جشنِ مقتل تو ہم روز بپا کرتے ہیں۔۔۔
حضرتِ شیفتہ ہمیں گوشت کی دکان پر دیکھ تعجب میں پڑھ گئے اور کہنے لگے۔ آپکا خادم کیانام ہے اسکا عنایت، آج گوشت خریدنے نہیں آیا۔ کیا آخر کار دبئی چلا گیا۔ ہم نے کہا حضور آپ بھی اوروں کی طرح اکثرشرافت کو عنایت سمجھ لیتے ہیں۔ شرافت چھٹی گیا ہے اور دوسرا خادم جو ملا ہے اتفاقاً اسکا نام عنایت ہی ہے۔ فرمایا حضور اس شہرِ ستمگر میں آپ واحد گوشت خور ہیں جو شرافت اور عنایت سے گوشت کھارہے ہیں ورنہ اب بمبئی میں کہاں عنایت اور کہاں شرافت۔ جب سے ہمارے سبزی خور احباب کٹر گوشت خور ہوگئے بس اب قصابوں کے پاس چھچھڑے ہی باقی بچتے ہیں۔ وہ کبھی کتے بلیوں کو ڈال دیا کرتے تھے آج کل اسے بھی تول کر فروخت کرتے ہیں۔ ہم نے کہا ویسے ہم اور آپ کیا دنیا کے سارے اہلِ ایمان ہی گوشت خوری کی نعمت سے سرفراز ہیں، چاہے کوئی لاکھ کس مپرسی کے دور دیکھے لیکن بقول شاعر۔ منعم بہ کوہ و دشت و بیاباں غریب نیست۔شاید اسی لیے اکثر اہلِ ایمان کے گھر کے درودیوار پر یہ شہادت لکھی ملے گی کہ۔ ،ھذا من فضلِ ربی،۔ لیکن تعلیم بہرحال کوٹہ سے یا خیرات سےہی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
ہم نے کہا پچھلے ہفتہ تجارت کی غرض سے دہلی گئے تھے۔ بمبئی کی طرح کچھ یہی حال ہے دہلی کا ۔فرمایا، دہلی جب تک دلّی رہی دل لگی رہی، اسکے بعد سے وہ دہل رہی ہے۔ہمنےکہا ہمارے مطالعہ میں بھی آیا تھا ۔،جیولوجسٹ،کا کہنا ہے دہلی زلزلوں کی زد میں رہنے والے بڑے شہروں کی فہرست میں ہے۔ فرمایا، لگتا ہے یہ کوئی انگریز پنڈت ہے اسلئے اسکی پیشنگوئی کو مستند مانا جائے گا ورنہ مقامی پنڈت تو تب سے کہہ رہے ہیں جب سے پنڈت جی نے کرسی سنبھالی تھی۔
قصاب نے آواز لگائی اور شیفتہ سے کہا جناب لیجیےآپکا ایک پاؤ خالص، بغیر ہڈی کا، دیکھ لیجیے ہمیشہ کی طرح صاف و شفاف۔ شیفتہ نے ہتھیلی میں پیکٹ کو تولا، رومال سے ہونٹوں کی لالی پونچھی اور غصے سے کہا۔ ہمیشہ کی طرح دس بیس گرام ہی لگے ہے۔ ایک پاؤ کہاں۔ پھر پان کی پچکاری سے دروازوں کو دو آتشہ کیا اور پیسوں کا پیکٹ بڑھا دیا۔ قصاب نے کہا، حضور اب کیا دام بھی تول کے لینا پڑے گا۔ آپ پینشن سے جمع شدہ پانچ دس روپوں کے نوٹ لے آتے ہو اور ساتھ کچھ سکّے بھی۔ فرمایا، تول کر دیکھ لیں ملک میں معاشی بد حالی کا پتہ لگ جائے گا۔ قصاب نے کہا آپ کو گوشت بھی ،ساقِ بلوریں، کا چاہیے۔ کبھی ،عارضِ سیمیں، کا بھی کھائیے نا۔ فرمایا ہمیں تو لگے ہے تم پہلے کبھی شاعر رہےہونگے۔ قصاب نے بھی پچکاری ماری اور سرخ تبسسم کے ساتھ گویا ہوا۔ حضور خوب پہچانا آپ نے ۔ ہم نے تعجب سے دونوں کی طر ف دیکھکر سوچا۔ چاک گریبانی میں اب رکّھا کیا ہے ۔ایک دیوانے کی پرکھ دوسرے دیوانے کو خوب ہوتی ہے۔
کہا، جناب پہلے شاعر تھا پھر فلموں میں گانے لکھتا تھا۔ مشہور گانے لکھیں ہیں میں نے۔ ہم نے فوراً اپنا مومبائیل بند کیا کہ فلموں کا ذکر جب بھی چھڑا کوئی نہ کوئی راز اور راگ ضرور چھیڑا گیا۔ ہم دونوں ہمہ تن گوش ہوئے اور قصاب ہمہ تن گوشت۔ شیفتہ نے پوچھا پھر یہاں کون آپ کو بیٹھا گیا۔ کہا، حضور کیا کریں اب فلموں میں اٹھائی گیر، پاکٹ مار اور لفنگے بھی گانے لکھنے لگے ہیں۔ ہماری ساری برادری فلموں میں تھی۔ کچھ لوگ تو بہت امیر ہوگئے اور پاک و ہند کے سیاست دانوں کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ ہوئے۔ کچھ پابند سلاسل ہوئے۔ میری طرح کچھ صبح کے بھولے دیر رات گئے لٹے پٹےگھر لوٹے ۔ شیفتہ نہ پوچھا تمہارا کونسا گانا مشہور ہوا۔ کہا وہی جو میرا ابا گنگنایا کرتا تھا بکرے ذبح کرتے ہوئے۔ اے میری زہرہ جبیں۔۔۔ تجھ کو قربان۔۔ ہم نے کہا بس رہنے دیں۔ اگر آپ شاعری کرتے تھے تو کوئی اچھا سا شعر ہی سنادیں۔ کہا ملاحظہ کیجیے۔ ہمیں قصاب کا یہ لحاظ کرنا بڑا اچھا لگا۔ کہا،
جشنِ مقتل تو ہم روز بپا کرتے ہیں۔۔۔پابہ جولاں اٹھا لاتے ہیں مذبح میں۔ ہم نے کہا یہ تو تمہارا اپنا پس منظر ہے۔ کوئی موسم کے اور شیفتہ کے مزاج کے مطابق سنائیے۔ کہا حضور عرض کرتا ہوں۔ لیکن شیفتہ حضور اپنے دل پر نہ لےلیں۔
کہا،بڑے ابّا تجھے ہوا کیا ہے۔ تیرے بٹوے میں اب بچا کیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ شیفتہ ،پان بگولہ، ہوگئے اور پیک سے لپٹے سرخ لفظوں سےیوں گویا ہوئے۔گوشت میں سرقہ کرنا تو تمہاری خصلت تھی اب شعر و ادب میں بھی سرقہ۔ اس نے کہا، جناب ہمارے اپنے شعر ہیں اور حضرتِ زخمی سے باقاعدہ اصلاح لی ہے۔ فرمایا، اسی لیے تمہارے اشعار زخم خوردہ ہیں۔ اور اس تخلص کا کوئی شاعر ہم نے نہیں سنا آج تک۔ کہا حضور ،زخمی، تو ان کا نام ہے۔ تخلص تو انھوں نے ،بیل، رکھ چھوڑا ہے۔ فرمایا، رکھ چھوڑا ہے تو پھر کیا ہوا اس بیل کا۔ کہیں اسے لیبیا تو نہیں بھیج دیایا پا بجولاں مذبح میں۔ اور یہ گوشت اسی کا تو نہیں۔ کہا، حضور توبہ کیجیے وہ بیچارے مشاعروں میں اکثر غزل ممیانے ہمارا مطلب ہے فرمانے کے بعد لہو لہان ہو جاتے تھے۔ فرمایا، کیا انہیں شورشِ گریہ سے ٹی بی ہو گئی تھی۔ کہا نہیں مشاعرے میں لوگ یہ کہہ کر پتھر مارا کرتے تھے کہ زخمی کو اسمِ با مسمٰی ہونا چاہیے۔ چند سال یونہی زخم زخم رہے پھر آگرہ چلے گئے۔ فرمایا، ونہیں لوٹے جہاں کی مٹی تھی۔ کہا نہیں حضور وہ تھے تو وہاں ں ں۔۔۔ کیا کہتے ہیں لاہور کے لیکن مٹی راس نہیں آئی۔ آگرہ تو وہ جو بڑا پاگل خانہ ہیں نا۔۔۔ فرمایا کمبخت تمہاری اصلاح کرنے والے کا یہی حال ہونا تھا۔ اور وہاں ں ں۔۔۔ کو اتنا لمبا کرنے کی تمہیں عادت ہے۔
شیفتہ نے ایک نظر ہماری طرف ڈالی پھر گویا ہوئے۔ یہ جب جب یہاں اور وہاں ں ں کے قافیہ ملاتا ہے بس سمجھیے سرقہ لازم ہے اور لخت لخت یہاں وہاں ہو جاتے ہیں۔ کہا حضور زمین ہی مستعار لی ہے جو ہر شاعر کرتا ہے، کسی کے فکر کا آسماں تو نہیں لیا۔ وہ تو اپنا ہے۔ فرمایا نقاد بھی ہو۔ کہا میری کیا مجال۔ ویسے آپ ہی کے علاقے کے چند تنقید نگار میرے گاہک ہیں اور ،بوٹی، سے شوق فرماتے ہیں اور ساق و عارض کا ذوق و شوق بھی ہے انہیں۔ فرمایایہ قصاب قابلِ اعتماد نہیں ہے ۔
وہ ہمارے گوشت کی مہارت سے بوٹی بوٹی کرتا ہوا شیفتہ سے کہنے لگا حضور آپ ہمیشہ مجھے استاد بلایا کرتے تھے آج کل قصاب بلاتے ہو۔ کوئی اچھا سا لقب استعمال کیجیے ۔ عزت دار ہوں دو دو فلیٹوں اور کاروں کا مالک ہوں۔ شیفتہ نے فرمایا جلدی ہاتھ چلاو۔۔۔ اور دھیان سے۔۔ ہماری نظر ہے تم پر۔ تمہاری طرح کی کمائی تو اکثرسیاستداں بھی کرلیتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے تم بکرا گراتے ہو اور وہ انسان۔ مالک انکو نیست و نا بود کرے۔ کہا حضور کیوں میرے پیٹ پر لات مارتے ہو۔ جتنا گوشت آپ نے زندگی بھر نہیں خریدا ایک سیاستداں روزانہ خریدتا ہے۔ فرمایا کیا اپنے حلقہ کے ووٹرز کی روز دعوت کرتاہے۔ کہا نہیں حضور اسے کتے پالنے کا شوق ہے۔ اس کا ذاتی ڈاکٹر بھی ہمیں سے گوشت خریدتا ہے۔ بتا رہا تھا کہ اس سیاست داں کے نصیب میں گوشت کہاں۔ لقوہ زدہ ہے۔ سوپ بھی پلاسٹک کی نلی سے پیتا ہے۔ شیفتہ نے کہا تمہارے ہاں جب اتنے عزت دار گوشت خریدنے آتے ہیں تو اس ٹوٹے ہوئے ڈربہ پر بیٹھ کر گوشت بیچنے کی کیا تک ہے۔ کہا حضور آپ سے کیا چھپائیں، اب دو دو شو روم ہیں ہمارے وہ بھی نام چین ،مالز، میں لیکن ابا کہا کرتے تھے بیٹا دیندار اور شرفاء کی صحبت میں برکت ہے وہ چاہے دکانداری سے حاصل ہو یا مکتب سے ۔ فرمایاسبحان اللہ کیا لوگ تھے۔ ہم نے سوچا صرف پان کی پیک اور کثافت نہ ہو تو برکت ہی برکت ہے۔
ہم نے شیفتہ سے کہا حضور آپکو تاخیر ہو رہی ہوگی آپ چلیے ہمیں تو اب اپنا جگر لخت لخت ہونے تک یہاں رکنا ہوگا۔ فرمایا۔ صحبتِ یار عزیز تر است۔ مقتل نہ سہی مذبح میں تو ساتھ رک سکتے ہیں۔ہماری بغل میں دبے اخباروں کے طومار پر ایک نظر ڈالی اور پھر گویا ہوئے۔ حضور آج تعطیل کے دن اتنے سارے اخباروں کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔ ہم نے کہا دفتر میں صرف سرخیوں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اور اب تو صحافت کی مجبوریاں شرفاء کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ گھر میں روزانہ صرف اردو اور انگریزی کے دو ایسے اخبار لائے جاتے ہیں جو چار صضحات پرمشتمل ہوتے ہیں اور جو اشتہارات سے پاک ہوتے ہیں۔ والدین تو اپنے وقت میں صبح اخبار آتے ہی قطع و برید کر اخباروں کو غسل دے دیا کرتے تھے اور پھر پڑھکر گھر کے دیگر افراد کے ہات آتا تھا۔ ایک آدھ صفحہ ہمیں غائب ملتاتھا۔ یہی روش پر ہم نے بھی کاربند رہنے کی کوشش کی تھی تو پتہ چلا قطع و برید کے بعد ایک آدھ صفحہ ہی باقی بچتا ہے۔ اکثر صفحات عریاں اشتہارات کے ہی نکلتے اور پھر خادم انکا استعمال شیشہ صاف کرنے میں لیتے یا ردی کی نذر کردیتے۔ روز روز قطع و برید کرنے وقت کہاں ہے اب۔ جو اخبار و صحافت کبھی ذہن کے جالوں کی صفائی اور تفکرات کی دھند صاف کردیا کرتے تھے اب ان سے شیشے صاف ہوتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو ان اخبارات کی خبروں سے دھند بڑھ جاتی ہے اور اس پر طرا ٹی وی صحافت۔ اکثر یہ معاملہ ہوتاہے کہ۔
نظریں ہیں اخبار پہ لیکن کان لگے دروازے پر۔۔۔ہونی ہے کچھ انہونی، ٹی وی میں کوئی بول رہا ہے۔
لفظوں کا چارہ ہے تھوڑا، سوچ کی ہے بھوک بڑی۔۔۔ابھی سلجھا دوں یہ گتھی، قلم ہمارا بول رہا ہے۔
بابری مسجد کے سابقہ عدالتی فیصلے پر یہی عالم تھا اور مآل آخر انہونی ہی ہوئی تھی۔ فرمایا۔ اب صحافت بھی اشتہاروں کی طرح ہزاروں اقسام میں بٹ گئی ہے اور اب یہ علم وفکر کی تیغ کو دھار کرنے کا آلہ نہیں رہی۔ کہیں زرد، زعفرانی تو ارغوانی صحافت۔ کہیں مہم اور تفریح سے شرابور تو کہیں موسیقی اور اشتہار کی عریانیت سے مخمور۔ موسماتی تو کہیں، سیاسی، معاشی، معاشرتی، داخلی اور خارجی۔ صحافت نہ ہوئی بغاوت ہوئی۔
شیفتہ نے فرمایا۔ حضور اردو صحافت اور ادبیات تو اب ہفتہ واری مجلات اور ماہناموں تک ہی محدود ہوگئیں ہیں۔آبائی پیشہ سے منسلک قصابوں نائیوں اور پھل فروشوں کے یہاں ٹکسالی اردو کے رنگ اور لہجہ کی کھنک ملتی ہے۔ خاصکر جنکا تعلق دہلی یوپی بہار اور قرب وجوار سے ہے۔ یہ اردو ثقافت کے آئینہ دار ہیں۔ ورنہ تو اردو کا فروغ عموماً گدی نشیں ادباء، شعراء اور نقادوں کی آپسی چپقلش کا محتاج رہا ہے۔ اکثر لوگ اب اردو کہاں ،ار۔دی، یا ،ار۔دیزی، بولتے ہیں۔ سرزمین ھند میں تو اردو تیراکی کر لیتی ہے اور ڈوبنے سے بچی رہتی ہے۔ مگرمچھوں اور شارک سے خود کو بچائے رکھنے کا فن جانتی ہے کیونکہ اسی بحرِ ظلمات میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہے۔ کسی بھی قسم کی امداد اور سہارے کو اردو سے جوڑنا اسکی مشاقی کی تو ہین ہے۔ بلکہ کئی ہیں جنکی کشتیوں کو اسی نے پار لگایا۔ لیکن دکھ تو تب ہوتا ہے جب سر زمینِ پاکستان پر جہاں اسے ڈولی میں بیٹھا کر بہت چاؤ سے لے جایا گیا تھا وہ مقام نہیں ملا۔ فرمایا، آج کا اخبار آپکے ہاتھوں میں ہے دیکھ لیجیے شہزاد صاحب کا مضمون۔ اردو کو دفتری زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ بھی دیگر درجات کے ساتھ التواء میں پڑگیا۔ تیراکی تو وہاں بھی کرتی ہے کہ یہ اسکی فطرت و شان ہے لیکن اہلِ اردو کاخواب تھا کہ کم از کم یہ وہاں ،جل کی رانی، بنکر راج کرے گی۔
ہم نےدکاندار سے کہا جناب ہمیں جانا ہے زرا جلدی کیجیے۔ کہا، حضور گھر بھجوا دوں گا آپ جائیے۔ شیفتہ نے فوراً نا کردی اور فرمایا۔ بلکل نہیں ہماری آنکھ کے سامنے جب ایک پاؤ دس بیس گرام ہو جاتا ہے تو آپ سوچیے گھر پر کیا پہنچتا ہوگا۔ ہمارے ساتھ ایک بار دھوکہ ہو چکا ہے۔ جو گوشت گھر بھیجا تھا وہ تودھونے میں ہی گھل گیا۔کہا، کیا آپ واشنگ مشین میں تو نہیں دھوتے ہو۔ یا کوئی معجون بناتے ہو۔ کوئی نسخہء کیمیا ہے تو بتائیے۔ ویسے جب تک میں ایک آدھ کلو گوشت نہ کھالوں حسرت نہیں نکلتی ۔ شیفتہ پھر ،پان بگولہ، ہوئے اور یوں گویا ہوئے۔ نکلے گی، ضرور حسرت نکلے گی جب سرقہ کے مال کی طرح سب کچھ باہر نکلے گا۔ اس لقوہ زدہ سیاستداں کو ذہن میں رکھنا، اس کا وہ حال تو خون پی کر ہوا تھا تمہارا گوشت کھا کر کیا ہوسکتا ہے سوچ لو۔ قصاب نے اپنے تخت پر بیٹھے بیٹھے دور نگاہ دوڑائی اور شیفتہ سے کہا حضور زرا جگہ دیجیے مولانا صاحب تشریف لا رہے ہیں۔ہفتہ واری فاتحہ کا وقت ہو چلا ہے۔ فرمایا سب کچھ چھوٹا بس فا تحہ نہیں چھوٹی۔ ٹھیک ہے ہم بھی اپنے ماموں اور خالو کی پڑھ لیں گے۔ کمبخت مٹھائی کی دکان تو اب سب کہانیوں کے جنات لے اڑے ۔
ہم نے دام ادا کیے اور جانے کے لیے ہم دونوں نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ دکاندار زور سے پکار اٹھا۔ زنبیییل۔۔۔ شیفتہ نے کہا حضور آپ اس زنبیل میں کچھ گوشت کا حصہ ڈال دیں، ہم نے اگر کچھ ڈالا تو ہات ملتے گھر جانا پڑیگا۔ ہم نے مٹھی بھر گوشت زنبیل میں ڈال دیا اور استفہامیہ نظروں سے شیفتہ کو دیکھکر قدم بڑھایا۔ شیفتہ نے چلتے چلتے فرمایا حضور اس زنبیل سے مسجد کے خداموں کی ہفتہ وار دعوتِ طعام کی جاتی ہے۔ ہم نے کہا اس قوم کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت اور محبتوں کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن اللہ کے محبوب بندوں کو زنبیل اور خیرات کی محتاج بنا کر رکھتی ہے۔ اور پھر سیاق وسباق کو سمجھے بغیر کہتی ہے۔ ھٰذا من فضلِ ربی۔فرمایا، حضور سب نظر اور نظریہ کا اختلاف ہے اور کچھ نہیں۔ ہم نے خدا حافظ کہا اور یہ سوچتے ہوئے گھر پہنچے کہ ہم میں سے اکثر ،پیراڈائم شفٹ، کے شکار ہیں اور بزم میں اسکی مثال دیکھنے کو مل جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment