نعت گوئی کو شاعری کا نگینہ کہا گیاہے۔ لیکن یہ مشکل ترین صنف سخن ہے۔ کیونکہ اس میں ایسی شخصیت کی ثناخوانی کرنی ہے جو خیر البشر ہے۔ جس کا کوئی ثانی ازل تا ابد پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے نعت گوئی میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
نعت گوئی کا آغاز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہی میں ہو گیا تھا۔ اس دور میں حسان بن ثابتؓ جیسے با کمال نعت گو پیدا ہوئے۔ نعت گوئی عربی سے فارسی اور پھر اردو زبان میں آئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ نعتیں اردو میں لکھی گئی ہیں اوریہاں نعتوں کا بہت بڑا سرمایہ موجود ہے۔
اردو کے غیرمسلم شعرا نے بھی ان کی حیات طیبہ سے متاثر ہو کر کافی تعداد میں نعتیں کہیں اور اس کا کافی بڑا سرمایہ اردو میں موجود ہے ۔ غیر مسلم شعرا کی نعتوں کو جمع کرنے کی سب سے پہلے کوشش مشہور شاعر مرحوم والی آسی نے کی تھی اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ یوں تو اردو میں غیرمسلم نعت گو شعرا کی تعداد کئی سو تک پہنچتی ہے۔ لیکن نور میرٹھی نے جو کتاب " بہ ہرزماں بہ ہر زباں" مرتب کی وہ بہت اہمیت کی حامل ہے اس میں انہوں نے 336 ہندو شعراءکی نعتوں کویکجا کیا ہے۔
غیر مسلم شعراءمیں جو نامور سامنے آتے ہیں ان میں پنڈت دیا شنکرنسیم، پنڈت ہری چند اختر، پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی، علامہ تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی، تلوک چندر محروم، پنڈت بال مکند عرش ملسیانی، گوپی ناتھ امن، پنڈت نوبت رائے نظر، پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی، بھگوت رائے راحت کاکوروی، مہاراجہ کشن پرساد، پنڈت برج نرائن دتا تریا کیفی، رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری، کالی داس گپتارضا، اوم پرکاش ساحر ہوشیارپوری، کنور مہندرسنگھ بیدی سحر، کرشن موہن، چندر پرکاش جوہر بجنوری، آنند موہن زتشی، گلزار دہلوی، پنڈت دیا پرساد غوری، اوما شنکر شاداں، اشونی کمار اشرف، ہری مہتا ہری اور چند ر بھان خیال جیسے شعراءکے نام آتے ہیں ۔
کالی داس گپتا رضا کی نعتوں کا مجموعہ "اجالے " کے عنوان سے شائع ہوا تھا اور چند ر بھان خیال نے منظوم سیرت پاک" لولاک "کے عنوان سے شائع کی ۔
ذیل میں کچھ ہندو شعراءکا نعتیہ کلام درج ہے ۔
ہر شاخ میں ہے شگوفہ کاری
ثمرہ ہے قلم کا حمد باری
کرتا ہے یہ دو زباں میں یکسر
حمد حق مدحت پیمبر
پانچ انگلیوں میں یہ حرف زن ہے
یعنی یہ مطیع پنجتن ہے
پنڈت دیا شنکر نسیم
ہو شوق نہ کیوں نعتِ رسولِ دوسرا کا
مضموں ہو عیاں دل میں جو لولاک لما کا
پہنچائے ہے کس اوج سعادت پہ جہاں کو
پھر رتبہ ہو کم عرش سے کیوں غار حرا کا
یوں روشنی ایمان کی ہے دل میں کہ جیسے
بطحا سے ہوا جلوہ فگن نور خدا کا
پنڈت دتا تریا کیفی
انوارہیں بے شمار معدود نہیں
رحمت کی شاہراہ مسدود نہیں
معلوم ہے کچھ تم کو محمد کا مقام
وہ امت اسلام میں محدود نہیں
رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری
سبز گنبد کے اشارے کھینچ لائے ہیں ہمیں
لیجئے دربار میں حاضر ہیں اے سرکار ہم
نام پاک احمد مرسل سے ہم کو پیار ہے
اس لئے لکھتے ہیں اختر نعت میں اشعار ہے
پنڈت ہری چند اختر
سلام اس پر جو آیا رحمت للعالمین بن کر
پیام دوست لے کر صادق و وعدو امیں بن کر
سلام اس پر جو حامی بن کے آیا غم نصیبوں کا
رہا جو بے کسوں کا آسرا مشفق غریبوں کا
جگن ناتھ آزاد
پر تو حسن زاد آئے تھے
پیکر التفات آئے تھے
کذب اور کفر کو مٹانے کو
سرور کائنات آئے تھے
پنڈت آنند موہن گلزارزتشی
گرچہ نام و نسب سے ہندو ہوں
کملی والے میں تیرا سادھو ہوں
تیری توصیف ہے مری چہکار
میں ترے باغ کا پکھیرو ہوں
کرشن موہن
حضرت کی صداقت کی عالم نے گواہی دی
پیغام الہٰی ہے پیغام محمد کا
اوہام کی ظلمت میں اک شمع ہدایت ہے
بھٹکی ہوئی دنیا کو پیغام محمد کا
راجیندر بہادر موج
زندگی میں زندگی کا حق ادا ہو جائے گا
تو اگر اے دل غلام مصطفٰے ہو جائے گا
رحمت للعالمیں سے مانگ کر دیکھو توبھیک
ساری دنیا سارے عالم کا بھلا ہو جائے گا
ہے یہی مفہوم تعلیمات قرآن و حدیث
جو محمد کاہوا اس کا خدا ہو جائے گا
شوق سے نعت نبی لکھتا رہا گر اے خودی
حق میں بخشش کا تری یہ آسرا ہو جائے گا
پنڈت گیا پرساد خودی
Thursday, June 09, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment