Saturday, June 04, 2011
غزل'' ڈاکٹر فریاد آزر
اپنی تباہیوں کا بہانہ بھی میں ہی تھا
شانہ بھی میرا اور نشانہ بھی میں ہی تھا
اس طرح سازشوں نے مجھے دام میں لیا
میں ہی حسیں پرندہ تھا ، دانہ بھی میں ہی تھا
لمحہ بنا دیا مجھے حالات نے مگر
اک دور وہ بھی تھا کہ زمانہ بھی میں ہیں تھا
آدم نے بھی پڑھا تھا مرا نام عرش پر
سب سے نیا ہوں ،سب سے پرانا بھی میں ہی تھا
عبرت لو مجھ سے دیکھو مرا حال کیا ہوا
سوچو ذرا کہ عہد ِ شہانہ بھی میں ہی تھا
لوٹا مجھے تو لوگ مہذب بھی ہو گئے
تہذیب کا حسین خزانہ بھی میں ہی تھا
نکلا جو خلد سے تو چلا دورِ ہست و بود
نادان میں اگر تھا تو دانا بھی میں ہی تھا
ڈاکٹر فریاد آزر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment