You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Friday, June 03, 2011

جدید کیمیاگر

سفر سےگھر لوٹتے ہی ہمیں بقراط اور شیفتہ کا بلا وا آگیا۔ ملتے ہی بقراط گویا ہوئے۔ جناب تعلیم کی آخرکار جیت ہوگئی۔ ہم نے پوچھا کیا جمّن میاں اپنے صاحبزادوں کی تعلیم جاری رکھنے پر راضی ہوگئے۔ شیفتہ نے فرمایا کیسے راضی نہ ہوتے۔ ہم نے ایک تنظیم کے ذریعہ انکے چھوٹے صاحبزادے کے لئے وکیل کا انتظام کروادیا اور انکی بھانجی کے علاج اور دیگر اخراجات کا بھی۔ ہم نے سکون کی سانس لی کہ چلیے شیفتہ کی شیفتگی نے جمّن کی ضبطِ فغاں کو سکون بخشا۔

بقراط صاحب نے چائے کی پیشکش کردی اور ہم سب ہوٹل پہنچے۔ شیفتہ نے بیرے سے کہا جناب ،دو میں تین لانا۔ ،بیرا قلم برگوشمنہ تکنے لگا۔ شیفتہ نے فرمایا جناب کیا کچھ غلط کہہ دیا جو چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگی۔ جائیے دو چائے اور ایک خالی پیالی لائیے۔ بیرا بھی تہذیب کا فرزند نکلا۔ کہنے لگا آپ میں سے کون صاحب خالی پیالی چبانا چاہتے ہیں بتادیجیے تاکہ مناسبت سے ،ٹوتھ پیک، بھی لے آوں۔ بقراط بیرے کی بذلہ سنجی سے واقف تھے، فرمایا۔ ایک سوئی بھی لیتے آئیے ہمارے دانتوں میں اکثر چائے اٹک جاتی ہے۔ بیرے کے جاتے ہی بقراط نے کہا۔ جناب اس چائے خانہ میں پڑھے لکھے، ادیب وشاعر، محرر، مقرر، سب آتے رہتے ہیں اور یہ بیرا اب نیم ادیب خطرہء ایمان بن گیا ہے۔ بقراط نے کہا ویسے اب مقامی ہوٹلوں میں مغرب کی طرز پر بیرا اور ،بیری، دونوں دکھائی دیتے ہیں اور غنیمت جانیے کہ یہاں بیرا ہے ۔ ہم نے کہا چائے خانہ ہے یا بزمِ ساحری ۔ شیفتہ نے مسکراکر جنابِ جوش کا شعر عرض کیا ۔ ،،اس بزمِ ساحری میں جہالت کا ذکر کیا۔۔۔خود علم کے حواس بھی رہتے نہیں بجا،،۔ ہم نے کہا حضور ساری دنیا کا یہی حال ہے۔ بقول امیر خسرو۔ ،،ایں چہ شور است کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طوقِ زریں برگردنِ خر می بینم،،۔ یہ کیا شور ہے جو میں ہر دور میں دیکھ رہا ہوں، زمین سے آفاق تک فتنہ وشر ہے۔ اسپِ تازی (مسلمان) تو زیرِ پالان مجروح ہے اور زریں ہار گدھے(غیر) کے گلے میں ڈالا گیاہے۔

ہم نے شیفتہ سے دریافت کیا۔ حضور جمّن کا مسئلہ حل کرنے والے کون لوگ ہیں۔ فرمایا نوجوانوں کی ایک تنظیم ہے جواس جہاد میں پیش پیش رہتی ہے۔ تنظیم کے لوگ اعلی تعیلم یافتہ ہیں اور دینِ فطرت کا پختہ علم رکھتے ہیں۔ بس سمجھ لیجیے جدید کیمیاگر ہیں اور کرن چاندنی خوشبو کو چھاننے کا فن جانتے ہیں۔ علم وادب سے بھی لگاو رکھتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ جدید نسل ادب برائے ادب، سخن طرازی اور عقلیت کی بحث سے کچھ سوا چاہتی ہے۔ فرمایا ،ادبستان، اب صرف دلی اور روحانی تسکین کا معبد نہیں رہا اور نہ ہی توصیفی شاعری اور امراء و رؤسا کے نام کا سہرا لکھ کر اعزازات حاصل کرنے کا مرکز۔ وہ دور بھی گزر گیا جب چند ادیب و شعراء حضرات ایکدوسرے کی پیٹھ دبا کر اکھاڑے کھڑا کر دیا کرتےتھے۔اب نئی نسل شاعری، ادب، فنونِ لطیفہ ہو یا دینی نصیحت ان سب کے ساتھ اپنے مسئلوں کا حل بھی چاہتی ہے۔ ہنسانے پر ہنسنا اور رلانے پر رونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی چاہتی ہے۔دانشمندی کے ساتھ حکمت عملی چاہتی ہے۔ دین و دنیا کی خبریں اور معلومات توانگلیوں کی جنبش سے حاصل کر لیتی ہے ۔
بقراط نے کہا لیکن حضور موجودہ نسل کی مختلف قسم کی سوچ ہے اور مختلف اندازومعیارِ زندگی ہے۔ ہم نےکہا ویسے تو بیسیوں اقسام ہونگی لیکن آپ ان سب کو چار پانچ اقسام میں تقسیم کر کے مطلوبہ قسم کو علیٰحدہ کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جن کے لیے علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کا مطلب مادہ پرستی اور فحاشی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بھی انتہا پسندی کی ہی قسم ہے جو زندگی کا ہر لمحہ سرور و کیف میں گزارنا چاہتے ہیں اور وہ بھی ،فاسٹ اینڈ فارورڈ، ہو کر۔ دوسرے بھی انتہا پسند ہیں اور ان کا ادب و تہذیب سے کچھ لینا دینا نہیں اور یہ خالص ،فاسٹ فارورڈ، کے مارے ہیں اور ساری دنیا کو جلد از جلد جنت اور جہنم کی سیر کرانا چاہتے ہیں۔ تیسرے وہ ہیں جو اس شعر کے مصداق۔ ناگزیر اک راہ تھی باطل وہ حق کے درمیاں۔۔۔مصلحت بنکر وہ اب ہونٹوں پہ مسکانے لگی ہے۔ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ چوتھے وہ جو دراصل جدید کیمیاگر ہیں۔ دینی و عصری تعلیم سے معمور ہیں، ادب کا ذوق و شوق رکھتے ہیں اور جو لیلائے تہذیب کے تدریجی عمل سے گزرنا چاہتے ہیں۔ مشیتِ ایذدی کے رازداں ہیں اور یہ بات سمجھتے ہیں کہ لیلائے تہذیب کا ظہورتدریجی عمل کا متقاضی ہے ۔ صبر و تحمل اور مستقل مزاجی کے تقاضوں کا علم رکھتے ہیں۔ سِلمٍ کافّہ، دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی ترتیب کو سمجھتے ہیں۔ قومیت اور ،نیشنل ازم، کے دیوانے نہیں ہیں۔ عالمیت اور سالمیت کے قائل ہیں۔ تالاب کے مینڈک نہیں ہیں۔ منزل پر نظرتو رکھتے ہیں لیکن سفر کو مراد مانتے ہیں، غیروں کیطرح منزل کو نہیں کہ۔،رکھّا تھا با مراد سفر کی تکان نے۔۔۔منزل کا شوق تھا جو نامراد کرگیا،۔ یہی وہ نسل ہے جو اپنے تکمیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ انشاءاللہ دنیا انھیں کے ہاتھوں لیلائے تہذیب کی دوبارہ رونمائی دیکھےگی۔ آج نہیں تو کل۔

بقراط نے کہا جناب عالمی تناظر میں اس پر ایک سکون بخش مطالعہ درکار ہے۔ شیفتہ نے کہا جناب موجودہ نسل کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات لیلائے تہذیب میں مضمر ہیں اور ضروری ہے کہ دورِ جدید کے پس منظر میں لیلائے تہذیب کے ظہور اور پردے میں جانے پر ایک مطالعہ پیش کیا جائے۔ ہم نے کہا اس ضمن میں فاضل علمائے دین کی مستند اور مدلل تحریریں موجود ہیں جن میں مولانا مودودی، حضرت قطب شہید اور الندوہ و دیوبند و بریلی اور دیگر مکاتب کے علمائے دین بھی شامل ہیں۔ کہا مادہ پرستی کی برق رفتار ترقی کیساتھ موجودہ نسل کا عصری تعلیمی رحجان بھی بدل رہا ہے۔ ہر نئی نسل اپنے دور کے تناظر میں دلیلیں سننا پسند کرتی ہے۔ دلیلیں مختلف پیرائے میں پیش کرنا ضروری ہے۔ ادب و شاعری کا سہارا لیں یا درس وتدریس کا۔ ۔ ہم نے کہا حضور گر ایسا ہے تو احباب سے بزم میں بھی گزارش کئے دیتے ہیں اور انشاءاللہ مطالعہ کراک مضمون رقم کرنے کی سعی بھی کرتے ہیں ۔
شیفتہ نے عرض کیا جناب لیلائے تہذیب پر وہ نظم بھی خوب ہوئی کہ۔
بیٹھی ہے پردے میں لیلائے تہذیب۔۔۔ اب ضرورت اسکی رونمائی کی ہے
گُلو پہ خنجر! اور وہ بھی فرزند کے!۔۔۔بات دوستی میں رکھ رکھائی کی ہے
لُکنت و ضُعف کے باوصف اُسنے۔۔۔فرعونِ عصر سے معرکہ آرائی کی ہے
ملے تھے رِستے ھوئے زخم جسے۔۔۔اُسی نے اہلِ ستم کی مسیحائی کی ہے
نبئ اُمّی(ص) نے پاکر مقامِ محمود۔۔۔رہنمائی سبکی اور رب کی بڑائی کی ہے

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP