You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, June 22, 2011

سلیمان خطیب

سلیمان خطیب

ملک کے لاکھوں لوگ دکنی زبان بولتے ہیں۔ اس زبان کی ایک تاریخ ہے۔ اس زبان میں
بے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں۔ شعر و سخن کا بڑا ذخیرہ اس زبان میں ملتا ہے۔ بے شمار بزرگانِ دین نے اسی زبان میں اپنی تعلیمات کو عام کیا ۔
حضرت خواجہ بندہ نواز کی تصانیف نے دکنی ادب میں وقیع اضافہ کیا ہے۔
نصرتی، نشاطی ، ولی، باقرآغا اور قلی قطب شاہ وغیرہ نے دکنی زبان میں اردو شاعری کی ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اردو ادب کو اپنے جواہر پاروں سے مالا مال کیا ہے۔
سلیمان خطیب نے بھی طنزیہ و مزاحیہ شاعری دکنی زبان میں کی ہے۔
دکنی زبان کے مزاحیہ شعراء میں خطیب خاص مقام کے حامل ہیں اور ان کو بقول رشید شکیب حیدرآباد کے : چار میناروں میں ایک مینار مانا جاتا ہے۔

سلیمان خطیب سنہ 1919ء میں سابق ریاست حیدرآباد کے ضلع گلبرگہ کے ایک گاؤں معین آباد (چڈ گوپہ) میں پیدا ہوئے۔ کم عمری میں سایہ مادری و پدری سے وہ محروم ہوگئے۔
کچھ عرصہ ان کے چچا نے ان کی سرپرستی کی اور پھر وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
سلیمان خطیب نے در بدر کی ٹھو کریں کھائیں۔ سخت محنت و مزدوری کر کے انھوں نے زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج،خوش فکر، اور باغ و بہار طبعت کے مالک تھے۔

سلیمان خطیب نے دکنی زبان میں شاعری کی۔ ان کی شاعری ملک گیرشہرت کی حامل تھی۔ ان کی شاعری میں کنڑی اور تلگو کے علاوہ مرہٹی زبان کے اثرات نمایاں نظرآتے ہیں۔ سلیمان خطیب کو دکن کے گاؤں ، گاؤں پھرنے کا موقع ملا اور انہوں نے اپنی محنت و لگن سے دکنی محاورات اور تشبیہات جمع کیں جن کا انھوں نے اپنی شاعری میں برمحل استعمال کیا۔ وہ عوامی شاعر تھے ان کی شاعری میں عوامی لہجہ اور عوامی جذ بات نظر آتے ہیں۔

"خطیب کی شاعری فطرت کی عکاس ہے۔ شاعر اپنے شاعرانہ اظہار کے لئے کسی کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ جس معاشرہ، جس دیس اور رسم و رواج کے ماحول میں پل رہا ہے اسی سے استفادہ کرتا ہے۔ اسی لئے خطیب کی شاعری میں سچائی، حسن، معاشرتی مسائل اور سماجی الجھنوں کی نشاندہی ہوتی ہےعلاوہ ازیں تشبیہات و استعارات جابجا ملتے ہیں۔ یہی شاعری شاعر کو بلند مقام عطا کرتی ہے۔"
(دکنی ادب کے چار مینار : رشید شکیب)

خطیب عوامی شاعر تھے انہوں نے عوامی موضوعات پر قلم اٹھایا ہے انہوں نے اپنی ایک نظم "ایک کلرک کی بیوہ" میں کلرک کا مہینے کی آخری تاریخوں میں انتقال کر جانا اور اس بیوہ کا شوہر کی قبر پر آہ وزاری کرنا۔ ان احساسات کا اظہار شاعر نے جس انداز میں کیا ہے ملاحظہ ہو۔

ایسا مرنا بھی کیئکا مرنا جی
پھول تک میں ادھار لائی ہوں
اتا احسان مجھ پو کرنا تھا
تنخواہ لینے کے بعد مرنا تھا

موجودہ سماجی مسائل پر سلیمان خطیب نے اظہار خیال کیا ہے انہوں نے نے نا صحانہ انداز میں لڑکی کے والدین کو لڑکی کے رشتے کے تعلق سے کافی غور و فکر کے بعد قدم اٹھانے کی تلقین کرتے ہیں۔ چند اشعار جن سے ان کی فکر کی ترجمانی ہوتی ہے ملاحظہ ہوں۔

خوب سوچ سمجھ کے بچی دو
کاٹ کھانے کو سانپ آتے ہیں
روپ بھر کر کبھی فرشتوں کا
گھر بسانے کو سانپ آتے ہیں
ہم نے ممبر پہ سانپ دیکھے ہیں
ہم نے مندر کے سانپ دیکھے ہیں
کیا بتائیں کہ اونچی کرسی پر
کتے زہریلے سانپ دیکھے ہیں

آج کے معاشرے میں لڑکوں کے سرپرستوں کے لڑکی کے سرپرستوں سے مطالبات، ان پر اصرار اور خود کی جوابی فرمائشوں سے مجبوری کا ااظہار ملاحظہ ہو۔

بھار والے تو بھوت پوچھیں گے
گھر کا بچہ ہے گھر کا زیور دیو
بھوت چیزاں نکو جی تھوڑے بس
ایک بنگلہ ہزار جوڑے بس

اب لڑکے والوں کی مجبوریاں ملاحظہ ہوں۔

جوڑے لانا بھی راس نیں ہمنا
نتھ چڑھانا بھی راس نیں ہمنا
ہم ولیمہ تو کب بی دیتے نیں
کھانا وانا بھی راس نیں ہمنا
مہروتاج جتی سنت ہے
بھوت بننا تو سب حماقت ہے

اس نظم کے آخری بند عبرت و نصیحت سے پر ہیں ملاحظہ ہوں۔

جس کی بچی جوان ہوتی ہے
اس کی آفت میں جان ہوتی ہے
بوڑھے ماں باپ کے کلیجے پر
ایک بھاری چٹان ہوتی ہے
جی میں آتا ہے اپنی بچی کو
اپنے ہاتھوں سے خود ہی دفنا دیں
لال جوڑا تو دے نہیں سکتے
لال چادر میں کیوں نا دفنا دیں

خطیب نے نہ صرف دکنی زبان میں شاعری کی ہے بلکہ انہوں نے اردو میں بھی اپنی شاعری کا جادو جگایا ہے۔
سلیمان خطیب کی ںظم" لکھنوی شاعر کی دکنی بیوی" جس میں دکنی زبان کے علاوہ اردو میں بھی اشعار نظم کئے گئے ہیں ملاحظہ ہوں۔

کاں سے بیٹھا تھا نصیباں میں یہ شاعر اجڑو
کیا کلیجے کو میرے جی کو جلا دیتا ہے
باتاں باتاں میں اصل بات اڑا دیتا ہے
پیسے پوچھے تو فقط شعر سنا دیتا ہے
شاعری کرنا تجھے کون سکھا کو چھوڑے
اچھے خاصے مرے ادمی کو کھپا کے چھوڑے

لکھنوی شاعر اپنی بیوی کی دکنی زبان میں بپتا سن کر بیوی کو مناتے ہیں۔

یہ بھی انداز بیاں کتنا ہے پیارا بیگم
اسی انداز بیاں نے ہمیں مارا بیگم
تم پہ قربان سمر قند و بخارا بیگم
واہ کیا خوب مکررہو دوبارہ بیگم
باتیں کرتی ہو تو کھل جاتے ہیں غنچوں کے دہن
جیسے ظلمات میں در آتی ہے سورج کی کرن
جیسے دیوانہ پھرا کرتا ہے کوچہ کوچہ
کس پری رو کے ہوئے ہم بھی اسیرِ گیسو
قتل گا ہوں سے گزر جاتا ہوں آسانی سے
لے کے پھرتی ہے مجھے دیکھ زبانِ اردو
مرگِ اردو ہے کوئی کھیل نہیں ہے ناداں
یہ جو مر جائے گی اک شور فغاں اٹھے گا

سلیمان خطیب کا 22 اکٹوبر 1978ء کو دواخانہ عثمانیہ میں انتقال ہوا۔

ماخوذ : مزاح نگارانِ حیدرآباد ( حیدرآباد میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری آزادی کے بعد )
مصنف : ڈاکٹر سید بشیر احمد

Tuesday, June 21, 2011

سپرپاور اور ایران





بی بی سی-- 70 ویں سالگرہ پر چند نایاب تصاویر







راشد اشرف
کراچی سے



آج کے اشعار
شام فراق کچھ نہ پوچھ آئ اور آکے ٹل گئ
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئ
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں 
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
مدتیں گزریں تری یاد بھی آئ نہ ہمیں
اور ہم بھول گیۓ ہوںتجھے ایسا بھی نہیں
مرسل         حسن فرخ



Monday, June 20, 2011

محترمہ نورالعین علی






پچھلے سال کی بات ہے کہ بال بھارتی اردو پاٹھیہ پستک کے اسپیشل آفیسر خان نویدالحق اور ان کی اہلیہ خان عارفہ نویدالحق نے جب سے نورانی آپا کا ذکر کیا تھا ۔اس روز سے مجھ میں نورانی آپا ( محترمہ نورالعین علی ) سےملنے کی خواہش پیدا ہو گئی تھی ۔ مگر مصروفیت کی بناء پر ان سےملاقات نہ ہو سکی ۔مگر آج میری آرزو پوری ہو گئی ۔ جب ہم ان سے ملنے ان کے گھر گۓ ۔نورانی آپا بہت ہی ملنسار شخصیت کی مالک ہے ۔انھوں نےاپنی پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے بچپن کی بہت سی باتیں بتائی ۔ کہ کس طرح پہلی بار انھوں نے پانچ سال کی عمر میں ڈرامے راجہ ہرش چندر میں سادھو کا کردار نبھایا تھا ۔ اور ان کے کام کی تعریف کی گئ ۔ اس کے بعد انھوں نے اسکول اور کالج کے زمانے میں کئی ڈراموں میں کام بھی کیا ۔اور انھیں ڈرامے لکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔نورلعین علی کی پیدائش 27 فروری 1930ء کو امراوتی میں ہوئی ۔
محترمہ نورا
لعین علی ایسے علمی گھرانے سے تعلق رکدھتی ہیں ۔جس میں میرٹھی
تہذیب اور انسانی اقدار کی پاسداری اپنے پورے وقار اور توانائی کے ساتھ جلوہ گر رہی ہے ۔ آپ کا تعلق بچوں کے مشہور شاعر مولوی اسمعیل میرٹھی کے خاندان سے ہیں ۔ مّثالی
تہذیبی ماحول ۔ اعلی تعلیم حیرت انگیز مطالعہ ،تجزیے کی صلاحیت اور استدلال کی قوت نے ان کی شخصیت کو اعتبار کا درجہ دیا ہے ۔ان کے ڈراموں کا پہلا مجموعہ '' بہو کی تلاش ''ہے ۔انھوں نے مختلف جماعتوں کی درسی کتابوں کے کہانیاں ، مضامین ،نظمیں ،مکالمے ،ڈرامے ،سوانحی خاکے وغیرہ لکھے ۔نیز سماجی ومعاشرتی مسائل پر ڈرامے لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ان کے لکھے ہوۓ اردو ڈرامے ''سوچ لیجیے " اور ڈرامے "" کینسر ''' کو اول انعام دیا گیا اور آج بھی وہ ممبئی یونیورسٹی اور ناگپور نیورسٹی میں ایم اے کے نصاب میں شامل ہیں ۔ دوران ملازمت نورانی آپا آکاش وانی کے لۓ بھی لکھتی رہی ہیں ساٹھ سے زائد ڈرامے اور خاکے ریڈیو پر پیش کر چکی ہیں ۔ اور یہ ڈرامے اور خاکے خود ان کی اپنی آواز میں نشر کۓ جاتے تھے ۔ ان کے ڈرامے ''ہے اور کوئی راستہ ؟''اور وہ بولتے کیوں نہیں ؟'' اور ڈرامے سراب کی خصوصیت یہ ہے کہ سب کی تھیم ایک ہی ہے یعنی سب انسانی حقوق سب کے لۓ '' ان ڈراموں میں انھوں نے ایک نئ تکنیک اپنائی ہے ۔
نورانی آپا کے ڈرامے طبعزاد ہوتے ہیں ۔ان کے تمام ڈراموں میں اوریجنلٹی ہے اور ایک اہم خوبی ان کی مقصیدیت ہے انھوں نے کسی نہ
کسی سماجی ، معاشی یا معاشرتی مسئلے کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ انھیں عورتوں کے مسائل سےخصوصی دلچسپی رہی ہے وہ اصولی طور پر مساوات مرد وزن کی قائل ہیں ۔۔ سماج میں جہاں اور جب عورتوں کے حقوق غصب کۓ گۓ انھوں نے جلد ہی اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ان کا ہر ڈراما ایک جراءت مند مثالی خاتون کے تشخیص کا تعین کرنے میں سرگرداں نظر آتا ہے ۔ ان کے ڈراموں کی سب سے اہم خوبی یہ ہےکہ انھیں اسٹیج کیا جاسکتا ہے ۔یہ خوبی اردو کے بہت کم و بیش ڈراما نگاروں میں پائی جاتی ہے ۔

جشنِ مقتل تو ہم روز بپا کرتے ہیں۔۔۔

جشنِ مقتل تو ہم روز بپا کرتے ہیں۔۔۔
حضرتِ شیفتہ ہمیں گوشت کی دکان پر دیکھ تعجب میں پڑھ گئے اور کہنے لگے۔ آپکا خادم کیانام ہے اسکا عنایت، آج گوشت خریدنے نہیں آیا۔ کیا آخر کار دبئی چلا گیا۔ ہم نے کہا حضور آپ بھی اوروں کی طرح اکثرشرافت کو عنایت سمجھ لیتے ہیں۔ شرافت چھٹی گیا ہے اور دوسرا خادم جو ملا ہے اتفاقاً اسکا نام عنایت ہی ہے۔ فرمایا حضور اس شہرِ ستمگر میں آپ واحد گوشت خور ہیں جو شرافت اور عنایت سے گوشت کھارہے ہیں ورنہ اب بمبئی میں کہاں عنایت اور کہاں شرافت۔ جب سے ہمارے سبزی خور احباب کٹر گوشت خور ہوگئے بس اب قصابوں کے پاس چھچھڑے ہی باقی بچتے ہیں۔ وہ کبھی کتے بلیوں کو ڈال دیا کرتے تھے آج کل اسے بھی تول کر فروخت کرتے ہیں۔ ہم نے کہا ویسے ہم اور آپ کیا دنیا کے سارے اہلِ ایمان ہی گوشت خوری کی نعمت سے سرفراز ہیں، چاہے کوئی لاکھ کس مپرسی کے دور دیکھے لیکن بقول شاعر۔ منعم بہ کوہ و دشت و بیاباں غریب نیست۔شاید اسی لیے اکثر اہلِ ایمان کے گھر کے درودیوار پر یہ شہادت لکھی ملے گی کہ۔ ،ھذا من فضلِ ربی،۔ لیکن تعلیم بہرحال کوٹہ سے یا خیرات سےہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
ہم نے کہا پچھلے ہفتہ تجارت کی غرض سے دہلی گئے تھے۔ بمبئی کی طرح کچھ یہی حال ہے دہلی کا ۔فرمایا، دہلی جب تک دلّی رہی دل لگی رہی، اسکے بعد سے وہ دہل رہی ہے۔ہمنےکہا ہمارے مطالعہ میں بھی آیا تھا ۔،جیولوجسٹ،کا کہنا ہے دہلی زلزلوں کی زد میں رہنے والے بڑے شہروں کی فہرست میں ہے۔ فرمایا، لگتا ہے یہ کوئی انگریز پنڈت ہے اسلئے اسکی پیشنگوئی کو مستند مانا جائے گا ورنہ مقامی پنڈت تو تب سے کہہ رہے ہیں جب سے پنڈت جی نے کرسی سنبھالی تھی۔
قصاب نے آواز لگائی اور شیفتہ سے کہا جناب لیجیےآپکا ایک پاؤ خالص، بغیر ہڈی کا، دیکھ لیجیے ہمیشہ کی طرح صاف و شفاف۔ شیفتہ نے ہتھیلی میں پیکٹ کو تولا، رومال سے ہونٹوں کی لالی پونچھی اور غصے سے کہا۔ ہمیشہ کی طرح دس بیس گرام ہی لگے ہے۔ ایک پاؤ کہاں۔ پھر پان کی پچکاری سے دروازوں کو دو آتشہ کیا اور پیسوں کا پیکٹ بڑھا دیا۔ قصاب نے کہا، حضور اب کیا دام بھی تول کے لینا پڑے گا۔ آپ پینشن سے جمع شدہ پانچ دس روپوں کے نوٹ لے آتے ہو اور ساتھ کچھ سکّے بھی۔ فرمایا، تول کر دیکھ لیں ملک میں معاشی بد حالی کا پتہ لگ جائے گا۔ قصاب نے کہا آپ کو گوشت بھی ،ساقِ بلوریں، کا چاہیے۔ کبھی ،عارضِ سیمیں، کا بھی کھائیے نا۔ فرمایا ہمیں تو لگے ہے تم پہلے کبھی شاعر رہےہونگے۔ قصاب نے بھی پچکاری ماری اور سرخ تبسسم کے ساتھ گویا ہوا۔ حضور خوب پہچانا آپ نے ۔ ہم نے تعجب سے دونوں کی طر ف دیکھکر سوچا۔ چاک گریبانی میں اب رکّھا کیا ہے ۔ایک دیوانے کی پرکھ دوسرے دیوانے کو خوب ہوتی ہے۔
کہا، جناب پہلے شاعر تھا پھر فلموں میں گانے لکھتا تھا۔ مشہور گانے لکھیں ہیں میں نے۔ ہم نے فوراً اپنا مومبائیل بند کیا کہ فلموں کا ذکر جب بھی چھڑا کوئی نہ کوئی راز اور راگ ضرور چھیڑا گیا۔ ہم دونوں ہمہ تن گوش ہوئے اور قصاب ہمہ تن گوشت۔ شیفتہ نے پوچھا پھر یہاں کون آپ کو بیٹھا گیا۔ کہا، حضور کیا کریں اب فلموں میں اٹھائی گیر، پاکٹ مار اور لفنگے بھی گانے لکھنے لگے ہیں۔ ہماری ساری برادری فلموں میں تھی۔ کچھ لوگ تو بہت امیر ہوگئے اور پاک و ہند کے سیاست دانوں کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہوئے۔ کچھ پابند سلاسل ہوئے۔ میری طرح کچھ صبح کے بھولے دیر رات گئے لٹے پٹےگھر لوٹے ۔ شیفتہ نہ پوچھا تمہارا کونسا گانا مشہور ہوا۔ کہا وہی جو میرا ابا گنگنایا کرتا تھا بکرے ذبح کرتے ہوئے۔ اے میری زہرہ جبیں۔۔۔ تجھ کو قربان۔۔ ہم نے کہا بس رہنے دیں۔ اگر آپ شاعری کرتے تھے تو کوئی اچھا سا شعر ہی سنادیں۔ کہا ملاحظہ کیجیے۔ ہمیں قصاب کا یہ لحاظ کرنا بڑا اچھا لگا۔ کہا،
جشنِ مقتل تو ہم روز بپا کرتے ہیں۔۔۔پابہ جولاں اٹھا لاتے ہیں مذبح میں۔ ہم نے کہا یہ تو تمہارا اپنا پس منظر ہے۔ کوئی موسم کے اور شیفتہ کے مزاج کے مطابق سنائیے۔ کہا حضور عرض کرتا ہوں۔ لیکن شیفتہ حضور اپنے دل پر نہ لےلیں۔
کہا،بڑے ابّا تجھے ہوا کیا ہے۔ تیرے بٹوے میں اب بچا کیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ شیفتہ ،پان بگولہ، ہوگئے اور پیک سے لپٹے سرخ لفظوں سےیوں گویا ہوئے۔گوشت میں سرقہ کرنا تو تمہاری خصلت تھی اب شعر و ادب میں بھی سرقہ۔ اس نے کہا، جناب ہمارے اپنے شعر ہیں اور حضرتِ زخمی سے باقاعدہ اصلاح لی ہے۔ فرمایا، اسی لیے تمہارے اشعار زخم خوردہ ہیں۔ اور اس تخلص کا کوئی شاعر ہم نے نہیں سنا آج تک۔ کہا حضور ،زخمی، تو ان کا نام ہے۔ تخلص تو انھوں نے ،بیل، رکھ چھوڑا ہے۔ فرمایا، رکھ چھوڑا ہے تو پھر کیا ہوا اس بیل کا۔ کہیں اسے لیبیا تو نہیں بھیج دیایا پا بجولاں مذبح میں۔ اور یہ گوشت اسی کا تو نہیں۔ کہا، حضور توبہ کیجیے وہ بیچارے مشاعروں میں اکثر غزل ممیانے ہمارا مطلب ہے فرمانے کے بعد لہو لہان ہو جاتے تھے۔ فرمایا، کیا انہیں شورشِ گریہ سے ٹی بی ہو گئی تھی۔ کہا نہیں مشاعرے میں لوگ یہ کہہ کر پتھر مارا کرتے تھے کہ زخمی کو اسمِ با مسمٰی ہونا چاہیے۔ چند سال یونہی زخم زخم رہے پھر آگرہ چلے گئے۔ فرمایا، ونہیں لوٹے جہاں کی مٹی تھی۔ کہا نہیں حضور وہ تھے تو وہاں ں ں۔۔۔ کیا کہتے ہیں لاہور کے لیکن مٹی راس نہیں آئی۔ آگرہ تو وہ جو بڑا پاگل خانہ ہیں نا۔۔۔ فرمایا کمبخت تمہاری اصلاح کرنے والے کا یہی حال ہونا تھا۔ اور وہاں ں ں۔۔۔ کو اتنا لمبا کرنے کی تمہیں عادت ہے۔
شیفتہ نے ایک نظر ہماری طرف ڈالی پھر گویا ہوئے۔ یہ جب جب یہاں اور وہاں ں ں کے قافیہ ملاتا ہے بس سمجھیے سرقہ لازم ہے اور لخت لخت یہاں وہاں ہو جاتے ہیں۔ کہا حضور زمین ہی مستعار لی ہے جو ہر شاعر کرتا ہے، کسی کے فکر کا آسماں تو نہیں لیا۔ وہ تو اپنا ہے۔ فرمایا نقاد بھی ہو۔ کہا میری کیا مجال۔ ویسے آپ ہی کے علاقے کے چند تنقید نگار میرے گاہک ہیں اور ،بوٹی، سے شوق فرماتے ہیں اور ساق و عارض کا ذوق و شوق بھی ہے انہیں۔ فرمایایہ قصاب قابلِ اعتماد نہیں ہے ۔
وہ ہمارے گوشت کی مہارت سے بوٹی بوٹی کرتا ہوا شیفتہ سے کہنے لگا حضور آپ ہمیشہ مجھے استاد بلایا کرتے تھے آج کل قصاب بلاتے ہو۔ کوئی اچھا سا لقب استعمال کیجیے ۔ عزت دار ہوں دو دو فلیٹوں اور کاروں کا مالک ہوں۔ شیفتہ نے فرمایا جلدی ہاتھ چلاو۔۔۔ اور دھیان سے۔۔ ہماری نظر ہے تم پر۔ تمہاری طرح کی کمائی تو اکثرسیاستداں بھی کرلیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے تم بکرا گراتے ہو اور وہ انسان۔ مالک انکو نیست و نا بود کرے۔ کہا حضور کیوں میرے پیٹ پر لات مارتے ہو۔ جتنا گوشت آپ نے زندگی بھر نہیں خریدا ایک سیاستداں روزانہ خریدتا ہے۔ فرمایا کیا اپنے حلقہ کے ووٹرز کی روز دعوت کرتاہے۔ کہا نہیں حضور اسے کتے پالنے کا شوق ہے۔ اس کا ذاتی ڈاکٹر بھی ہمیں سے گوشت خریدتا ہے۔ بتا رہا تھا کہ اس سیاست داں کے نصیب میں گوشت کہاں۔ لقوہ زدہ ہے۔ سوپ بھی پلاسٹک کی نلی سے پیتا ہے۔ شیفتہ نے کہا تمہارے ہاں جب اتنے عزت دار گوشت خریدنے آتے ہیں تو اس ٹوٹے ہوئے ڈربہ پر بیٹھ کر گوشت بیچنے کی کیا تک ہے۔ کہا حضور آپ سے کیا چھپائیں، اب دو دو شو روم ہیں ہمارے وہ بھی نام چین ،مالز، میں لیکن ابا کہا کرتے تھے بیٹا دیندار اور شرفاء کی صحبت میں برکت ہے وہ چاہے دکانداری سے حاصل ہو یا مکتب سے ۔ فرمایاسبحان اللہ کیا لوگ تھے۔ ہم نے سوچا صرف پان کی پیک اور کثافت نہ ہو تو برکت ہی برکت ہے۔
ہم نے شیفتہ سے کہا حضور آپکو تاخیر ہو رہی ہوگی آپ چلیے ہمیں تو اب اپنا جگر لخت لخت ہونے تک یہاں رکنا ہوگا۔ فرمایا۔ صحبتِ یار عزیز تر است۔ مقتل نہ سہی مذبح میں تو ساتھ رک سکتے ہیں۔ہماری بغل میں دبے اخباروں کے طومار پر ایک نظر ڈالی اور پھر گویا ہوئے۔ حضور آج تعطیل کے دن اتنے سارے اخباروں کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے کہا دفتر میں صرف سرخیوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اور اب تو صحافت کی مجبوریاں شرفاء کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ گھر میں روزانہ صرف اردو اور انگریزی کے دو ایسے اخبار لائے جاتے ہیں جو چار صضحات پرمشتمل ہوتے ہیں اور جو اشتہارات سے پاک ہوتے ہیں۔ والدین تو اپنے وقت میں صبح اخبار آتے ہی قطع و برید کر اخباروں کو غسل دے دیا کرتے تھے اور پھر پڑھکر گھر کے دیگر افراد کے ہات آتا تھا۔ ایک آدھ صفحہ ہمیں غائب ملتاتھا۔ یہی روش پر ہم نے بھی کاربند رہنے کی کوشش کی تھی تو پتہ چلا قطع و برید کے بعد ایک آدھ صفحہ ہی باقی بچتا ہے۔ اکثر صفحات عریاں اشتہارات کے ہی نکلتے اور پھر خادم انکا استعمال شیشہ صاف کرنے میں لیتے یا ردی کی نذر کردیتے۔ روز روز قطع و برید کرنے وقت کہاں ہے اب۔ جو اخبار و صحافت کبھی ذہن کے جالوں کی صفائی اور تفکرات کی دھند صاف کردیا کرتے تھے اب ان سے شیشے صاف ہوتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو ان اخبارات کی خبروں سے دھند بڑھ جاتی ہے اور اس پر طرا ٹی وی صحافت۔ اکثر یہ معاملہ ہوتاہے کہ۔
نظریں ہیں اخبار پہ لیکن کان لگے دروازے پر۔۔۔ہونی ہے کچھ انہونی، ٹی وی میں کوئی بول رہا ہے۔
لفظوں کا چارہ ہے تھوڑا، سوچ کی ہے بھوک بڑی۔۔۔ابھی سلجھا دوں یہ گتھی، قلم ہمارا بول رہا ہے۔
بابری مسجد کے سابقہ عدالتی فیصلے پر یہی عالم تھا اور مآل آخر انہونی ہی ہوئی تھی۔ فرمایا۔ اب صحافت بھی اشتہاروں کی طرح ہزاروں اقسام میں بٹ گئی ہے اور اب یہ علم وفکر کی تیغ کو دھار کرنے کا آلہ نہیں رہی۔ کہیں زرد، زعفرانی تو ارغوانی صحافت۔ کہیں مہم اور تفریح سے شرابور تو کہیں موسیقی اور اشتہار کی عریانیت سے مخمور۔ موسماتی تو کہیں، سیاسی، معاشی، معاشرتی، داخلی اور خارجی۔ صحافت نہ ہوئی بغاوت ہوئی۔
شیفتہ نے فرمایا۔ حضور اردو صحافت اور ادبیات تو اب ہفتہ واری مجلات اور ماہناموں تک ہی محدود ہوگئیں ہیں۔آبائی پیشہ سے منسلک قصابوں نائیوں اور پھل فروشوں کے یہاں ٹکسالی اردو کے رنگ اور لہجہ کی کھنک ملتی ہے۔ خاصکر جنکا تعلق دہلی یوپی بہار اور قرب وجوار سے ہے۔ یہ اردو ثقافت کے آئینہ دار ہیں۔ ورنہ تو اردو کا فروغ عموماً گدی نشیں ادباء، شعراء اور نقادوں کی آپسی چپقلش کا محتاج رہا ہے۔ اکثر لوگ اب اردو کہاں ،ار۔دی، یا ،ار۔دیزی، بولتے ہیں۔ سرزمین ھند میں تو اردو تیراکی کر لیتی ہے اور ڈوبنے سے بچی رہتی ہے۔ مگرمچھوں اور شارک سے خود کو بچائے رکھنے کا فن جانتی ہے کیونکہ اسی بحرِ ظلمات میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہے۔ کسی بھی قسم کی امداد اور سہارے کو اردو سے جوڑنا اسکی مشاقی کی تو ہین ہے۔ بلکہ کئی ہیں جنکی کشتیوں کو اسی نے پار لگایا۔ لیکن دکھ تو تب ہوتا ہے جب سر زمینِ پاکستان پر جہاں اسے ڈولی میں بیٹھا کر بہت چاؤ سے لے جایا گیا تھا وہ مقام نہیں ملا۔ فرمایا، آج کا اخبار آپکے ہاتھوں میں ہے دیکھ لیجیے شہزاد صاحب کا مضمون۔ اردو کو دفتری زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی دیگر درجات کے ساتھ التواء میں پڑگیا۔ تیراکی تو وہاں بھی کرتی ہے کہ یہ اسکی فطرت و شان ہے لیکن اہلِ اردو کاخواب تھا کہ کم از کم یہ وہاں ،جل کی رانی، بنکر راج کرے گی۔
ہم نےدکاندار سے کہا جناب ہمیں جانا ہے زرا جلدی کیجیے۔ کہا، حضور گھر بھجوا دوں گا آپ جائیے۔ شیفتہ نے فوراً نا کردی اور فرمایا۔ بلکل نہیں ہماری آنکھ کے سامنے جب ایک پاؤ دس بیس گرام ہو جاتا ہے تو آپ سوچیے گھر پر کیا پہنچتا ہوگا۔ ہمارے ساتھ ایک بار دھوکہ ہو چکا ہے۔ جو گوشت گھر بھیجا تھا وہ تودھونے میں ہی گھل گیا۔کہا، کیا آپ واشنگ مشین میں تو نہیں دھوتے ہو۔ یا کوئی معجون بناتے ہو۔ کوئی نسخہء کیمیا ہے تو بتائیے۔ ویسے جب تک میں ایک آدھ کلو گوشت نہ کھالوں حسرت نہیں نکلتی ۔ شیفتہ پھر ،پان بگولہ، ہوئے اور یوں گویا ہوئے۔ نکلے گی، ضرور حسرت نکلے گی جب سرقہ کے مال کی طرح سب کچھ باہر نکلے گا۔ اس لقوہ زدہ سیاستداں کو ذہن میں رکھنا، اس کا وہ حال تو خون پی کر ہوا تھا تمہارا گوشت کھا کر کیا ہوسکتا ہے سوچ لو۔ قصاب نے اپنے تخت پر بیٹھے بیٹھے دور نگاہ دوڑائی اور شیفتہ سے کہا حضور زرا جگہ دیجیے مولانا صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ہفتہ واری فاتحہ کا وقت ہو چلا ہے۔ فرمایا سب کچھ چھوٹا بس فا تحہ نہیں چھوٹی۔ ٹھیک ہے ہم بھی اپنے ماموں اور خالو کی پڑھ لیں گے۔ کمبخت مٹھائی کی دکان تو اب سب کہانیوں کے جنات لے اڑے ۔
ہم نے دام ادا کیے اور جانے کے لیے ہم دونوں نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ دکاندار زور سے پکار اٹھا۔ زنبیییل۔۔۔ شیفتہ نے کہا حضور آپ اس زنبیل میں کچھ گوشت کا حصہ ڈال دیں، ہم نے اگر کچھ ڈالا تو ہات ملتے گھر جانا پڑیگا۔ ہم نے مٹھی بھر گوشت زنبیل میں ڈال دیا اور استفہامیہ نظروں سے شیفتہ کو دیکھکر قدم بڑھایا۔ شیفتہ نے چلتے چلتے فرمایا حضور اس زنبیل سے مسجد کے خداموں کی ہفتہ وار دعوتِ طعام کی جاتی ہے۔ ہم نے کہا اس قوم کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت اور محبتوں کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن اللہ کے محبوب بندوں کو زنبیل اور خیرات کی محتاج بنا کر رکھتی ہے۔ اور پھر سیاق وسباق کو سمجھے بغیر کہتی ہے۔ ھٰذا من فضلِ ربی۔فرمایا، حضور سب نظر اور نظریہ کا اختلاف ہے اور کچھ نہیں۔ ہم نے خدا حافظ کہا اور یہ سوچتے ہوئے گھر پہنچے کہ ہم میں سے اکثر ،پیراڈائم شفٹ، کے شکار ہیں اور بزم میں اسکی مثال دیکھنے کو مل جاتی ہے۔

پھانسی کا پھندہ انتخابی نشان کے طور پر


ترکی کے تازہ انتخابات ایک تجزیہ

حافظ محمد ادریس

ترکی میں 1925ءمیں مغربی سازشوں کے نتیجے میں مصطفیٰ کمال نے جب خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹی اور پارلیمان میں سیکولر دستور کا مسودہ پیش کیا تو زائرین و مہمانان کی گیلری سے ایک اکلوتی آواز بلند ہوئی کہ تم لوگ ملک کا قبلہ تبدیل کر رہے ہو، ترک عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ اس کے جواب میں طاقتور لادین مافیا کے کرتا دھرتا غصے سے لال پیلے ہوگئے اور بیک زبان کہا کہ ترکی کا دستور اب سیکولر ہوگا اور یہاں سیکولرسٹوں ہی کو اقتدار کا حق ہوگا۔ حق کی اکلوتی صدا ترکی کے مرد درویش بدیع الزمان سعید نورسی کی تھی۔ مادہ پرستوں نے سال ہا سال اس صدائے حق کا خوب مذاق اڑایا اور اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا۔ سعید نورسی نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ جیل میں گزارا۔ پچھلی صدی میں 50 کی دہائی میں عدنان میندریس برسر اقتدار آیا تو اس نے سیکولرازم سے دین کی طرف پیش قدمی کے لیے کچھ اقدامات کیے مگر بڑی احتیاط کے ساتھ۔ اس کے نتیجے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ نورسی کی آواز دیوانے کا خواب نہیں حقیقت کا روپ دھار رہی ہے مگر فوجی جرنیلوں نے اپنی لا دینیت کا ثبوت دیتے ہوئے فی الفور حرکت کی اور ترکی کا ایک قیمتی سپوت عدنان پھانسی کے پھندے سے لٹکا دیا گیا۔ ترکی میں لا دینیت اور اسلام کی کشمکش جاری رہی مگر عجیب بات یہ ہے کہ سیکولر سٹ تو ترکی دستور کی دی گئی آزادی کے مطابق کھل کر اپنا پروپیگنڈہ کرتے رہے ،جبکہ اسلام پسند قوتیں دستوری پابندیوں کی وجہ سے مذہب اور دین کا نام کھلم کھلا استعمال کرنے سے قاصر رہیں۔ اس جکڑ بندی کی بدولت انھوں نے علامات اور اپنے کردار کو کیش کرایا۔ فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کے علاوہ میڈیا بھی لادینیت کا علمبردار تھا۔ پھر مغربی قوتوں کی سرپرستی بھی اس مضبوط گروہ کو حاصل تھی۔ ان حالات میں پروفیسر انجینئر نجم الدین اربکان ؒ میدان میں اترے اور سچی بات یہ ہے کہ اپنی معجز نماشخصیت اور اعلیٰ کردار کی بدولت مشکل گھاٹیوں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے اسلامائزیشن کے کام کو کافی حد تک آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگئے۔ رائے عامہ کو سیکولر عناصر کس طرح اپنے حق میں استعمال کرتے تھی، اس کی یہ مثال بہت دلچسپ ہے کہ عدنان میندریس کی پھانسی کے بعد اس کی مقبولیت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے سلیمان دیمرل نے عام انتخابات میں پھانسی کا پھندہ انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا اور اسے ملکی نظام نے اس کی اجازت بھی دے دی۔ اس کے نتیجے میں وہ انتخابات جیت گیا۔ اسلام پسند قوتوں نے ترکی میں کمال صبر و ہمت اور عزم و استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا اور لا دین نظام میں بھی اپنی کامیاب حکمتِ عملی اور عوامی تائید کے ساتھ ووٹ کے ذریعے ایوانِ اقتدار تک پہنچنے میں کئی بار کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی سب سے پہلے نجم الدین اربکان مرحوم نے حاصل کی تھی۔ بعد میں انھی کے تربیت یافتہ شاگردوں نے رجب طیب ایردوغان کی قیادت میں زیادہ قوت اور اپنی پارٹی کی اکثریت کے بل بوتے پر یہ ریکارڈ قائم رکھا۔ یہ موضوع اپنی جگہ اہم بھی ہے اور باعث افسوس بھی کہ اربکان صاحب کی جمعیت حصوں میں بٹ گئی اور انھیں موجودہ حکمران اسلامی گروپ سے شدید قسم کی شکایات بھی تھیں مگر یہ امر بہرحال خوش آیند ہے کہ رجب طیب ایردوغان اور ان کے تمام ساتھی اسی فکر کو ایک مختلف اور نسبتاً زیادہ محتاط انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں جس کی آبیاری اربکان مرحوم نے کی تھی۔ اربکان صاحب کی اپنی باقی ماندہ پارٹی پھر 2حصوں میں بٹ گئی ہے اور اپنے صاف ستھرے اور مثبت عکس کے باوجود عام ووٹر (جوان سے محبت بھی کرتا ہے اور انھیں کامیاب دیکھنے کا متمنی بھی ہی) کا ووٹ حاصل نہ کرسکی۔ اس کی وجہ ایک ہی ہے کہ ان کے ووٹرز نے سوچا، ان کے حق میں ووٹ استعمال کرنے سے انھیں بڑی کامیابی تو نہ مل سکے گی البتہ اسلامی خیالات کی حامل جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، سیکولر جماعت پیپلز ریپبلکن سے مات کھا جائے گی۔ چنانچہ یہ اسلامی گروپ 10فیصد کا ہدف بھی پورا نہ کرسکے۔ ایسا ہی تجربہ پاکستان میں جماعت اسلامی کو بھی بارہا ہوا ہے۔ گذشتہ اتوار 12 جون 2011ءکو ترکی میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں۔ ان کے مطابق حکمران پارٹی کا ووٹ بنک بھی بڑھا ہے اور نشستیں بھی، تاہم سیاسی تجزیہ نگار جن توقعات کا اظہار کر رہے تھی، وہ پوری نہ ہوسکیں۔ عام خیال یہ تھا کہ اردگان دو تہائی نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور ان کے لیے سیکولر دستور کو تبدیل کرناممکن ہوجائے گا۔ وہ شاندار کامیابی کے باوجود اس مرتبہ بھی دو تہائی تک نہیں پہنچ پائے۔ ان کو 49.9 یعنی تقریباً نصف ووٹ حاصل ہوئے ہیں اور ان کی نشستیں 550کے ہاوس میں متناسب نمائندگی کے اصول پر 367 ہیں۔ ایک آدھ سیٹ حتمی نتائج میں بڑھ سکتی ہے۔ ان کے مد مقابل مصطفیٰ کمال کی وارث پارٹی پیپلز ریپبلکن کو 25.9 یعنی تقریباً 26 فیصد ووٹ ملے ہیں اور 135 نشستیں ان کے حصے میں آئی ہیں۔ دیگر پارٹیوں میں سے صرف ایک پارٹی ہی 10 فیصد ووٹوں کا دستوری ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے جبکہ باقی کوئی سیاسی جماعت یہ حد عبور نہیں کرسکی۔ یہ پارٹی نیشنل موومنٹ کے نام سے میدانِ عمل میں ہے اور اس کے ووٹوں کا تناسب 13 فیصد اور نشستیں 53 ہیں۔ آزاد ارکان بالخصوص کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والی علاقائی پارٹیوں کے ارکان نے اپنی آزاد حیثیت میں اپنے علاقوں میں انتخاب لڑا اور ان میں سے 36ارکان کامیاب ہوئے ہیں۔ ان کے مجموعی ووٹ 6.6 فیصد بنتے ہیں۔ جو پارٹیاں 10فیصد سے نیچے رہ جائیں ان کے ووٹ اس ہدف کوعبور کرنے والی پارٹیوں کے درمیان ان کے ووٹوں کے تناسب سے تقسیم ہوجاتے ہیں اور ان کی نشستوں میں اس کے مطابق اضافہ ہوجاتا ہے۔ 550 کے ہاوس میں دستور تبدیل کرنے کے لیے 2 تہائی یعنی 367 ارکان ضروری ہیں جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 276 ارکان درکار ہوتے ہیں۔ اب حکمران پارٹی 326 نشستوں کے ساتھ کسی قسم کی دقت کے بغیر حکومت سازی کا عمل مکمل کرسکتی ہے۔ اردگان صاحب کا تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننا بھی ایک ریکارڈ ہے۔ ان سے قبل کئی مرتبہ معلق پارلیمان وجود میں آتی رہی اور ہر مرتبہ مخلوط حکومتیں بنتی رہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اہم ترین اضلاع میں سے 65 میں اردوگان نے کامیابی حاصل کی ہے اور بالخصوص یہ ایک بڑی پیش رفت ہے کہ اول سے آخر تک پیپلز پارٹی روایتی طور پر جن خطوں میں ہمیشہ جیتتی رہی ہی، اس مرتبہ ان میں سے انطالیا، ہاتائی، مرسین اور جند قلعہ کے علاقوں میں اردگان کی جماعت نے اس پارٹی کو شکست فاش دی ہے۔ اس سے حکمران پارٹی اور اس کی قیادت کی مقبولیت اور پیش قدمی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ اردگان کی کامیابی کی بڑی وجوہات میں سے اولین ان کی شفافیت اور مجموعی طور پر ملک کی اقتصادی صورت حال کی بہتری ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے برسر اقتدار آنے کے وقت ترکی معاشی زوال کا شکار تھا۔ فی کس آمدنی کا گراف 6700 ڈالر سالانہ پر تھا جو آج 10075ڈالر فی کس پر ہے۔ عظیم بات یہ ہے کہ حکومتی اداروں کے اخراجات بڑھانے کی بجائے کم کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ حکمران جماعت کا امیج شرافت و دیانت اور غیر جانبداری بھی ہے۔ ساتھ ہی ان کو اسلام پسند اور قدامت پرست بھی کہا جاتا ہے مگر اب یہ گالی نہیں، ایک اعزاز سمجھا جانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ مسلسل کئی سالوں سے عالمی صہیونی لابی اردگان کی کردار کشی میں مصروف عمل ہے مگر اس سیاستدان کے کارنامے ان کی طاقتور اور منہ زور ایجنسیوں کے ہر منصوبے کو ناکام کرنے میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ ترک حکومت نے گزشتہ سال صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ایک بحری بیڑہ روانہ کیا تھا جس پر محصورین غزہ کے لیے ادویات و خوراک کی اشیا تھیں اور یہ مکمل طور پر غیر مسلح تھا۔ اس پر ترکوں کے علاوہ کم و بیش دنیا کے ہر خطے کے مسلمان و غیر مسلم رضا کار یکساں ذوق و شوق کے ساتھ انسانی ہمدردی کے تحت شریکِ کارواں تھے۔ اسرائیل نے اس فلوٹیلا پر حملہ کرکے نو افراد کو قتل اور بیسیوں کو زخمی کر دیا تھا۔ اس سال بھی ترک حکومت نے وزیر خارجہ احمد داود او غلوکی سربراہی میں ایک بیڑہ غزہ روانہ کرنے کے لیے تیاری کی تھی۔ گزشتہ سال کی یاد میں اسے 31 مئی کو روانہ ہونا تھا مگر ترکی کے عام انتخابات کے پیش نظر ترکی حکومت نے اسے انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا کہ کہیں اسے الیکشن سٹنٹ نہ سمجھا جائی، اسرائیل نے اس انسانی ہمدردی کے عمل کو تخریب کاری قرار دیا ہے اور اردگان کی کامیابی کو مستقبل کے لیے شگونِ بد سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ کرے اسرائیل کے لیے یہ فی الحقیقت شگونِ بدہی ثابت ہو اور عالمِ اسلام بالخصوص مظلوم فلسطینیوں کے حق میں باعثِ خیر و برکت بن جائے۔

منیر نیازی


Sunday, June 19, 2011

فورتھ ڈائمینیشن-محمد خالد اختر


خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے

مسٹر آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے جس کی رو سے لمبائی چوڑائی اور گہرائی کے علاوہ ایک چوتھی بعد (ڈائمینشن کا اُردو ترجمہ بعد ہے) "وقت" کی بھی ہے۔ جدید علم ریاضیات کے سارے تشکل ہی کو بدل دیا ہے۔ مسٹر آئن سٹائن اور معدودے چند دوسرے ریاضی دانوں کے سوا بہت کم لوگ اس نظریہ کی ماہیت کو سمجھ سکنے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اگر آئن سٹائن ایک سنجیدہ اور مسلمہ شہرت کا مالک نہ ہوتا تو ممکن ہے اس نظریہ کو اس کا ایک مذاق تصور کیا جاتا، ایک جدت اور لوگوں کی نظروں میں آنے کے لئے ایک چونکا دینے والا ڈھکونسلا۔ میں نے اس نظریہ کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہیں کی، لیکن وقت کے چوتھی بعد ہونے کا خیال مجھے بے حد پر کشش اور عجیب لگا ہے اس نظریہ میں فلسفہ اور ریاضی کا امتزاج نظر آتا ہے جو ظاہراً ناممکن ہے۔ کیونکہ فلسفہ اور ریاضی دو متضاد علوم ہیںصرف آئن سٹائن ہی جو ایک ماہر ریاضیات ہونے کے ساتھ ایک گہرا فلسفی بھی ہے ایسے خوبصورت اور حیران کن نظریہ کے متعلق سوچ سکتا اور اسے ہندسوں اور مساویوں سے ثابت کر سکتا تھا۔مجھے یہ معلوم نہیں کہ آیا دیوتاﺅں اور ملکوتی وجودوں کو اپنے آسمانی مقاموں میں بھی اعدادوشمار رکھنے کے لئے ریاضی کی ضرورت پڑتی ہے اگر ان کو بھی ریاضی سے کام لینا پڑتا ہے تو آئن سٹائن کی ایجاد کردہ ریاضی ہوگی۔ جس میں وقت ضرور ایک چوتھی بعد ہوگا۔ اس شاعر ریاضی دان نے فلسفہ اور ریاضی کو یکجا کر کے ثابت کر دیا ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں ایک جینئنیس ہے۔





ایک مشہور جدید انگریزی ڈرامہ نگار نے اپنے کئی ڈراموں میں اس نظریہ کو بطور ایک فلسفہ اور ایک مرکزی خیال کے استعمال کیا ہے اور نتائج پرکشش اور عجیب و غریب تھے آدمی اب وقت کو ایک نظریہ سے دیکھنے لگ گئے ہیں۔مختصراً اس انگریزی ڈرامہ نگار نے (اس کا نام پریسٹلے ہے) آئن سٹائن کے نظریہ کی فلسفیانہ اصطلاح میں جو تشریح پیش کی ہے وہ یہ ہے کہ آدمی کبھی نہیں بدلتا۔ صرف چوتھی بعد وقت، بدلتی ہے اور اس کے رابع کے بدلنے سے آدمی بظاہر مختلف نظر آتا ہے اس وقت سے جب کہ وہ پہلے پہل اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے، اس وقت سے جب کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں محض ایک جنین کی شکل میں ہوتا ہے اس وقت سے جب وہ اپنے باپ کے پٹھوں میں ایک تند سپرم (Sperm) ہوتا ہے اور اس سے بھی پہلے اپنے لاتعداد موروثوں کے خون میں، وہ وہی ایک ہی آدمی ہوتا ہے جو وہ اب ہے جو وہ دس ہزار سال بعد ہوگا۔ میرا خیال ہے ہم سب نے کبھی نہ کبھی یہ ضرور محسوس کیا ہوگا کہ ہم ہی "پہلی زندگی" ہیں، ہم جاودانی اور مدام ہیں اور یہ کہ ہم ازل کی تاریک کھوﺅں تک زندہ رہیں گے۔ مذہب کے سب بڑے بانیوں نے اسے ضرور محسوس کیا ہوگا۔ ورنہ ہر مذہب میں روحوں کی ازلی تخلیق، انسان کی زندگی کی ابدیت اور کسی نہ کسی طریق پر موت کے بعد وجود میں ہونے کا تصور نہ پیش کیا جاتا۔ مذہب مذاہب کو چھوڑ کر افریقہ کے حبشی کا (ہوڈو ازم) بھی اس کے سامنے اگرچہ ایک مختلف طریقہ پر حیات بعد موت اور سزا و جزا کا یہی تخیل رکھتا ہے اور یہ امر کہ آدمی کی ابدیت ہر مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے، محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔




اس احساس کو لکھے ہوئے لفظ کی قید میں لایا جاسکتا ہے، اسے صرف کسی الہامی لمحے میں اچانک محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی احساس نے ہندوﺅں کے مسئلہ تناسخ کو جنم دیا اور یہی ایک مسلمان کے سزا و جزا کے عقیدہ کا موجب ہے اس وقت کی ابدیت کے عظیم پس منظر کے سامنے جانچنے پر آدمی کی پیدائش اور موت کی ازلی زندگی میں د و بالکل غیر اہم اور معمولی واقعے نظر آتے ہیں اور صرف اس کے دنیاوی سفر میں آغاز اور اختتام کے دو سنگ میل قرار پاتے ہیں۔




بعض دفعہ یہ آگے بڑھتا ہوا رواں دواں وقت پیچھے بھی دوڑ سکتا ہے اور پھر بظاہر عجیب اور ناقابل فہم باتیںعمل میں آتی ہیں۔ایسا ہی چونکا دینے والا اور ناقابل فہم تجربہ چند روز ہوئے ان سطور کے لکھنے والے کے ساتھ پیش آیااگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس وقت بیٹھا مابعدالطبیعاتی مسئلہ کو زیر بحث لا کر پڑھنے والے کو اس احساس کے سمجھانے کی غالباً بے فائدہ کوشش کا مرتکب نہ ہوتا۔




میری اول ترین یادوں میں سے ایک جو ایک عرصے کی دیکھی ہوئی خواب کی طرح دھندلکوں میں لپٹی ہوئی ہے۔چارپائی پر سفید چادر میں ملفوف ایک ساکن لیٹی ہوئی شکل کی ہے۔ چادر برف کی طرح چمکیلی سفید ہے۔ چارپائی جس پر وہ ساکن شکل لیٹی ہے ایک وسیع چبوترے کے وسط میں ہے اور اس کے پیچھے ایک وسیع مکان کے برآمدے کے محرابی دروازوں کا پس منظر ہے۔چارپائی کے ارد گرد بہت سے آدمی جمع ہیں۔ ان میںسب سے ممتاز اور باقی سب لوگوں کے لئے میل مرکزی بنا ہوا ایک لمبا سفید بزرگانہ داڑھی والا شخص ہے۔ بہت سے آدمی اس کے پاس آتے ہیں اور پھر ادھر ادھر بکھر جاتے ہیں وہ اسی طرح جامد ایک گڑی ہوئی لاٹھ کی طرح کھڑا رہتا ہے۔




وقت غالباً پہلے پہرکا ہے اور دھوپ کی روشنی زرد، زریں ہے۔ میں اپنی انا مائی



بکھان کی انگلی پکڑے ایک سنہری دھوپ میں نہائے ہوئے جیسے شہر میں پر اسرار وسیع گلی کوچوں میںچل رہا ہوں۔ (اگرچہ میں اکتیس سال جی چکا ہوں اور کئی ملکوں اور کئی ہواﺅں میں سے میں نے اس شہر کی تلاش کی ہے، میں نے اس شہر کو نہیں پایا۔ وہ شہر شاید نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر .... ماسوا ایک بچے کے دماغ میں۔ ہاں قدیم فرعونوں کے تھبیس(Thebes) کی تصویروں میں مجھے اس شہر کی ایک جھلک دکھائی دی ہے)مائی بکھارن قدرے تیز تیز چل رہی ہے۔ میری چھوٹی ٹانگیں اس کے ساتھ برابر قدم نہیں رکھ سکتیں اور میں تقریباً گھسٹ رہا ہوں۔ اچانک ہم ایک بڑے لکڑی کے پھاٹک کے پاس آکر رکتے ہیں جو کھلا ہے اور اس میں سے وہ منظر ناگہانی ہماری نظروں کے سامنے آتا ہے۔ برف سی سفید چادر میں لپٹی ہوئی شکل اور خاموش لوگوں کا منظر جسے میں نے پہلے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں مائی بکھان سے پوچھتا ہوں "اماں یہ کیا ہو رہا ہے" وہ کہتی ہے۔ "بیٹا" وہ عورت جن کے گھر ہم جاتے رہتے تھے اور جو ہمیں تمہیں کھانڈ کا شربت پینے کے لئے دیاکرتی تھی مر گئی ہے اور یہ اس کا جنازہ جا رہا ہے۔"
مجھے مرنے کے متعلق کوئی واضح پتا نہیں کہ وہ کیا ہوتا ہے۔پھر بھی میں محسوس کرتا ہوں کہ اس میں ڈراﺅنی کچھ ہولناک سی چیز ہے۔ مجھے اس کھانڈ کا شربت پلانے والی موٹی، مہربان عورت کا اس طرح آکر چادر اوڑھ کر ساکن لیٹ جانا بے حد عجیب معلوم ہوتا ہے۔




میں مائی بکھان سے اس کے متعلق اور بہت سی باتیں پوچھتا ہوں، لیکن وہ بڑوں کی سی بے اعتنائی کے ساتھ مجھے کوئی جواب نہیں دیتی۔ میں حیران اور عجیب طور سے ڈرا ہوا اس منظر کو دیکھتا ہوں۔




جب سے مجھے یاد ہے اماں بکھان ہماری دایہ تھی۔ ہم اس کو اس تعجب اور تعریف سے دیکھا کرتے تھے جس طرح بچے اپنے سے بڑوں کو دیکھتے ہیں مجھے اس کے بغیر ایک پل چین نہ آتا تھا۔ اسے شاہزادوں اور دیوتاﺅں کے عجیب و غریب قصوں کے بیچ میں سو جانے اور خراٹے لینے کی جھلا دینے والی چٹکیاں لینی پڑتیں کیونکہ وہ ایک گہری نیند سوتی تھی۔ وہ جاگتی اور ہم پوچھتے "اماں بکھان آگے کیا ہوا....!"








"میں کہاں پر تھی؟" وہ پوچھتی۔
"تو کہہ رہی تھی ناشاہزادے نے پری سے پوچھا کہ تو ہنسی کیوں اور روئی



کیوں۔" بے صبری سے اسے یاد کراتے۔




وہ کچھ منٹ اور اونگھتے ہوئے قصہ سناتی اور ایک نہایت دلچسپ اور اضطراب کن قصے کے درمیان خراٹے لینے لگتی۔




میری اماں بکھان ایک عام واقفیت کی عورت تھی۔ تقریباً شہر میں ہر کوئی اس کو جانتا تھا اور راستے میں کئی آدمی اس کو ٹھہرا کر اس کی خیریت پوچھتے اور حال لیتے اور دیتے۔ اماں بکھان اپنے چالیس کے سن کے باوجود اور اپنی فربہ مگر مچھ سی صورت کے باوجود اس وقت بھی رومانٹک عورت تھی اور میرا خیال ہے کافی چاہنے والوں کے نام گنا سکتی تھی۔ اس کے پہلے خاوند مر کھپ گئے تھے یا وہ ان کو فراموش کر چکی تھی۔ جب میں دوسری میں پڑھتا تھا تو اس نے ہمارے پچاس سالہ سائیس بابا الٰہی بخش، جسے ہم بابا لاہبیا کہا کرتے اور جو اپنی مہندی سے رنگی ہوئی داڑھی کے ساتھ ایک نہایت پر وقار شخص لگتا تھا، نکاح پڑھوا لیا جو اس کی پہلی شادیوں کی طرح عارضی نوعیت کا ثابت ہوا۔




وہ ایک اچھی اور جہاں دیدہ عورت تھی اور غالباً بیشتر گھرانوں میں اس کی جو آﺅ بھگت ہوتی تھی وہ اس کے تحصیل دار صاحب کی نوکرانی ہونے کی حیثیت سے ہوتی تھی۔اس کے علاوہ ادھر ادھر کے حال احوال، دینے کے فن میں اپنے طبقے کی ساری عورتوں کی طرح طاق تھی۔ اس سے زیادہ باتیں گپیں اور شہروں کے اسکینڈل کے بارے میں ہوتی ہوں گی جن کو سننا اور جن پر بحث کرنا ہمارے گھروں کی چار دیواری میں محبوس زنانہ مکینوں کا چہیتا مشغلہ ہے مجھے اس کے ساتھ بے حد محبت تھی اور میںاس سے پل بھر کے لئے جدا نہ ہوتا تھااگر وہ کہیں مجھے چھوڑ کر چلی جاتی تو میں زور زور سے رو رو کر اس کی دوہائی دیتا ضد اور غصہ سے آنگن کے فرش پر لوٹنے لگتا اور اس وقت تک غیر تسلی پذیر ہوتا جب تک کہ اماں بکھان مجھے اٹھا کر سینے سے نہ چمٹا لیتی۔ وہ ضدی اور غصیلی تھی اور مجھے یہ اکثر جتایا گیا ہے کہ میں نے اپنی ضد اور غصہ اماں بکھان سے لیا ہے اگر یہ سچ ہے تو اماں بکھان کا شکر گزار ہوں کیونکہ میری ضد نے مجھے کئی حماقتوں سے بچایا ہے اور مجھے اپنی مرضی اور خوشی کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے اکسایا ہے۔ اماں بکھان نے مجھے اپنی آواز اور اپنا لہجہ ضرور بخشے ہیں۔ میرا دیہاتی رینگتا ہوا لہجہ بڑی دیر تک میرے گھر والوں کے لئے مذاق اور قدرے مایوسی کا موجب رہا۔ وہ میرے اس لہجہ کی ذمہ داری میری پیاری اماں بکھان کے سر تھوپتے تھے اور میں اس اچھی عورت کا شکر گزار ہوں (وہ مر چکی ہے) کہ اس کی وجہ سے مجھ پر اپنی کسی کوتاہی کا الزام نہیں دھرا جاتا۔ اصلی قصور وار مائی بکھان ٹھہرائی جاتی ہے۔ جن دنوں میں اور اماں بکھان گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے اور موٹی مہربان عورتوں کے گھروں میں بن بلائے مہمان بنا کرتے تھے ان دنوں کی میری ایک تصویر اب تک میری بڑی پھوپھی کے تختہ آتش داں پر محفوظ ہے اور اس وقت میرے حلیے اور لباس پر روشنی ڈالتی ہے.... ایک سیب سے گالوں والا گول مٹول لڑکا جس کے سر پر سلمیٰ ستاروں سے کاڑھی ہوئی گول ٹوپی ہے اور جس نے اوپر اٹھی ہوئی ٹوﺅں والے براﺅن بوٹ پہنے ہوئے ہیں، ایک شش طرفی کھدی ہوئی میز پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہے اور ایک معصوم متانت سے سامنے دیکھ رہا ہے۔ پیچھے فوٹوگرافر کا پردہ ہے۔ جس پر جھالروں والے ستون اور کچھ گملے سے رنگے ہوئے نظر آرہے ہیں۔مجھے بھی یاد پڑتا ہے سلمیٰ ستاروں والی ٹوپی مجھے بے حد اچھی لگتی تھی اور میں دوسری جماعت میں آنے تک اس کو پہنتا رہا۔ اونچی اٹھی ہوئی ٹوﺅں والے بوٹوں سے مجھے سخت نفرت تھی اور میں ان کو پسند نہ کرتا تھا مگر ان دنوں ان کا رواج عام تھا۔ وہ شش طرفی منقش میز اپنے پائدان سمیت ظاہراً دائمی ہے اور پھولدار گلوب والے لیمپ کی طرح اب تک (یعنی ستائیس، اٹھائیس سال گزرنے کے بعد تک بھی) ہمارے گھر میں ہے۔




میں تحصیلدار کا "کاکا" تھا، اس لئے میری والدہ جہاں تک ممکن ہوتا مجھے صاف کپڑوں میںرکھتی اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اکثر جب میں اماں بکھان کے ساتھ گشت پر نکلتا تھا تو میرا لباس وہی ہوتا تھا جو میں فوٹو گراف میں پہنے بیٹھا ہوں۔ یعنی سلمیٰ ستارے والی ٹوپی، ایک زریں سی واسکٹ، شلوار اور اٹھی ہوئی ٹو والے (کتنے بد نما!) بوٹ جب میں نے بڑے پھاٹک کے نیچے سے زردیلی ساحرانہ سی دھوپ میں چبوترے پر اس سفید ساکٹ میت پر نظر ڈالی ہوگی تو میرا یہی لباس ہوگا۔ اگر مجھے خود یاد نہیں کہ میںنے کیا کپڑے پہنے ہوئے تھے.... گو اب میںجانتا ہوں کہ میرا وہی لباس تھا۔




اس واقعے کے بعد جب میری عمر زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین سال ہوگی میں نو سال اور بہاول نگر میں رہا۔میرے بچپن اور لڑکپن کا سنہری زمانہ اسی کھلے پر فریب شہر میں گزرا۔ اس عرصے میں مجھے بھی وہ بے حد بڑے پھاٹک اور افسانوی وسعت والے چبوترے والا مکان نظر نہ پڑا۔ گو کہ میں نے خاص طور سے اس کی کبھی تلاش نہیںکی۔ کئی دفعہ میں تعجب کرتا کہ وہ میری یاد والی جگہ کونسی تھی اور کہاں تھی مجھے اب یقین ہے کہ اگر میں اس کے پاس سے گزرا ہوں گا تو میں نے اسے پہچانا نہ ہوگا۔ بچپن میں چیزیں اصلیت سے کہیں زیادہ پراسرار اور وسیع لگتی ہیں اور بے حد حیرت ناک!




پھر میرے باپ کی بہاولنگر سے بہاولپور تبدیلی ہوگئی۔ بہاولپور ریاست کا دارالخلافہ تھا، شاندار شہر تھا۔ وہاں نور محل تھا اور سینما وہاں بجلی بھی تھی میں تمام لڑکوں کی طرح ایک نئے اور بڑے شہر میں جانے پر بے حد خوش تھا۔ میں ایک نئے اسکول میں داخل ہوں گا۔ نئے دوست بناﺅں گا،نئی اور عجیب و غریب جگہیں دریافت کروں گا۔ زندگی زیادہ دلچسپ ہوگی....
مگر بہاولپور میرے لئے ایک منحوس شہر ثابت ہوا۔ یہاں ہم ایک تنگ کوچہ میں ایک شاندار پختہ مکان میں آکر ٹھہرے تھے مگر میں تمنا اور ہڑ کے کے ساتھ بہاولنگر میں اپنے کچی اینٹوں کے گھر کے خواب دیکھا کرتا.... وہ مردانہ کی چھوٹی دیوار۔ وہ دروازے کے باہر ایک لوہے کے بازو سے لٹکی ہوئی میونسپلٹی کی لالٹین وہ چھوٹی دیوار کے پرے ریتلا میدان جہاں میرے دوست مصنوعی جنگیں لڑا کرتے تھے۔ وہ مکان کے عقب میں بڑے برساتی جوہڑ کے پرے سیاہ اور پر اسرار ریلوائی، جہاں آدمی جا کر انجنوں اور گاڑیوں کو دیکھ سکتا تھا۔
بہالپور میں، میں اپنی جماعت میں چمکا مگر کئی وجوہ سے میں اداس اور کھویا کھویا سا رہنے لگا۔ یہاں ایسے دوست نہ تھے جن کے ساتھ مل کر آدمی مصنوعی جنگیں لڑ سکتا ہو یا اینٹوں کے بنے ہوئے قلعوں پر حملے کر سکتا ہو، یا رنگین کاغذ کے تاج پہن کر اور لکڑی کی تلوار کمر میں رسی سے باندھ کر بادشاہ اور وزیر کے ناٹک کھیل سکتا ہو۔ میں جو ایک سوچنے والا اور راہب بن گیا۔ اپنا غم غلط کرنے کے لئے میں نے کتابوں میں خود فراموشی اور تفریح ڈھونڈی کتابیں رفتہ رفتہ افیم کی طرح میری آقا بن گئیں اور ایسے دوست جنہوں نے مجھے تمام قدرتی انسانی تعلقات سے بے نیاز کر دیا۔ میں نے بی اے بہاولپور سے پاس کیا،اس وقت اپنی تنہائی اور دل کی تاریکی کی وجہ سے میں انسانوں سے ڈرنے لگ گیا تھا اور یقین کرتا تھا کہ میں دیوانگی کی سرحد پر کھڑا ہوں۔




پھر بھی ایک امید تھی۔ وہ امید بہاول نگر تھی۔ یہاں سے صرف سو میل دور دنیا کا خوبصورت ترین اور متبرک ترین شہر تھا جہا ںمیں کھویا ہوا افق پھر سے پا سکتا تھا اور اپنے بچپن کے چمکیلے دن رات کی شاید پھر تسخیر کر سکتا تھا۔ اپنے باپ کی بہاولپور میں تبدیلی کے دس سال بعد گاڑی مجھے پھر ریتلے ٹیلوں اور چلچلاتی دھوپ میں تپتے ہوئے میدانوں میں سے بہاولپور کی طرف لے جا رہی تھی، میں ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لئے گھر سے بھاگ رہا تھا مگر نئی زندگی میرے لئے کسی جگہ بھی بہاولنگر کے حج کے بغیر ممکن نہ تھی۔ میں دہلی اور دور دیسوں کا عازم گر میں نے فیصلہ کیا کہ راستے میں چند گھنٹوں کے لئے بہاولنگر میں ضرور اتروں گا اور اس کی گلیوں میں اپنی کھوئی ہوئی خوشی کی تلاش کروں گا۔




جب گاڑی کو کتی اور گڑگڑاتی، کوئلے کے پہچانے ہوئے انباروں، شنٹ کرتے ہوئے انجنوں، ریلوائی کے بنگلوں کے پاس سے سنسناتی ہوئی بہاولنگر جنکشن میںداخل ہوئی تو میرا دل دھڑک رہا تھا۔میرے حلق میںایک پھانس سی تھی۔ یہ میری زندگی کے متبرک ترین لمحوں میں سے ایک تھا۔




نیچے گملوں والے پلیٹ فارم پر اترنے پر مجھے ایک پرانا دوست مل گیا جسے پہچاننے میں مجھے کچھ دقت ہوئی۔ وہ اب کافی موٹا اور جسیم ہو گیا تھا اور دو ٹھوڑیاں حاصل کر چکا تھا۔ پر اسکول کے دنوں میں وہ ہماری مصنوعی جنگوں میںدشمن فوج کا نائب سردار ہوا کرتا اور میں نے ایک دفعہ اس کو چت کر کے اور اس کے سینے پر چڑھ کر لکڑی کی تلوار سے اس کی ناک کاٹنے کی کوشش کی تھی (وہ جنگ ہم نے جیتی تھی) اب وہ محکمہ مال میں گرد اور قانون گویا اس قسم کی کوئی اور چیز تھا،وہ میری مریضانہ حالت پر اظہار افسوس کرتا رہا اور پھر اس نے اصرار کیا کہ میں اس کے پاس چل کر ٹھروں اور لوگوں سے اس خیالی خوف کے باوجود دس سال کی راہبانہ زندگی کا نتیجہ تھا، میں نے اس کی دعوت کو منظور کر لیا۔




گاڑی بہاولنگر میں شام کے سات بجے پہنچی تھی اور سامنے شہر پر اندھیرا چھارہا تھا۔ میں نے پل پر ہی سے دیکھ لیا کہ ہمارے گھر کے گرد بہت سے اور مکان بن گئے ہیں اور شہر کی ہیئت بہت کچھ تبدیل ہو گئی ہے۔ وہ ریتلا میدان جہاں ہم کھیلا کرتے تھے اب پکے مکانوں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ہم شہر کے بازاروں میں سے گزرے اور میں نے کئی پرانے چہرے ایک لرزے کے ساتھ پہچانے۔ بازار بالکل ویسے ہی تھے صرف سڑکیں پکی ہوگئی تھیں۔




رات کو میں اپنے دوست کے ہاں رہا۔ دوسرے دن گاڑی نے آگے بارہ بجے چلنا تھا اور میں علی الصبح ہی اپنے دوست سے کسی ملاقات کرنے کا عذر کر کے اکیلا اپنے بچپن کے بہاولنگر کو کھوجنے کے لئے چل کھڑا ہوا، میں پہلے اپنے پرانے گھر کی طرف گیا اور آخر اسے ڈھونڈ نکالا۔ مگر یہ ایک مختلف گھر تھا اس میں اتنی ترمیمیں اور اضافے ہوئے تھے کہ اسے پہچانا نہیں جاتا تھا چھوٹی کچی دیوار کا نشان نہ تھا اور نہ ہی دروازے پر میونسپلٹی کی لالٹین تھی۔ مردانہ اور زنانہ اب دو الگ الگ گھر بنا دیئے گئے تھے۔ یہاں سے میں ہسپتال اور ہائی اسکول والی سڑک پر سے ہوتا ہوا ڈگی پر گیا جہاں ہم ساون کے دنوں میں بیر بوٹیاں پکڑنے اور ساونی بنانے جایا کرتے تھے۔وہاں سے شہر کا باہر سے چکر لگا کر میں مغربی طرف پر پرانے تھیٹر پر آیا جس کی چھت تب بھی نہ تھی اور اب بھی نہ تھی اور جہاں نیک پروین، شیر کی گرج عرف چنگیز خاں اور سلور کنگ جیسے شاندار کھیل ہوا کرتے تھے اب یہاں پاکباز محبت لگا ہوا تھا۔اس تھیٹر کے بعد میں نے اپنے آپ کو ایک چوڑی سڑک پر پایا جومجھے اب یادنہ تھی۔ یہ سیدھی بازار میں کہیں جا نکلتی ہے۔




میں ایک بڑے کھلے پھاٹک کے پاس سے گزرا۔ اندر ایک چبوترے پر ایک چارپائی پر سفید چادر لپٹی ہوئی ایک شکل ساکت پڑی تھی اور بہت سے لوگ جمع تھے.... یاد کا ایک مبہم تار میرے دل میںگونجا، ماضی کی پہنائیوں سے گونجیں آئیں۔ میں نے اس منظر کو پہلے کہیں دیکھا تھا۔ میرے پاﺅں پھاٹک کے باہر گم ہو کر رہ گئے۔




اندر چبوترے پر کئی لوگ جمع تھے۔ بعض رو رہے تھے۔ میت کے پاس ایک لمبا معمر سفید ریش شخص کھڑا تھا اور لوگ اس کے پاس آکر اظہار افسوس کر رہے تھے.... ہر ایک چیز مجھے آشنا سی لگی اور میں مسحور ہو کر دیکھنے لگا۔
اسی وقت میں نے اپنے سامنے ....اتنا نزدیک کہ میں اس کو بازو سے پکڑ کر اٹھا سکتا تھا۔ ایک سیب سے گالوں والا لڑکا دیکھا۔ وہ ایک سلمیٰ ستاروں سے کاڑھی ہوئی قدرے مدھی گول ٹوپی پہنے تھا۔ اس کے پاﺅں میں براﺅن اونچی ٹو والے بوٹ تھے وہ ایک موٹے فربہ چہرے والی عورت کی انگلی پکڑے، حیرت سے بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ سامنے چبوترے پر رکھی میت کی طرف دیکھ رہا پھر وہ فربہ چہرے والی عورت کی قمیض پکڑ کر اس کے ساتھ دبک گیا اور اس کی طرف نظریں اٹھا کر ایک بھاری پنجابی لہجہ میں بولا۔





"اماں! ایہہ کیہہ ہو گیا اے؟"




بوڑھی عورت اپنے ہونٹوں سے بڑبڑائی۔ "کاکا! آغا صاحب کی بیگم جو آپاں نوں



کھنڈ کھلاندی ہوندی سی نا اوہ فوت ہو گئی اے "اور پھر وہ نیچے جھکی، چھوٹے خوبصورت بچے کی ناک صاف کرنے کے لئے جو اس کے منہ تک بہ آیا تھا۔
اس کے بعد وہ فربہ عورت چھوٹے بچے کو ساتھ کھینچتی ہوئی پھاٹک میں سے اندر لے گئی۔




یہ میری زندگی کا سب سے عجیب ترین واقعہ ہے اگرچہ بہت سے اس کا یقین نہیں کریں گے۔

شگون

تحریر:ڈاکٹر غلام شبیر رانا
" جب بھی آسمان پر سرخی کثرت سے نمودار ہو،بستیوں پر گدھ اور اُلّومنڈلانے لگیں،کووں کی چونچ میںانگور ہو،فاقہ کش مزدوروں کی امیدوں کے چراغ بجھ جائیں اور بڑے بڑے لوگ مست ہواوں میں عیش کرنے لگیں تو سمجھ لو اب وقت کا منہ زور دھارا روح کے دربستہ سناٹوں اور عذابوں کو بہا لے جائے گا۔فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں۔جب معاشرتی زندگی میں شقاوت کا یہ حال ہو کہ چڑیاں اپنے گھونسلے چھوڑ دیں،فاختائیں اتنا شور مچائیں یوں محسوس ہو کہ ابھی ان کا کلیجہ پھٹ جائےگا۔حبس کے باعث کچھ پرندے آبادیوں سے دور ویرانوں میں نکل جائیں اور کچھ آشیانوں میں دم توڑ دیں اورآبادیاںزاغ و زغن اور بوم و شپر کے غاصبانہ اور ظالمانہ تصرف میں ہوں تو سمجھ لو اب خیر نہیں۔یہ بہت بُرا شگون ہے۔
حوالہ
افکار کراچی:شگون،مارچ 1994،صفحہ 71
--
Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana

چلے تو


یہ اور بات کہ لمحوں میں ڈھل گئیں صدیا ں

حصارِ وقت سے باہر نکل گئیں صدیاں

چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پانؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں

وہ ا لفیوں سے بھی برتر ہے ،تھی خبر کس کو
سو جزوِ خاک کی عظمت سے جل گئیں صدیاں

وہ لمحہ سرور ِ عالم کو جب ملی معراج
اسی کے صدقہ جاں سے سنبھل گئیں صدیاں

کبھی کبھی ہوئے تخلیق پل بہ پل دیوان
کبھی کبھی تو مری بے غزل گئیں صدیاں

حقیر قصبوں کو دے دے کے رنگ عظمت کا
عظیم شہروں کا نقشہ بدل گئیں صدیاں

Ghazal by Dr. Fariyad 'Azer'

Saturday, June 18, 2011

چاندنی


آج سے چھہ عشرے قبل گورنمنٹ کالج جھنگ میں موضوعاتی نظمیں لکھنے کا آغاز ہوا۔اس کے بنیاد گزاروں میں وزیر آغا،جابر علی سید،سید غلام بھیک نیرنگ،محمد شیر افضل جعفری،سید جعفرطاہر ،مجید امجد،رفعت سلطان،خادم مگھیانوی،حفیظ ہوشیارپوری اور امیر اختر بھٹی شامل تھے۔دسمبر کی ایک چاندنی رات میں ایک ایسی ہی نشست میں رام ریاض سے فرمائش کی گئی کہ وہ چاندنی پر کچھ اشعار پڑھے ۔رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ )نے یہ اشعار ارتجالاً لکھے تو سما ں بندھ گیا
دل کو حسرت رہی ہے بڑی چاندنی
کاش تو مل سکے دو گھڑی چاندنی
جانے کس چاند کی راہ تکتی رہی
سرد راتوں میں پہروں کھڑی چاندنی
بزم گلشن میں اک برگ گل کے لیے
کتنی شاخوں کے پاوءں پڑی چاندنی
پھر کسی دیس تیرا پتا مل گیا
چاند تارے لیے چل پڑی چاندنی
جب بھی موسم کا اس کو خیال آ گیا
پھول کملا گئے رو پڑی چاندنی
رام میرے شب و روز کو ڈس گئے
چلچلاتا اجالا ،کڑی چاندنی
--
Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana

چنیوٹ کی دائی

محمد شیر افضل جعفری انیس سو ایک میں چنیوٹ میں تھے۔اس شہر میں ایک دائی تھی جس کے حسن وجمال کے ہر سو چرچے تھے اس پر مستزاد اس کے عشوے ،غمزے ناز وادا اور غرور تھا۔وہ مکئی اور جوار کے دانے شام ہوتے ہی سرراہ بھٹی پر بھون کرفروخت کرتی۔یہ اس کا صوابدیدی اختیار تھا کہ جس کو چاہتی بھنے ہوئے پھلے (دانے) فروخت کرتی ۔بد وضع ،غلیظ اور میلی نگاہ سے دیکھنے والے خریداروں کو وہ کبھی دانے فروخت نہ کرتی بلکہ ان کو جھڑک کر چلتا کرتی۔اس پراسرار دائی کے بارے میں جعفری مرحوم کے چند اشعار پیش ہیں
چنیوٹ کی دائی کے
دعوے ہیں خدائی کے
۔۔۔۔۔۔
سندر ،کومل نازک دائی
جھلمل جھلمل کرتی آئی
پھاگن کی سرشار فضا میں
لال پری نے لی انگڑائی
تڑ تڑ کر تڑنے لگے پھلے
تاروں کی دنیا شرمائی
--
Prof.Dr.Ghulam Shabbir Rana

Wednesday, June 15, 2011

ترجمانِ اردو کا دو روزہ تعلیمی رہنمائی پروگرام کامیابی سے ہمکنار(by E-Mail)

مالیگاؤں، پریس ریلیز
ادارہ ترجمان اردو، آئی ڈی بی آئی، مالیگاؤں پی ٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن اور انجمن ترقی تعلیم ATT کے اشتراک سے اے ٹی ٹی ہائی اسکول کے گراؤنڈ پر دو روزہ تعلیمی رہنمائی پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ یکم جون کو دو سیشن ہوئے۔ پہلے سیشن میں پروگرام کے صدر اور انجمن ترقی تعلیم کے چیئرمن رئیس احمد سیٹھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسی رہنمائی پروگرام کی خاصیت یہ ہے کہ سرپرست و طلباء براہ راست مختلف تعلیمی اداروں کے ذمہ داران سے مستفیض ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے پروگرام مزید ہونے چاہیں۔ جمیل احمد کرانتی نے کہا کہ آج مسابقتی دور ہے۔ اور ایسے میں پروفیشنل کورسیس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ جن کی مالی حالت کمزور ہے وہ مختصر معیاری ( شارٹ ٹرم) کورسیس کے ذریعے روزگار کے شعبہ میں مضبوط قدم جماسکتے ہیں۔ پروفیسر عبدالمجید صدیقی نے CCIکی کارکردگی حکومت کی پالیسی کے نقطہ نظر سے پیش کی اور طلبہ میں ایک حوصلہ پیدا کیا۔ دوسرے سیشن میں ماہر توانائی حاجی فیاض احمدنے انجینئرنگ کے مختلف شعبہ جات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ اپنے اندر چاہت پیدا کریں جتنی چاہت بڑھے گی اتنا ہی آپ دلجمعی کے ساتھ کورس مکمل کریں گے۔ کسی بھی شعبہ میں جس قدر مہارت حاصل ہوگی۔ اسی اعتبار سے عہدوں میں ترقی ہوتی جائے گی۔ حاجی فیاض نے کہا کہ انہوں نے میکانیکل انجینئرنگ (BE) کے بعد ۳؍ ہزار روپئے تنخواہ سے ملازمت شروع کی اور میری کارکردگی کے پیش نظر ۲؍ مہینے کے بعد مجھے سپر وائزر بنادیا گیا۔ اسکے بعد چائنا کمپنی کے ایک پروجیکٹ (پائپ لائن کے وال کا ڈیزائن) پر کام کیا جسے کمپنی نے پسند کیا اس طرح مجھے اسسٹنٹ منیجر کے عہدہ پر ترقی دی گئی۔اس لئے طلبہ اپنے کام لگن کے ساتھ کرتے رہیں یقیناًمحنت کا پھل ملے گا۔ انسٹی ٹیوٹ آف کمپیوٹر اکاؤنٹنٹ ناسک کے لیکچرار سچن لونارے نے کمپیوٹر کی تعلیم سے متعلق مفصل معلومات فراہم کی۔ اسی طرح انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ڈیزائننگ اینڈ انٹریئر ڈیزائننگ کے لیکچرار سہاس منڈے سر نے دونوں اہم شعبہ سے متعلق معلومات فراہم کی۔ مبشر انصاری ( ممبئی) نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تعلق سے کہا کہ آج کے دور میں IT کی مانگ ہے انہوں نے اس شعبہ کے جزویات پر سیر حاصل گفتگو کی کورس کہاں سے کیا جائے اس پر بھی تبصرہ کیا۔ دھولیہ کالج آف فائر انجینئرنگ کالج کے لیکچرار سنیل ایس چودھری نے فائراینڈ سیفٹی مینجمنٹ سے متعلق تفصیل پیش کی اور روزگار کے مواقع کہاں کہاں ہیں۔ اس پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ سٹانہ، منماڑ اور ایولہ میونسپل کونسلوں نے اپنے اپنے فائر اسٹیشن عملہ کو ٹیکنک اور تربیت سے آشنا کرنے کیلئے اپنے خرچ سے فائر انجینئرنگ کالج میں داخلہ دلواکر سنددلوائی۔ ارینا اینی میشن ڈپارٹمنٹ کے جوگیش شیلار سر نے اینی میشن کی افادیت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مختلف فلموں کے مخصوص مناظر کو بطور مثال پیش کرکے طلبہ میں دلچسپی پیدا کردی۔ پہلے سیشن میں انصاری مرتضیٰ سر نے جب کہ دوسرے سیشن میں کے ایف انصاری نے نظامت کے فرائض بخوبی انجام دیئے۔ حاجی سلطان احمد، عبدالغفور سیٹھ کلون فارمیسی کے پرنسپل اویش مارو اور ڈاکٹر شکیل احمد صدر شعبہ اردو سیواسدن کالج برہانپور جیسی اہم شخصیات مہمان خاص کے طور پر مدعو تھے۔ اس پروگرام کے مقصد کے پیش نظر صرف اور صرف لیکچررس کو ہی تاثرات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ مصطفی آفندی سر، عبدالستار سر، نعیم صدیقی سر، انصاری لئیق احمد (ریٹائرڈ ٹیچر مالیگاؤں ہائی اسکول ) قریشی حیدر ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی، سابق کونسلر مختار یوسف سر، محمد صادق سر ( سبکدوش صدر مدرس ) عبدالحلیم صدیقی، ڈاکٹر عارف انجم، حاجی شاہد انجم، احتشام انصاری، خالد سرحدی، اور ادارہ ترجمان سے وابستہ اراکین پروگرام میں حاضر تھے۔آج معلنہ طور پر ایجوکیشن ایکسپو پروگرام کا دوسرا اور آخری روز رہا ، جس کا آغاز صبح 9.30 بجے ہوا ۔جس میں اے ٹی ٹی ہائی اسکول بلڈنگ کے کمروں میں مختلف انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے طلبہ کی رہنمائی کی اور طلبہ میں پمفلٹ اور چارٹوں کی تقسیم کی ۔ اس ضمن میں طالبات میں کافی جوش و خروش دیکھا گیا ۔شہر کے ایم ایل اے مفتی اسماعیل اور آصف شیخ نے تعلیمی رہنمائی نمائش کا معائنہ کیا اور اپنے تاثرات میں خوش آئند اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں یہ سلسلہ برقرار رکھنا چاہئے ، مزید فرمایا کہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق عملی طور پر مختلف اداروں کے ماہرین کے ذریعے طلباء کی رہنمائی ضروری ہے ، ادارہ ترجمان اُردو کے اسٹاف نے بہترین انداز میں اس کااہتمام کیا، نمائش کیلئے چارٹ اور کورس کی معلومات کی بنیاد پر اُردو میں چارٹ بتانے کی رضا مندی مفتی اسماعیل نے دی ، جبکہ آصف شیخ نے مالیگاؤں شہر کے طلباء کیلئے ہر ہر قدم پر ایسے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدام کرنے کا عندیہ ظاہر کیا۔
فوٹو کیپشن: اے ٹی ٹی گراؤنڈ پر منعقدہ دو روزہ تعلیمی رہنمائی پروگرام کا ایک منظر

لیگاؤں اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام لائبریری اور ریسرچ سینٹر کے قیام کی سرگرمیاں شروع(by E-Mail)

مالیگاؤں ، ۹؍ جون ، پریس ریلیز
ڈاکٹر منظور حسن ایوبی (چئیرمن سٹی زن کیمپس ) کی چئیرمن شپ میں قائم شدہ ’’مالیگاؤں اردو اکیڈمی کا اولین مقصد‘‘مہاراشٹر میں اردو کیلئے ٹھوس اقدامات اورپائیدار کام کرنا ہے اسی مقصد کے تحت مالیگاؤں اردو اکیڈمی نے ایک شاندار لائبریری اور ریسرچ سینٹر کے قیام کا منصوبہ تیار کیا ہے ۔ جس کی ابتدائی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں ۔ ریسرچ سینٹر کیلئے پونہ یونیورسٹی میں عریضہ بھی کیا جا چکا ہے ۔ ریسرچ سینٹر کے ہمراہ لازماً لائبریری کا ہونا بھی ضروری ہے ۔
اسی مقصد کے تحت مہاراشٹر کے ساتھ ہی ہندوستان کے تمام ادباء و شعراء نقادانِ فن اور دیگر تمام اضاف میں لکھنے والوں سے گذارش ہے کہ اپنی شائع شدہ کتابوں کی ایک ایک جلد مالیگاؤں اردو اکیڈمی کو روانہ کریں۔ آپ کی کتابیں یقیناًریسرچ سینٹر کے طلبا کیلئے کار آمد ثابت ہوں گی ۔ کتابیں اس پتہ پر روانہ کریں ۔
الحاج ڈاکٹر منظور حسن ایوبی (چئیرمن مالیگاؤں اردو اکیڈمی)
سٹی زن کیمپس ، اسلام نگر گرو واروارڈ
مالیگاؤں 423203ضلع ناسک ( ایم ایس)
***

اسکس ہال میں لوک سنگھرش سمیتی کے زیراہتمام تقریب میں(by E-Mail)

مشتاق احمدمشتاقؔ کی معریٰ نظموں کاالبم’پرچھائیں کی آہٹ‘منظرعام پر
مالیگاؤں:پاورلوم شہرکے معروف ترقی پسنداقدارشاعراورمرحوم عبدالسلام اظہرؔ کی جھلک پیش کرنے والے نوجوان کہنہ مشق ہردلعزیزانکسارپسند مشتاق احمدمشتاقؔ کی آزادنظموں کاالبم(سی ڈی)۲۷؍مئی کی شب میں اہل علم ودانش کی موجودگی میں منظر عام پرآیاصدارت شیخ فیروزدلاورنے کی جبکہ رسم اجراء محمدرضوان (بیٹری والا)کے ہاتھوں عمل میں آئی اس موقع پراہم شخصیات میں عتیق احمدکمال،سلیمؔ عبدالرؤف،سلمان ضیاءؔ ،ڈاکٹرانیس بوستانیؔ ،حافظ انیس اظہرؔ ،رئیس قاسمیؔ ،آزادانورؔ ،عبداللہ ہلالؔ مالیگ، فرحان دلؔ ،مجتبیٰ حیدری ذکی،ؔ سہیل انجمؔ ،عامرؔ عبدالقدوس،متین شہزادؔ وغیرہ نے اپنے کلام بلاغت نظام سے ادب نوازوشعرفہم سامعین کو رات دیرگئے تک محظوظ کرتے رہے۔
تقریب اجراء کے بعدتاثرات پیش کرتے ہوئے مختارعدیل(صحافی) نے کہا کہ ’’اُردوزبان وادب کوجدیدیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے زبان وادب کے استحکام کی راہیں آسان کرسکتے ہیں برقیاتی ترقیات کے اِس زمانے میں سیکنڈبھرمیں اُردوکے مشہوراکابرشعراء کی تخلیقات انٹرنیٹ سے میسرآجاتی ہیں اُردوصحافت برقیاتی ترقیات کے سہارے دنیاجہاں میں اپنے قارئین کاحلقہ وسیع کررہی ہے تومشتاق احمدمشتاقؔ نے مجموعہ شائع کرنے کی بجائے البم (سی ڈی)پیش کیاہے توکوئی غلط نہیں کیاہے بلکہ بلاتفریق مذہب زبان کومقبول بنانے کی روایت کوآگے بڑھایاہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ مشتاق احمدمشتاقؔ اس وقت حوصلہ افزائی کاصحیح معنوں میں حقدارہے کیونکہ فنکارتوبہت ہوتے ہیں لیکن حقیقی فنکاروں کوپہچاننے میں زمانے کی آنکھیں اکثردھوکہ کھاجاتی ہیں۔مشتاق احمدمشتاقؔ کی شعرگوئی پراہل کمال ہی نہیں بزرگ شعراء بھی سردھنتے ہیں تخلیق کارعمرسے نہیں تخلیقات سے پہچاناجاتاہے۔ اس موقع پرمقررنے کئی تمثیلات سے واضح کیاکہ اُردوگیتوں،غزلوں،نظموں کوالبم کے کتنی مقبولیت ملی ہے۔
طویل خطاب میں ہاشمی لئیق احمد(استاد شاعر)نے کہا کہ ’’مشتاق احمدمشتاقؔ ایک خودداراورخلاق فنکارہے جس کے شعری سفرکی وسعت طویل اوربلندترین ہے اس شاعر کی ادبی شخصیت میں مرحوم عبدالسلام اظہرؔ کی جھلک نظرآتی ہے ۔مشتاق احمدمشتاق کاپہلاشعری دیوان ’لہوکی روشنی‘دس سال پہلے منظرعام پر آیاتھااب اُن کی آزادنظمیں بیک گراؤنڈموسیقی کے ساتھ پرچھائیں کی آہٹ عنوان سے باذوق سامعین وادب نوازوں کے سامنے پیش کی گئی۔‘‘لئیق ہاشمی نے مزید کہاکہ مشتاق ؔ نے حالات سے حوصلہ منداندازمیں مقابلہ کیاہے غربت تنگ دستی خطرناک بیماریوں سے جنگ کرکے یہ شاعر اُردوشعروادب کی خدمت میں شب وروزمہمک ہے۔

مالیگاؤں ،۱۰؍ جون، پریس ریلیز(by E-Mail)

اے آ ئی ٹی فارمیسی کے تحت قومی ترقی نمائش
حکومت ہند کی قومی ترقی اسکیم کا ایک مرکز اے آئی ٹی انسٹی ٹیوٹ آ ف فارمیسی مالیگاؤں جسکے چیف کوآڈیٹر جناب ڈاکٹر محمد نسیم قریشی ہیں ۔اس اسکیم کے تحت اے آئی ٹی فارمیسی نے شہر اور مضافات میں مختلف کلاسیس جاری ہے ۔ جس سے ہزارہا عوام فائدہ اٹھا رہیں ہے ۔ کچھ مراکز پر یہ کورسیس صرف خواتین کیلئے ہیں۔ ان مراکز میں سے ایک مرکز عنبر سلائی کلاس نیا پورہ کے ذریعے اے آئی ٹی فارمیسی نے قومی ترقی نمائش کا انعقادکیا ۔یہ نمائش خواتین کیلئے مالیگاؤں گرلس ہائی اسکول میں منعقد کی گئی جسکا افتتاح مشہور صنعت کار محفوظ محمد اسحاق زر والے کے ہاتھوں عمل میں آئی ۔ اس موقع پر شہر کے بہت سے معزز مہمان ، جناب عتیق احمد ،اسحاق خضر، ایڈوکیٹ رشیدخان ،جناب انصاری مختار یوسف ،جناب غلام ربانی ، جناب عتیق شعبان ، اور کے ایف انصاری سر نے شرکت کی ۔
مذکورہ موقع پراکثر معزز مہمانان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ اے آئی ٹی فارمیسی نے خاص انتظام کیا کہ تمام مراکز سے معلم ومعلمات اور طالبات مذکورہ موقع پر حاضر رہے۔ اس لئے آخر میں ڈاکٹر نسیم قریشی صاحب نے سبھوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اور قومی ترقی اسکیم کی افادیت پر روشنی ڈالی اور کہا کے ضرورت اس بات کی ہیں کہ ذیادہ سے ذیادہ عوام اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور ان تمام ہنر کو استعمال میں لا کر خود کفیل بنیں اور اپنے خاندان کی بھی قناعت کریں۔ ؒ ٓ

Sunday, June 12, 2011

حامد اقبال صدیقی کی تازہ ترین غزل

Thursday, June 09, 2011

گرچہ نام و نسب سے ہندو ہوں.....کملی والے میں تیرا سادھو ہوں

نعت گوئی کو شاعری کا نگینہ کہا گیاہے۔ لیکن یہ مشکل ترین صنف سخن ہے۔ کیونکہ اس میں ایسی شخصیت کی ثناخوانی کرنی ہے جو خیر البشر ہے۔ جس کا کوئی ثانی ازل تا ابد پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے نعت گوئی میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

نعت گوئی کا آغاز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہی میں ہو گیا تھا۔ اس دور میں حسان بن ثابتؓ جیسے با کمال نعت گو پیدا ہوئے۔ نعت گوئی عربی سے فارسی اور پھر اردو زبان میں آئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ نعتیں اردو میں لکھی گئی ہیں اوریہاں نعتوں کا بہت بڑا سرمایہ موجود ہے۔

اردو کے غیرمسلم شعرا نے بھی ان کی حیات طیبہ سے متاثر ہو کر کافی تعداد میں نعتیں کہیں اور اس کا کافی بڑا سرمایہ اردو میں موجود ہے ۔ غیر مسلم شعرا کی نعتوں کو جمع کرنے کی سب سے پہلے کوشش مشہور شاعر مرحوم والی آسی نے کی تھی اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں تو اردو میں غیرمسلم نعت گو شعرا کی تعداد کئی سو تک پہنچتی ہے۔ لیکن نور میرٹھی نے جو کتاب " بہ ہرزماں بہ ہر زباں" مرتب کی وہ بہت اہمیت کی حامل ہے اس میں انہوں نے 336 ہندو شعراءکی نعتوں کویکجا کیا ہے۔

غیر مسلم شعراءمیں جو نامور سامنے آتے ہیں ان میں پنڈت دیا شنکرنسیم، پنڈت ہری چند اختر، پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی، علامہ تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، تلوک چندر محروم، پنڈت بال مکند عرش ملسیانی، گوپی ناتھ امن، پنڈت نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پرساد، پنڈت برج نرائن دتا تریا کیفی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کالی داس گپتارضا، اوم پرکاش ساحر ہوشیارپوری، کنور مہندرسنگھ بیدی سحر، کرشن موہن، چندر پرکاش جوہر بجنوری، آنند موہن زتشی، گلزار دہلوی، پنڈت دیا پرساد غوری، اوما شنکر شاداں، اشونی کمار اشرف، ہری مہتا ہری اور چند ر بھان خیال جیسے شعراءکے نام آتے ہیں ۔

کالی داس گپتا رضا کی نعتوں کا مجموعہ "اجالے " کے عنوان سے شائع ہوا تھا اور چند ر بھان خیال نے منظوم سیرت پاک" لولاک "کے عنوان سے شائع کی ۔

ذیل میں کچھ ہندو شعراءکا نعتیہ کلام درج ہے ۔

ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری
کرتا ہے یہ دو زباں میں یکسر
حمد حق مدحت پیمبر

پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے
یعنی یہ مطیع پنجتن ہے
پنڈت دیا شنکر نسیم

ہو شوق نہ کیوں نعتِ رسولِ دوسرا کا
مضموں ہو عیاں دل میں جو لولاک لما کا
پہنچائے ہے کس اوج سعادت پہ جہاں کو
پھر رتبہ ہو کم عرش سے کیوں غار حرا کا
یوں روشنی ایمان کی ہے دل میں کہ جیسے
بطحا سے ہوا جلوہ فگن نور خدا کا
پنڈت دتا تریا کیفی

انوارہیں بے شمار معدود نہیں
رحمت کی شاہراہ مسدود نہیں
معلوم ہے کچھ تم کو محمد کا مقام
وہ امت اسلام میں محدود نہیں

رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری


سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیں
لیجئے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہم
نام پاک احمد مرسل سے ہم کو پیار ہے
اس لئے لکھتے ہیں اختر نعت میں اشعار ہے
پنڈت ہری چند اختر

سلام اس پر جو آیا رحمت للعالمین بن کر
پیام دوست لے کر صادق و وعدو امیں بن کر
سلام اس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کا

جگن ناتھ آزاد

پر تو حسن زاد آئے تھے
پیکر التفات آئے تھے
کذب اور کفر کو مٹانے کو
سرور کائنات آئے تھے
پنڈت آنند موہن گلزارزتشی

گرچہ نام و نسب سے ہندو ہوں
کملی والے میں تیرا سادھو ہوں
تیری توصیف ہے مری چہکار
میں ترے باغ کا پکھیرو ہوں
کرشن موہن


حضرت کی صداقت کی عالم نے گواہی دی
پیغام الہٰی ہے پیغام محمد کا
اوہام کی ظلمت میں اک شمع ہدایت ہے
بھٹکی ہوئی دنیا کو پیغام محمد کا
راجیندر بہادر موج


زندگی میں زندگی کا حق ادا ہو جائے گا
تو اگر اے دل غلام مصطفٰے ہو جائے گا
رحمت للعالمیں سے مانگ کر دیکھو توبھیک
ساری دنیا سارے عالم کا بھلا ہو جائے گا
ہے یہی مفہوم تعلیمات قرآن و حدیث
جو محمد کاہوا اس کا خدا ہو جائے گا
شوق سے نعت نبی لکھتا رہا گر اے خودی
حق میں بخشش کا تری یہ آسرا ہو جائے گا

پنڈت گیا پرساد خودی
Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP