از: حامد الانصاری انجم، سنت کبیر نگر، اتر پردیش، ہندوستان
ماحول ہے تاریک فضاؤں میں دھواں ہے
جس سمت نظر اُٹھتی ہے وحشت کا سماں ہے
انجام کی کچھ فکر نہ احساسِ زیاں ہے
یہ میرا زمانہ ہے یہی میرا جہاں ہے
کیا چیز نہیں میرے یہاں خیر سے ہمدم
جنگ و جدل و عصبیَّت و تیغ و سناں ہے
کہنے کے لئے آج ہیں آزاد یقینا
لیکن جبیں پہ ثبت غلامی کا نشاں ہے
گلشن کی تباہی کے یہ آثار ہیں اے دل
لرزیدہ و ترسیدہ بہار اور خزاں ہے
تم کہتے ہو انسانوں کی بستی ہے یہ بستی
لیکن مجھے بتلاؤ تو انسان کہاں ہے
یہ مشق ستم کس لئے اے بانیِ بیدار
ہر لب پہ تشکر کی جگہ آہ و فغاں ہے
باطل تو ہے آزاد مگر حق ہے مقیَّد
’’آواز دو انصاف کو انصاف کہاں ہے ‘‘
شہرہ ہے ترقی کا ترانے ہیں خوشی کے
نابود اگر ہے تو فقط امن و اماں ہے
اخلاق و محبت ہو کہ اخلاص و وفا ہو
یہ چیز مرے دیس میں کمیاب وگراں ہے
تم نے کیا شاہین کو پابند نشیمن
ڈنکا یہ بجاتے ہو یہاں امن و اماں ہے
افتادہ سرراہ ہے کس کا یہ جنازہ
پتھرائی ہوئی آنکھ ہے خاموش زباں ہے
یہ کیسا زمانہ ہے اور یہ کیسی روش ہے
ناقوس کی لَے میں ڈھلی آواز اذاں ہے
اب حق و صداقت کے عَلَم دار وہی ہیں
حق بات کی تائید جنھیں بارِ گراں ہے
اربابِ غرض لاکھ مِٹائیں اِسے انجم
یہ مِٹ نہیں سکتی کبھی یہ اردو زباں ہے
پیش کش : سلمان فیصل، نئی دہلی
Friday, June 03, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment