You can see Lantrani in best appearance in Chrome and Mozilla(not in internet explorer)

Friday, June 03, 2011

ایک اور تعلیم یافتہ مسلم لڑکی جہیز کی بھینٹ چڑھ گئی

جل کر ہلاکت کا دل خراش واقعہ
گلبرگہ(ایازالشیخ) :شہر میں پیش آئے ایک لرزہ خیز واقعہ میں سسرال والوں کے ظلم و ستم اور تشددسے تنگ آکر ایک تعلیم یافتہ لڑکی نکہت پروین عمر ۲۶ ، تعلیم بی اے بی ایڈ مبینہ طور پر خود کو جلاکر ہلاک کرڈالا ۔ بعض اقرباء اورپڑوسیوں کاکہنا ہے کہ اسے اسکے شوہر نے اسے جلایا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چار سال قبل نکہت کا عقد عبدالغفور جیلانی عرف منوولد عبدالرشید جیلانی ساکن قمر کالونی نزد کرنول اسپتال گلبرگہ کے ساتھ ہوا تھا۔ شادی کے بعدکچھ دن تک تو معملات ٹھیک رہے لیکن بعد میںآواہ منش شوہر عبدلغفور اور ساس حور بانو ، ریٹائرڈ ٹیچرمزید جہیز اورمالی مطالبات کے چلتے لڑکی کو ہراساں اور مارپیٹ کرنا شروع کیا۔ نکہت گولڈ روز انگلش میڈیم اسکول میں بحیثیت ٹیچر کام کررہی تھی۔ پنے حسن اخلاق سے طلباء اورساتھی ٹیچرس میںیکساں طور پر مقبول تھی ۔لڑکی کے والدین اور بھائیوں نے حتی المقدور مطالبات پورے کرنے کی کوشش کی۔ لیکن مطالبات میں اضافہ ہوتاگیا۔ مارپیٹ اور تشدد روزانہ کا معموم بن گیاتھا۔ عبدالغفور کے اس تشدد کی ساس حور بانو جوایک یٹائرڈ ٹیچر ہیں اورمتعدد حج بھی کرچکی ہیں مسلسل ہمت افزائی کرتی رہی اور کہا کہ لڑکے کو کاروبار لگاکردینا سسرال والوں کی ذمہ داری ہے۔ مطالبہ پورا نہ ہونے پر دوسری شادی ، طلاق اور بچہ سے جدا کرنے کی دھمکیاں دیتی رہیں۔ نکہت کو والدین اور رشتہ داروں کی ہمیشہ یہی نصیحت رہی تھی کہ وہ شوہر اور ساس کی فرمانبرداری اور دلجوئی کرے۔ عام طور جیسے والدین کہتے ہیں کہ تمہار اصلی گھر تو تمہارے شوہر کا گھر ہے ۔ ہر حال میں نبھانا ضروری ہے ۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے ملی معلومات کے مطابق منوّ نکہت کو کوکرکٹ بیٹ سے اور بیلٹ جانوروں کی طرح پیٹتا تھا ۔چیخ وپکار اور آہ و بکا سن کر کئی مرتبہ پڑوس کے لوگوں نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو اس نے انہیں درمیان میں نہ آنے اور خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ ابتداء ہی سے عبدلغفور عرف مناّ ایک مجرمانہ پس منظر کا حامل شخص ہے۔ اس پر مبینہ طور پر کئی معلملات درج ہیں۔ آوارہ گردی اور غنڈہ گردی کے حوالے سے یہ کافی بدنام ہے۔ اسکے بھائی بھی اس سے اکثر نالاں رہا کرتے تھے۔ لیکن اسے والدہ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔12 مئی 2011 بروز جمعرات شام سات بجے گھر آنے کے عبدالغفور عرف منوّ نے نکہت سے پھر پیسوں کا مطالبہ کیا اورکہا کہ آج تیرا قصہ ختم کردوں گا۔ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا کچھ بھی ہوا تو میری ماں مجھے چھڑا لیگی۔ اسکے بعد کرکٹ بیاٹ سے اتنی بری طرح بری طرح پیٹاکہ کئی ہڈیاں تڑخ گئیں اور لہولہان ہوکر وہ بیہوش ہوگئی ۔ مبینہ طور پر،ہوش میں آنے کے بعد درد کی تاب نہ لا کر اس نے کیروسین انڈیل کر خود کو آگ لگالی۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔ پڑوسیوں اور راہگیروں نے چینخ و پکار سن کراپانی سے آگ بجھائی۔ اس دوران وہ ۸۰ فیصد جل چکی تھی ۔ اس دوران کافی بھیڑ جمع ہوگئی اورعبدالغفور وہاں سے فرار ہوگیا۔ دو گھنٹے بعدساس اور دیور آکر اسے نیم مردہ حالت میں شہر کے بسویشور اسپتال لے گئے۔ جہاں بتایا گیا کہ اسٹو کی ٹنکی پھٹنے سے لڑکی جل گئی۔ اس واقعہ کی اطلاع لڑکی کے والدین کو نہیں دی گئی۔ معملہ کو دبانے کے لئے ان لوگوں نے کچھ رسوخ رکھنے والے اشخاص کی مدد سے یہ مبینہ بیان لڑکی کی طرف سے درج کرایا کہ وہ اسٹو پھٹنے کی وجہ سے جلی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ لڑکی کا چہرہ صد فیصد جل چکا تھا ، جو اپنا چہرا ہلا بھی نہیں سکتی وہ کس طرح سے بیان دے سکتی تھی۔ اسپتال والوں نے جب لڑکی کے ولدین متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ یہاں نہیں ہمناباد میں رہتے ہیں اوربعد میں آجائیں گے۔ لڑکی کی حالت جب بہت خراب ہوئی بسویشور اسپتال والوں نے اسے مہاراشٹر کے میرج برن اسپتال میں داخل کرنے کا مشورہ دیا۔ میرج روانگی کے وقت انہوں نے عبدالغفور کے چھوٹے بھائی نے لڑکی کے والد شبیر احمد کو اظلاع اطلاع اورکہا کہ اسٹو پھٹنے سے آپکی لڑکی جلی ہے اور اسے میرج لے کر جا رہے ہیں۔ لڑکی کی والدہ اور بہن میرج پہنچے ۔لڑکی کا بھائی جو ممبئی میں سافٹ وئیر انجنئیر ہے بھی وہاں پہنچا۔ چار روز بعد جب وہ بولنے کے قابل ہوئی تو اس نے سارا واقعہ بیان کیا۔ ساس اور شوہر نے لڑکی کو دھمکی دی کہ اگر اس نے ان کے خلاف بیان دیا تو اسکے تین سالہ بچہ کو بھی جلا دیا جائیگااور اسکے والدین کو بھی قتل کردیں گے۔ میرج پولس کے سامنے لڑکی نے بمشکل یہ بیان دیا کہ شوہر کے ظلم و تشدد کی تاب نہ لاکر اس نے خود کو آگ لگا لی۔ 27 مئی کو حالت مزید خراب ہونے پر اسے ممبئی کے اسپتال شفٹ کیا گیا۔ 28 مئی بروز ہفتہ شام ساڑھے سات بجے اسکا انتقال ہوگیا۔ اتوار 20 مئی کو نکہت کی نعش کو گلبرگہ لایا گیا۔قمر کالونی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ گو بیان کے مطابق اس نے تشدد سے تنگ آکر خود کو جلایا ۔ لیکن آثار و قرائن سے تو یہ لگتا ہے کہ عمداً اسے جلایا گیا ہے۔ بہر حال اسکا پتہ لگانا پولس کا کام ہے کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے چند لوگ ’’مفاہمتcompomise ‘‘ کرانے کی کوشش کرہے ہیں تاکہ پولس سے شوہر اور سسرالی رشتہ داروں کو بچایا جا سکے ۔ اس سلسلے میں جب یو این این نے لڑکی کے والد جناب شبیر احمد سے بات کی تو انہوں کہا کہ جو لوگ مفاہمت کرنے کے نام پر ظالموں کو بچانا چاہتے ہیں اگر انکی اپنی بیٹی جل جاتی تو کیا وہ یہی کرتے۔ انہوں نے نمناک آنکھوں سے کہا کہ’’ دنیا کی عدالت میں انصاف ملے نہ ملے اللہ کی عدالت سے ضرور انصاف ملے گا۔ اللہ مظلوم کی پکار ضرور سنے گا۔‘‘ بتایا جاتا ہے کہ سپرنتنڈنٹ آف پولس کے حکم پر پولس نے معملہ درج کرلیا ہے۔ دریں اثناء کسی وکیل سے ربط کے بعد عبدالغفور، اسکی والدہ اور بھائی فرار بتائے جاتے ہیں۔

ayazfreelance@indiatimes.com
Tel:09845238812

No comments:

Related Posts with Thumbnails
لنترانی ڈاٹ کام اردو میں تعلیمی ،علمی و ادبی ، سماجی اور ثقافتی ویب سائٹ ہے ۔اس میں کسی بھی تنازعہ کی صورت میں قانونی چارہ جوئی پنویل میں ہوگی۔ای ۔میل کے ذریعے ملنے والی پوسٹ ( مواد /تخلیقات ) کے لۓ موڈریٹر یا ایڈیٹر کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اگر کسی بھی پوسٹ سے کسی کی دل آزاری ہو یا کوئی فحش بات ہوتو موڈریٹر یا ایڈیٹر کو فون سے یا میل کے ذریعے آگاہ کریں ۔24 گھنٹے کے اندر وہ پوسٹ ہٹادی جاۓ گی ۔فون نمبر 9222176287اور ای میل آئ ڈی ہے E-Mail - munawwar.sultana@gmail.com

  © आयुषवेद भड़ास by Lantrani.com 2009

Back to TOP