از: حامد الانصاری انجم، سنت کبیر نگر یوپی، انڈیا
زوالِ اوج انسانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
ضیاء حسن ایمانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
کمال فتنہ سامانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
قیامت کی پریشانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
حماقت اور نادانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
جہالت کی فروانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
خزاں نے لوٹ لی ہے آبروئے گلشنِ ہستی
گلوں کی چاک دامانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
عروسِ لالہ وگل پر نہیں پہلی سی شادابی
بہارِ نو کی ویرانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
نرالے کارنامے دورِ حاضر کے نمایا ں ہیں
نگاہ و دل کی حیرانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
نہ اخلاق و مروّت ہے محبت ہے نہ شفقت ہے
تغافل کی رجز خوانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
خباثت ہو حماقت ہو فضیحت ہو رذالت ہو
انھی سب کی ثنا خوانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
کبھی تحسین بت گر ہے کبھی تعریفِ فتنہ جو
غرض بیجا ثنا خوانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
درِ اغیار ہو یا آستانِ یار ہو کچھ ہو
خمیدہ اپنی پیشانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
محبت ہے نہ الفت ہے فقط اک اجنبیت ہے
ہر اک تصویر انجانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
عداوت بغض و کینہ ہے حسدہے ،تر ش روئی ہے
دلوں کی تنگ دامانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
نہیں ہے کوئی شئے محفوظ اے دل اس زمانے میں
ہر اک سو قتل انسانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
یہی بس دیکھتا ہوں روز و شب صبح و مسا ہر جا
ستم گر کی ستم رانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
نہ پوچھو نبضِ دوراں اور رفتار جہاں انجم
زمانے کی پریشانی اِدھر بھی ہے اُدھر بھی ہے
پیش کش : سلمان فیصل، نئی دہلی
Saturday, June 04, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment