یہ کیا ہو رہا ہے" وہ کہتی ہے۔ "بیٹا" وہ عورت جن کے گھر ہم جاتے رہتے تھے اور جو ہمیں تمہیں کھانڈ کا شربت پینے کے لئے دیاکرتی تھی مر گئی ہے اور یہ اس کا جنازہ جا رہا ہے۔"
مجھے مرنے کے متعلق کوئی واضح پتا نہیں کہ وہ کیا ہوتا ہے۔پھر بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ اس میں ڈراﺅنی کچھ ہولناک سی چیز ہے۔ مجھے اس کھانڈ کا شربت پلانے والی موٹی، مہربان عورت کا اس طرح آکر چادر اوڑھ کر ساکن لیٹ جانا بے حد عجیب معلوم ہوتا ہے۔
میں مائی بکھان سے اس کے متعلق اور بہت سی باتیں پوچھتا ہوں، لیکن وہ بڑوں کی سی بے اعتنائی کے ساتھ مجھے کوئی جواب نہیں دیتی۔ میں حیران اور عجیب طور سے ڈرا ہوا اس منظر کو دیکھتا ہوں۔
جب سے مجھے یاد ہے اماں بکھان ہماری دایہ تھی۔ ہم اس کو اس تعجب اور تعریف سے دیکھا کرتے تھے جس طرح بچے اپنے سے بڑوں کو دیکھتے ہیں مجھے اس کے بغیر ایک پل چین نہ آتا تھا۔ اسے شاہزادوں اور دیوتاﺅں کے عجیب و غریب قصوں کے بیچ میں سو جانے اور خراٹے لینے کی جھلا دینے والی چٹکیاں لینی پڑتیں کیونکہ وہ ایک گہری نیند سوتی تھی۔ وہ جاگتی اور ہم پوچھتے "اماں بکھان آگے کیا ہوا....!"
"میں کہاں پر تھی؟" وہ پوچھتی۔
"تو کہہ رہی تھی ناشاہزادے نے پری سے پوچھا کہ تو ہنسی کیوں اور روئی
کیوں۔" بے صبری سے اسے یاد کراتے۔
وہ کچھ منٹ اور اونگھتے ہوئے قصہ سناتی اور ایک نہایت دلچسپ اور اضطراب کن قصے کے درمیان خراٹے لینے لگتی۔
میری اماں بکھان ایک عام واقفیت کی عورت تھی۔ تقریباً شہر میں ہر کوئی اس کو جانتا تھا اور راستے میں کئی آدمی اس کو ٹھہرا کر اس کی خیریت پوچھتے اور حال لیتے اور دیتے۔ اماں بکھان اپنے چالیس کے سن کے باوجود اور اپنی فربہ مگر مچھ سی صورت کے باوجود اس وقت بھی رومانٹک عورت تھی اور میرا خیال ہے کافی چاہنے والوں کے نام گنا سکتی تھی۔ اس کے پہلے خاوند مر کھپ گئے تھے یا وہ ان کو فراموش کر چکی تھی۔ جب میں دوسری میں پڑھتا تھا تو اس نے ہمارے پچاس سالہ سائیس بابا الٰہی بخش، جسے ہم بابا لاہبیا کہا کرتے اور جو اپنی مہندی سے رنگی ہوئی داڑھی کے ساتھ ایک نہایت پر وقار شخص لگتا تھا، نکاح پڑھوا لیا جو اس کی پہلی شادیوں کی طرح عارضی نوعیت کا ثابت ہوا۔
وہ ایک اچھی اور جہاں دیدہ عورت تھی اور غالباً بیشتر گھرانوں میں اس کی جو آﺅ بھگت ہوتی تھی وہ اس کے تحصیل دار صاحب کی نوکرانی ہونے کی حیثیت سے ہوتی تھی۔اس کے علاوہ ادھر ادھر کے حال احوال، دینے کے فن میں اپنے طبقے کی ساری عورتوں کی طرح طاق تھی۔ اس سے زیادہ باتیں گپیں اور شہروں کے اسکینڈل کے بارے میں ہوتی ہوں گی جن کو سننا اور جن پر بحث کرنا ہمارے گھروں کی چار دیواری میں محبوس زنانہ مکینوں کا چہیتا مشغلہ ہے مجھے اس کے ساتھ بے حد محبت تھی اور میںاس سے پل بھر کے لئے جدا نہ ہوتا تھااگر وہ کہیں مجھے چھوڑ کر چلی جاتی تو میں زور زور سے رو رو کر اس کی دوہائی دیتا ضد اور غصہ سے آنگن کے فرش پر لوٹنے لگتا اور اس وقت تک غیر تسلی پذیر ہوتا جب تک کہ اماں بکھان مجھے اٹھا کر سینے سے نہ چمٹا لیتی۔ وہ ضدی اور غصیلی تھی اور مجھے یہ اکثر جتایا گیا ہے کہ میں نے اپنی ضد اور غصہ اماں بکھان سے لیا ہے اگر یہ سچ ہے تو اماں بکھان کا شکر گزار ہوں کیونکہ میری ضد نے مجھے کئی حماقتوں سے بچایا ہے اور مجھے اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے اکسایا ہے۔ اماں بکھان نے مجھے اپنی آواز اور اپنا لہجہ ضرور بخشے ہیں۔ میرا دیہاتی رینگتا ہوا لہجہ بڑی دیر تک میرے گھر والوں کے لئے مذاق اور قدرے مایوسی کا موجب رہا۔ وہ میرے اس لہجہ کی ذمہ داری میری پیاری اماں بکھان کے سر تھوپتے تھے اور میں اس اچھی عورت کا شکر گزار ہوں (وہ مر چکی ہے) کہ اس کی وجہ سے مجھ پر اپنی کسی کوتاہی کا الزام نہیں دھرا جاتا۔ اصلی قصور وار مائی بکھان ٹھہرائی جاتی ہے۔ جن دنوں میں اور اماں بکھان گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے اور موٹی مہربان عورتوں کے گھروں میں بن بلائے مہمان بنا کرتے تھے ان دنوں کی میری ایک تصویر اب تک میری بڑی پھوپھی کے تختہ آتش داں پر محفوظ ہے اور اس وقت میرے حلیے اور لباس پر روشنی ڈالتی ہے.... ایک سیب سے گالوں والا گول مٹول لڑکا جس کے سر پر سلمیٰ ستاروں سے کاڑھی ہوئی گول ٹوپی ہے اور جس نے اوپر اٹھی ہوئی ٹوﺅں والے براﺅن بوٹ پہنے ہوئے ہیں، ایک شش طرفی کھدی ہوئی میز پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے اور ایک معصوم متانت سے سامنے دیکھ رہا ہے۔ پیچھے فوٹوگرافر کا پردہ ہے۔ جس پر جھالروں والے ستون اور کچھ گملے سے رنگے ہوئے نظر آرہے ہیں۔مجھے بھی یاد پڑتا ہے سلمیٰ ستاروں والی ٹوپی مجھے بے حد اچھی لگتی تھی اور میں دوسری جماعت میں آنے تک اس کو پہنتا رہا۔ اونچی اٹھی ہوئی ٹوﺅں والے بوٹوں سے مجھے سخت نفرت تھی اور میں ان کو پسند نہ کرتا تھا مگر ان دنوں ان کا رواج عام تھا۔ وہ شش طرفی منقش میز اپنے پائدان سمیت ظاہراً دائمی ہے اور پھولدار گلوب والے لیمپ کی طرح اب تک (یعنی ستائیس، اٹھائیس سال گزرنے کے بعد تک بھی) ہمارے گھر میں ہے۔
میں تحصیلدار کا "کاکا" تھا، اس لئے میری والدہ جہاں تک ممکن ہوتا مجھے صاف کپڑوں میںرکھتی اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اکثر جب میں اماں بکھان کے ساتھ گشت پر نکلتا تھا تو میرا لباس وہی ہوتا تھا جو میں فوٹو گراف میں پہنے بیٹھا ہوں۔ یعنی سلمیٰ ستارے والی ٹوپی، ایک زریں سی واسکٹ، شلوار اور اٹھی ہوئی ٹو والے (کتنے بد نما!) بوٹ جب میں نے بڑے پھاٹک کے نیچے سے زردیلی ساحرانہ سی دھوپ میں چبوترے پر اس سفید ساکٹ میت پر نظر ڈالی ہوگی تو میرا یہی لباس ہوگا۔ اگر مجھے خود یاد نہیں کہ میںنے کیا کپڑے پہنے ہوئے تھے.... گو اب میںجانتا ہوں کہ میرا وہی لباس تھا۔
اس واقعے کے بعد جب میری عمر زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین سال ہوگی میں نو سال اور بہاول نگر میں رہا۔میرے بچپن اور لڑکپن کا سنہری زمانہ اسی کھلے پر فریب شہر میں گزرا۔ اس عرصے میں مجھے بھی وہ بے حد بڑے پھاٹک اور افسانوی وسعت والے چبوترے والا مکان نظر نہ پڑا۔ گو کہ میں نے خاص طور سے اس کی کبھی تلاش نہیںکی۔ کئی دفعہ میں تعجب کرتا کہ وہ میری یاد والی جگہ کونسی تھی اور کہاں تھی مجھے اب یقین ہے کہ اگر میں اس کے پاس سے گزرا ہوں گا تو میں نے اسے پہچانا نہ ہوگا۔ بچپن میں چیزیں اصلیت سے کہیں زیادہ پراسرار اور وسیع لگتی ہیں اور بے حد حیرت ناک!
پھر میرے باپ کی بہاولنگر سے بہاولپور تبدیلی ہوگئی۔ بہاولپور ریاست کا دارالخلافہ تھا، شاندار شہر تھا۔ وہاں نور محل تھا اور سینما وہاں بجلی بھی تھی میں تمام لڑکوں کی طرح ایک نئے اور بڑے شہر میں جانے پر بے حد خوش تھا۔ میں ایک نئے اسکول میں داخل ہوں گا۔ نئے دوست بناﺅں گا،نئی اور عجیب و غریب جگہیں دریافت کروں گا۔ زندگی زیادہ دلچسپ ہوگی....
مگر بہاولپور میرے لئے ایک منحوس شہر ثابت ہوا۔ یہاں ہم ایک تنگ کوچہ میں ایک شاندار پختہ مکان میں آکر ٹھہرے تھے مگر میں تمنا اور ہڑ کے کے ساتھ بہاولنگر میں اپنے کچی اینٹوں کے گھر کے خواب دیکھا کرتا.... وہ مردانہ کی چھوٹی دیوار۔ وہ دروازے کے باہر ایک لوہے کے بازو سے لٹکی ہوئی میونسپلٹی کی لالٹین وہ چھوٹی دیوار کے پرے ریتلا میدان جہاں میرے دوست مصنوعی جنگیں لڑا کرتے تھے۔ وہ مکان کے عقب میں بڑے برساتی جوہڑ کے پرے سیاہ اور پر اسرار ریلوائی، جہاں آدمی جا کر انجنوں اور گاڑیوں کو دیکھ سکتا تھا۔
بہالپور میں، میں اپنی جماعت میں چمکا مگر کئی وجوہ سے میں اداس اور کھویا کھویا سا رہنے لگا۔ یہاں ایسے دوست نہ تھے جن کے ساتھ مل کر آدمی مصنوعی جنگیں لڑ سکتا ہو یا اینٹوں کے بنے ہوئے قلعوں پر حملے کر سکتا ہو، یا رنگین کاغذ کے تاج پہن کر اور لکڑی کی تلوار کمر میں رسی سے باندھ کر بادشاہ اور وزیر کے ناٹک کھیل سکتا ہو۔ میں جو ایک سوچنے والا اور راہب بن گیا۔ اپنا غم غلط کرنے کے لئے میں نے کتابوں میں خود فراموشی اور تفریح ڈھونڈی کتابیں رفتہ رفتہ افیم کی طرح میری آقا بن گئیں اور ایسے دوست جنہوں نے مجھے تمام قدرتی انسانی تعلقات سے بے نیاز کر دیا۔ میں نے بی اے بہاولپور سے پاس کیا،اس وقت اپنی تنہائی اور دل کی تاریکی کی وجہ سے میں انسانوں سے ڈرنے لگ گیا تھا اور یقین کرتا تھا کہ میں دیوانگی کی سرحد پر کھڑا ہوں۔
پھر بھی ایک امید تھی۔ وہ امید بہاول نگر تھی۔ یہاں سے صرف سو میل دور دنیا کا خوبصورت ترین اور متبرک ترین شہر تھا جہا ںمیں کھویا ہوا افق پھر سے پا سکتا تھا اور اپنے بچپن کے چمکیلے دن رات کی شاید پھر تسخیر کر سکتا تھا۔ اپنے باپ کی بہاولپور میں تبدیلی کے دس سال بعد گاڑی مجھے پھر ریتلے ٹیلوں اور چلچلاتی دھوپ میں تپتے ہوئے میدانوں میں سے بہاولپور کی طرف لے جا رہی تھی، میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لئے گھر سے بھاگ رہا تھا مگر نئی زندگی میرے لئے کسی جگہ بھی بہاولنگر کے حج کے بغیر ممکن نہ تھی۔ میں دہلی اور دور دیسوں کا عازم گر میں نے فیصلہ کیا کہ راستے میں چند گھنٹوں کے لئے بہاولنگر میں ضرور اتروں گا اور اس کی گلیوں میں اپنی کھوئی ہوئی خوشی کی تلاش کروں گا۔
جب گاڑی کو کتی اور گڑگڑاتی، کوئلے کے پہچانے ہوئے انباروں، شنٹ کرتے ہوئے انجنوں، ریلوائی کے بنگلوں کے پاس سے سنسناتی ہوئی بہاولنگر جنکشن میںداخل ہوئی تو میرا دل دھڑک رہا تھا۔میرے حلق میںایک پھانس سی تھی۔ یہ میری زندگی کے متبرک ترین لمحوں میں سے ایک تھا۔
نیچے گملوں والے پلیٹ فارم پر اترنے پر مجھے ایک پرانا دوست مل گیا جسے پہچاننے میں مجھے کچھ دقت ہوئی۔ وہ اب کافی موٹا اور جسیم ہو گیا تھا اور دو ٹھوڑیاں حاصل کر چکا تھا۔ پر اسکول کے دنوں میں وہ ہماری مصنوعی جنگوں میںدشمن فوج کا نائب سردار ہوا کرتا اور میں نے ایک دفعہ اس کو چت کر کے اور اس کے سینے پر چڑھ کر لکڑی کی تلوار سے اس کی ناک کاٹنے کی کوشش کی تھی (وہ جنگ ہم نے جیتی تھی) اب وہ محکمہ مال میں گرد اور قانون گویا اس قسم کی کوئی اور چیز تھا،وہ میری مریضانہ حالت پر اظہار افسوس کرتا رہا اور پھر اس نے اصرار کیا کہ میں اس کے پاس چل کر ٹھروں اور لوگوں سے اس خیالی خوف کے باوجود دس سال کی راہبانہ زندگی کا نتیجہ تھا، میں نے اس کی دعوت کو منظور کر لیا۔
گاڑی بہاولنگر میں شام کے سات بجے پہنچی تھی اور سامنے شہر پر اندھیرا چھارہا تھا۔ میں نے پل پر ہی سے دیکھ لیا کہ ہمارے گھر کے گرد بہت سے اور مکان بن گئے ہیں اور شہر کی ہیئت بہت کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ وہ ریتلا میدان جہاں ہم کھیلا کرتے تھے اب پکے مکانوں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ہم شہر کے بازاروں میں سے گزرے اور میں نے کئی پرانے چہرے ایک لرزے کے ساتھ پہچانے۔ بازار بالکل ویسے ہی تھے صرف سڑکیں پکی ہوگئی تھیں۔
رات کو میں اپنے دوست کے ہاں رہا۔ دوسرے دن گاڑی نے آگے بارہ بجے چلنا تھا اور میں علی الصبح ہی اپنے دوست سے کسی ملاقات کرنے کا عذر کر کے اکیلا اپنے بچپن کے بہاولنگر کو کھوجنے کے لئے چل کھڑا ہوا، میں پہلے اپنے پرانے گھر کی طرف گیا اور آخر اسے ڈھونڈ نکالا۔ مگر یہ ایک مختلف گھر تھا اس میں اتنی ترمیمیں اور اضافے ہوئے تھے کہ اسے پہچانا نہیں جاتا تھا چھوٹی کچی دیوار کا نشان نہ تھا اور نہ ہی دروازے پر میونسپلٹی کی لالٹین تھی۔ مردانہ اور زنانہ اب دو الگ الگ گھر بنا دیئے گئے تھے۔ یہاں سے میں ہسپتال اور ہائی اسکول والی سڑک پر سے ہوتا ہوا ڈگی پر گیا جہاں ہم ساون کے دنوں میں بیر بوٹیاں پکڑنے اور ساونی بنانے جایا کرتے تھے۔وہاں سے شہر کا باہر سے چکر لگا کر میں مغربی طرف پر پرانے تھیٹر پر آیا جس کی چھت تب بھی نہ تھی اور اب بھی نہ تھی اور جہاں نیک پروین، شیر کی گرج عرف چنگیز خاں اور سلور کنگ جیسے شاندار کھیل ہوا کرتے تھے اب یہاں پاکباز محبت لگا ہوا تھا۔اس تھیٹر کے بعد میں نے اپنے آپ کو ایک چوڑی سڑک پر پایا جومجھے اب یادنہ تھی۔ یہ سیدھی بازار میں کہیں جا نکلتی ہے۔
میں ایک بڑے کھلے پھاٹک کے پاس سے گزرا۔ اندر ایک چبوترے پر ایک چارپائی پر سفید چادر لپٹی ہوئی ایک شکل ساکت پڑی تھی اور بہت سے لوگ جمع تھے.... یاد کا ایک مبہم تار میرے دل میںگونجا، ماضی کی پہنائیوں سے گونجیں آئیں۔ میں نے اس منظر کو پہلے کہیں دیکھا تھا۔ میرے پاﺅں پھاٹک کے باہر گم ہو کر رہ گئے۔
اندر چبوترے پر کئی لوگ جمع تھے۔ بعض رو رہے تھے۔ میت کے پاس ایک لمبا معمر سفید ریش شخص کھڑا تھا اور لوگ اس کے پاس آکر اظہار افسوس کر رہے تھے.... ہر ایک چیز مجھے آشنا سی لگی اور میں مسحور ہو کر دیکھنے لگا۔
اسی وقت میں نے اپنے سامنے ....اتنا نزدیک کہ میں اس کو بازو سے پکڑ کر اٹھا سکتا تھا۔ ایک سیب سے گالوں والا لڑکا دیکھا۔ وہ ایک سلمیٰ ستاروں سے کاڑھی ہوئی قدرے مدھی گول ٹوپی پہنے تھا۔ اس کے پاﺅں میں براﺅن اونچی ٹو والے بوٹ تھے وہ ایک موٹے فربہ چہرے والی عورت کی انگلی پکڑے، حیرت سے بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ سامنے چبوترے پر رکھی میت کی طرف دیکھ رہا پھر وہ فربہ چہرے والی عورت کی قمیض پکڑ کر اس کے ساتھ دبک گیا اور اس کی طرف نظریں اٹھا کر ایک بھاری پنجابی لہجہ میں بولا۔
"اماں! ایہہ کیہہ ہو گیا اے؟"
بوڑھی عورت اپنے ہونٹوں سے بڑبڑائی۔ "کاکا! آغا صاحب کی بیگم جو آپاں نوں
کھنڈ کھلاندی ہوندی سی نا اوہ فوت ہو گئی اے "اور پھر وہ نیچے جھکی، چھوٹے خوبصورت بچے کی ناک صاف کرنے کے لئے جو اس کے منہ تک بہ آیا تھا۔
اس کے بعد وہ فربہ عورت چھوٹے بچے کو ساتھ کھینچتی ہوئی پھاٹک میں سے اندر لے گئی۔
یہ میری زندگی کا سب سے عجیب ترین واقعہ ہے اگرچہ بہت سے اس کا یقین نہیں کریں گے۔