You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Wednesday, June 01, 2011

مجروح سلطانپوری-تحریر: صادقہ نواب سحر


اکثر یوں ہوتا ہے کہ انسان اپنی پہچان ساری دنیا میں تو کروا لیتا ہے مگر اپنے ہی گھر میں وہ ایک اجنبی شخصیت بن کر رہ جاتا ہے اور پھر اتفاقاً شاعر ہوگئے تو بات ہی کیا ہے ۔… "بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے "… بہت کم ایسے ہوئے ہیں جو گھر اور باہر دونوں جگہوں پر قابل وقعت، قابل محبت اور قابل اعتماد ہوتے ہیں۔ شاعر اور گیت کار مجروح سلطان پوری انھی چند خوش قسمت لوگوں میں سے تھے ۔ وہ ہر جگہ کامیاب رہے ۔ بحیثیت ادبی شاعر، بحیثیت علمی شاعر، بحیثیت صاحب خاندان۔ انسان باہر کی دنیا میں کتنا ہی کامیاب رہے ، اگر وہ گھر میں کامیاب نہیں تو وہ ادھورا ہے ۔

مجروح صاحب گھر میں رہے یا باہر ان کو اپنے بیوی بچوں، رشتہ داروں، دوستوں کا ہمیشہ خیال رہتا۔ مجروح اپنے بچوں کو مشاعروں میں لے جانا پسند نہیں کرتے تھے البتہ شاعری کے مختلف پہلو انھیں ضرور سمجھا دیا کرتے تھے ۔ تعجب ہوا یہ جان کر کہ انھوں نے اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھائی، شاعری کے لیے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی اور بچوں نے بھی اس طرف خاص دھیان نہیں دیا۔ I.C.S.C. اسکول کی پڑھائی اور ہوم ورک میں ہی ان کا وقت نکل جاتا تھا! شاید مجروح صاحب اپنے بچوں کو زمانے کی ٹھوکروں سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے ۔

بچوں کی پڑھائی اور تربیت میں وہ سمجھوتہ نہیں کرتے تھے ۔ کبھی کبھار اسکول والوں کی کسی کوتاہی کا احساس ہوتا تو اسکول جاکر پرنسپل اور ٹیچروں کو ڈانٹ آتے ۔

وہ بیچارے لحاظ میں خاموش ہو جاتے اور بچے دل ہی دل میں ناموزوں ماحول سے دوچار ہو جاتے ۔ مگر اکثر جب وہ اسکول کے کسی جشن میں شیروانی، سفید کرتا، پاجامہ پہن کر جاتے تو بچوں کو محسوس ہوتا کہ پروگرام کی رونق ہمارے والد سے ہے اور یہ صحیح بھی ہوتا۔

مجروح صاحب کی تین بیٹیاں تھیں نوگل، نوبہار اور صبا اور دو بیٹے ارم اور عندلیب۔ نوگل کینڈا میں ہیں۔ ان کی شادی بھوپال کے بیرسٹر صبا رشید قاضی کے بیٹے وقار قاضی سے ہوئی۔ نوبہارظ انصاری صاحب کے بیٹے خورشید سے بیاہی گئیں۔ صبا، موسیقار نوشاد صاحب کے موسیقار بیٹے راجونوشاد کی بیوی ہیں۔ تین بیٹیوں کے بعد ارم کی پیدائش ہوئی تو مجروح صاحب نے شکیلہ بانوبھوپالی کی قوالی کا پروگرام رکھا۔ ارم جنھیں پیارے امّو کہتے تھے ، ہارٹ اٹیک کا شکار ہوکر بھری جوانی میں اس دنیا سے سدھار گئے ۔ یہ ایسایم ساگر کی بیٹی سے بیاہے گئے تھے ۔ دوسرے بیٹے عندلیب نے فلم لائن جوائن کی۔ "جانم سمجھا کرو" بنائی، لیکن والد کے انتقال کے بعد داڑھی بڑھالی اور اسلام سے قریب ہوگئے ۔

جگر صاحب سے مجروح کی قربت اور محبت مشہور ہے ۔ ایک بار جگر نے ننھی صبا کو ایک روپئے کا نوٹ دیا تھا۔ مجروح صاحب نے صبا کی تصویر کے نچلے حصّے میں نوٹ فریم کروا دیا۔ مگر ایک دن کسی نوکر نے اس نوٹ کو چرالیا۔ یہ واقعہ سناتے ہوئے صبا کی آنکھوں میں والد کے لیے محبت اور بچپن کی یادیں ابھر آئیں۔

مجروح صاحب کے سرپر چشمہ ٹوپی رہتی، گرمی کے موسم میں بھی سویٹر، مفلر، ساتھ رکھتے وجہ سردی کی شکایت۔ انھیں سر میں بہت سردی محسوس ہوتی تھی۔صبا کے گھر جاتے تو سیدھے نوشاد صاحب کے میوزک روم میں چلے جاتے ۔ صبا کو بعد میں خبر ہوتی۔ اکثر شام کو چار بجے وہاں جاتے ۔ باہر ہال میں صبا بیٹھی انتظار کرتی۔ نوشاد صاحب کی دوستی انھیں اتنی ہی عزیز تھی۔ جب وہ ممبئی آتے تھے تو دادر کی ایک چال میں نوشاد صاحب کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔ اس وقت وہ مجروح تھے نہ نوشاد نوشاد سے ایسی یاری نبھائی کہ رشتہ داری تک پہنچائی۔

آج رضوی کالج باندرہ کے پڑوس میں 'سی گل بلڈنگ' میں مجروح صاحب کے گھر میں ان کی بیگم فردوس صاحبہ اور عندلیب اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں بھی اور اس سے پہلے Lido سنیما کے قریب جوہو کے گھر میں بھی ان کے رشتہ داروں کا آنا جانا لگا رہتا۔ کچھ کو وہ گاؤں سے اپنا کیرئر بنانے کے لیے بلا لیتے ۔ نوکری اور گھر ملنے پر ہی وہ وہاں سے رخصت ہوتے ۔ ان کے ایک رشتہ دار مشتاق جو ان کے سکریٹری بھی تھے ۔ آخر وقت تک ان کے ساتھ رہے ۔ مجروح صاحب کی وفات کے چوتھے دن یعنی 21جون کو ان کا جنازہ بھی اٹھا۔

شاعری کے علاوہ مجروح صاحب کو کچھ اور شوق بھی تھے ۔ جیسے شکار کھیلنا، تاش کھیلنا، اچھا کھانا، فیملی کے ہمراہ سیروتفریح ٹیوی پر کرکٹ اور ہاکی میچ دیکھنا۔ شکار کے سلسلے میں اکثر بھوپال میں اپنے دوست اختر سعید خاں کے یہاں جایا کرتے ۔ مچھلی کے شکار کا بھی شوق تھا۔ اس سلسلے کا ایک دلچسپ قصہ یوں ہے کہ ممبئی کے پوائی لیک میں، جہاں وہ اکثر مچھلی کا شکار کیا کرتے تھے ، ایک بار پوری رات گزار دی۔ آخر مجروح کے کانٹے میں ایک باون پونڈ کی مچھلی لگی۔ مجروح صاحب چھوٹی بوٹ لے کر صبح تک اسے باہر نکالنے کی کوشش کرتے رہے اور کامیابی پائی۔
مجروح صاحب کو لکھنوی کھانا بڑا پسند تھا۔ بیگم فردوس اصلی گھی میں بڑا اچھا کھانا پکاتیں اور وہ بڑے شوق سے کھاتے ۔ گو کہ بہت کم کھاتے … مجروح صاحب حقہ بھی بہت شوق سے پیتے ۔ شام کو آنگن میں بیٹھے ہیں، ہولے (ہرے چنے ) لہسن کی چٹنی کے ساتھ چٹخارے لیتے ہوئے کھا رہے ہیں۔ حقہ بھی چل رہا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب بیگم رشید احمد صدیقی سے شب دیگ پکواتے ، کباب، قورمہ، روغنی روٹی کے ساتھ کھاتے ۔ چاول زیادہ نہ کھاتے ۔ چاول میں صرف پلا? پسند تھا۔ بھْنا قیمہ خاص طور سے پسند تھا۔ شکار کا گوشت خصوصاً تیتر، بٹیر، کلیجی وغیرہ آگ پر بھنوا کر کھاتے ۔ اخیر میں لیلاوتی اسپتال میں داخل کیے گئے تو بگڑتے پرہیزی کھانے سے بیزار تھے ۔ سترہ مئی کو ایڈمٹ ہوئے 20 کو گھر آئے ، جیسے گھر کا کھانا کھانے ہی آئے ہوں۔ 21مئی کو دوبارہ ایڈمٹ کیے گئے اور 23 کی رات انتقال کیا۔
مجروح صاحب کو اپنے گھروالوں سے اس قدر لگا? تھا کہ جہاں جہاں ممکن ہوتا بیوی بچوں کو ساتھ لے جاتے ۔ آج فردوس صاحبہ ذرا سا شوہر کی بات نکلنے پر روتی بلکتی ہیں وقت مرہم نہیں بن پایا تو کیا عجب ہے ۔ پچھلے دنوں پروڈیوسر، ڈائرکٹر ناصر حسین کا انتقال ہوا تو جیسے پرانی یادیں لوٹ آئیں۔ مجروح صاحب نے ناصر حسین کے ساتھ کئی فلمیں کی تھیں۔ بے قرار ہونے لگیں۔ مجروح صاحب کے گیت ٹیوی پر دیکھ سن کر یادوں کی ریل پھر الٹی چلنے لگی۔ مجروح صاحب اپنی بیگم کو یوروپ، کینڈا، جہاں جہاں فلم والے یا ادبی ادارے ٹکٹ دیتے تھے ، ہر جگہ لے گئے ۔ "پکار" فلم تک وہ ان کے ساتھ جاتی رہیں۔ پھر صحت کی خرابی کی وجہ سے اس میں کمی واقع ہوئی۔
مجروح صاحب کو 30 ستمبر1994 میں 93 کا دادا صاحب پھالکے ایوارڈ لینے دلی جانا تھا۔ بچوں کو بھی لے گئے ۔ ہر سال چنڈی گڑھ میں "جشن رفیع" کے موقع پر بہترین گلوکار کو ایوارڈ دیا جاتا ہے ۔ مجروح صاحب کے ہاتھوں ایوارڈ دیا جانا تھا۔ وہاں گئے تو منتظمین سے کہا کہ بیٹی صبا کو شملہ گھما لاؤ۔ انھوں نے شملہ کی سیر کروانے کے ساتھ ساتھ مشاعرے کا انتظام بھی کرلیا۔ مذاقاً کہتے ، "صبا تمھاری بدولت ہم نے شملہ دیکھ لیا۔" بچیوں کی شادی کے موقعوں پر خود انھیں لے جاتے اور شاپنگ کرواتے ۔

مجروح صاحب دوست نواز بھی تھے ۔راہی معصوم رضا، سلمیٰ صدیقی کے علاوہ بہت سی فلمی ادبی اور غیر فلمی لوگوں سے دوستی ہوئی اور اسے نبھایا بھی۔

مجروح صاحب آخری وقت تک تنومند رہے ۔ لیلاوتی میں بھی انھیں یقین تھا کہ سنبھل جائیں گے ۔ یہی جینے کی للک ان میں زندہ دلی بھرتی رہی۔ عمر اور کمزوری سے ہاتھوں میں رعشہ تھا مگر اپنی وفات سے دو مہینے پہلے تک گاڑی خود چلاتے تھے ۔ بچے منع کرتے کہ ہاتھوں میں لرزش ہے تو انھیں ڈانٹتے ۔

مجروح صاحب ادب اور فلم کی بڑی شخصیت ہیں مگر وہ اپنی بڑائی کو گھر نہیں لائے تھے ۔ گھر میں وہ صرف باپ تھے ، نانا، دادا تھے ، شوہر تھے ۔ گھر کے ہیڈ، جن کے سہارے اور بھروسے گھر چلتا ہے ۔ باہر جو جدوجہد کریں سو کریں۔ آپ کے رشتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں۔

زی ٹیوی والوں نے "Making of Legend" پروگرام کے لیے جب عندلیب سے پوچھا کہ تمھارے ابا تمھیں کیسے لگتے ہیں تو انھوں نے بڑے فخر سے کہا تھا "Best in the world" یہ نہیں کہ وہ بہت بڑی جائداد چھوڑ گئے ہوں یا دنیا کی تمام نعمتیں بچوں کی جھولی میں ڈالی ہوں۔ مگر یہ تو تھا کہ کسی چیز کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ عندلیب نے مجھ سے کہا کہ آج کروڑپتیوں کے بچے خودکشی کرتے ہیں کیوں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انھیں طمانیت نصیب نہیں۔ ہم میں ابا نے وہ کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے ۔ گھر میں کبھی فلمی ماحول نہیں رہا۔ شعر خوانی بھی تبھی ہوتی جب مہمان گھر آتے ۔

مجروح صاحب کی غصے کے تعلق سے کئی روایتیں مشہور ہیں۔ کچھ جان پہچان والے ان سے نالاں بھی رہے لیکن بات کچھ ایسی تھی کہ آخری وقت تک انھیں کام کرنا پڑا۔ لہٰذا کچھ چڑچڑے ہو چلے تھے ۔ شروع کے دن جدوجہد کے گزرے ۔ پہلی تین بیٹیاں تھیں ایک ایک کر کے تینوں کی شادی کی بیٹے چھوٹے تھے ۔ کس کے Support پر آرام کرتے ۔ ارم کی موت کے بعد اکثر کہتے "خدا کسی باپ کے کندھے پر بیٹے کا جنازہ نہ اٹھوائے " آخر میں اس بات کا بھی چڑچڑاپن تھا کہ عندلیب کا کچھ کیوں نہیں بن رہا۔ انھیں کام مانگنے کی عادت نہ تھی مگر خوش قسمت تھے ۔ اسپتال میں بھی جتن للت کا اسی سلسلے میں فون آیا تھا۔ زندگی یوں گزرتی رہی کہ روز کنواں کھودو اور روز پانی پیو۔ فکر تھی کہ میرے بعد ان سب کا کیا ہوگا؟ کبھی اس بات کا غصہ نہ تھا کہ بوڑھے سے کام کروا رہے ہیں یا ہم نے انھیں سہارا دے رکھا ہے ۔ اس قسم کی بات نہ کبھی دوستوں سے سنی گئی نہ رشتہ داروں سے ۔ عندلیب نے بڑے دکھ سے کہا کہ 'ہم ہی کھڑے ہو جاتے تو وہ Relax کر لیتے ۔
مجروح صاحب اپنے بچوں کے بچپن کو اپنی فلمی و ادبی مصروفیات کی نذر کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ ان کے بچوں نے جو خود اب چھوٹے یا بڑے بچوں کے ماں باپ ہو چکے ہیں۔ اپنی یادوں کے جھروکوں سے جھانک کر کہا کہ ہم بیمار پڑتے تو دہری خوشی ملتی، ایک تو اسکول سے چھٹی ملنے کی دوسرے امپورٹیڈ کھلونے پانے کی، جو اس زمانے میں بہت مہنگے ہوتے ۔

بچوں کو وہ اداس نہیں دیکھ سکتے تھے ۔ فلم "جانم سمجھا کرو" میں پس منظر موسیقی کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی کہ موسیقار اور پروڈیوسر میں کہا سنی ہوگئی اور ایک بہت اہم سین رہ گیا۔ پروڈیوسر نے میوزک ڈائرکٹر کو پیسے دینے سے انکار کر دیا۔ ان دنوں مجروح صاحب "مشعل جاں" کے نام سے اپنا مجموعہٴ کلام شائع کروانے کے لیے پیسے اکٹھے کر رہے تھے ۔ انھوں نے گھر میں سختی سے کہہ رکھا تھا کہ اتنے پیسے میرے ہیں۔ کسی ضروری کام کے لیے بھی صرف نہ کیے جائیں۔ مگر فلم کی تکمیل کے اس مرحلے میں انھوں نے عندلیب کو قریب بلایا، سارے پیسے نکال کر انھیں دے دیے اور کہا اپنی موسیقی کمپلیٹ کر لو۔

مجروح صاحب مغرور نہیں تھے ، خوددار ضرور تھے ۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ منوہر جوشی کے ہاتھ سے دادا صاحب پھالکے ایوارڈ نہیں لیا، لیکن معروف شاعر جگر مرادآبادی کے پاؤں ضرور دباتے ۔ وہ مذہب کے نام پر ماحول خراب کرنے کے عمل کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ دوسروں کی مدد کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے ۔ ساحر لدھیانوی کی بیماری کے دنوں میں ان کی طرف سے فلموں میں گیت لکھے اور محنتانہ بھی نہیں لیا۔ نظیر بنارسی اور محمد علی تاج وغیرہ کو فلم پروڈیوسروں سے متعارف کروایا۔ وہ خوبصورت شخصیت، سریلے گلے کے مالک، مہذب، مشفق، اخلاق کی قدروں کی علامت تھے ۔

مجروح صاحب کی بیماری کی خبر نہیں پہنچی، انتقال کی خبر ملی۔ ان کے انتقال سے صرف پانچ مہینے پہلے میں اپنے شوہر اسلم نواب صاحب کے ساتھ ان سے مل آئی تھی۔ اپنی بلڈنگ کے میٹریس پر شام کی چہل قدمی کے لیے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ ہی گھر لوٹ آئے "مشعل جاں" تحفتاً دی۔ اپنے ہاتھوں سے اس پر لکھا: "صادقہ بیٹی کے لیے ۔"

ان کی وفات کی خبر اخباروں کے ذریعے پہنچی تھی… میں دوڑ پڑی 'سی گل' کے 'سی' ونگ کے ناموں کی تختیوں کے نیچے لاکھوں دلوں کی دھڑکنیں اپنی ادبی غزلوں اور میٹھے فلمی گیتوں سے بڑھانے والا زندہ دل شاعرمجروح بڑے سکون سے سو رہے تھے ۔ لگا جیسے ابھی بول پڑیں گے 'ٹھیک تو ہو بیٹا' اور پھر "آواز دیں گے ، 'ارے بھئی، صادقہ آئی ہے ، چائے وائے پلاؤ۔۔۔ مگر اس دن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

بہت کم لوگ سو سے بھی کم، عمارت کے احاطے میں نظر آئے ۔ لوگوں کو خبر ہی نہیں ہوئی اور ایک اہم ادبی ہستی اور ہزاروں فلمی گیتوں کا خالق، جن کی موجودگی ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کر لیتی تھی، چند چاہنے والوں کی موجودگی میں منوں مٹی کے نیچے سلا دیا گیا۔

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP