اردو اخبارات کی بھی کہانی عجیب ہے۔ ہر اردو اخبار کے اپنے جداگانہ دعوے ہیں سب کی اپنی جداگانہ دلیلیں ہیں کہ کون کس قدر قوم کا بہی خواہ ہے۔بلکہ اس سے بھی دو قدم آگے جا کر انکا یہ دعویٰ کہ انکے علاوہ کوئی دوسرا قوم مسلم کا نقیب و ترجمان ہو ہی نہیں سکتا ۔میری عمر اس وقت بیالیس سال ہے اور کم وبیش بارہ سال کی عمر سے اردو اخبارات کا مطالعہ کر رہا ہوں ۔یعنی جب مجھے اردو پڑھنا آگیا تب سے ہی اخبار بینی کا نشہ سر چڑھ گیا جس سے آج تک مخمور ہوں۔کیا کروں کچھ عجیب ہی نشہ ہے یہ اترتا ہی نہیں ۔اور جب سے ہی اردو اخبارات کی اپنی لاف گزاف دعووؤں سے سمع خراشی کروا رہا ہوں ۔ذیل میں میں چند اردو اخبارات کے حالات کو نام نہ لکھ کر اشاروں میں پیش کر رہاہوں۔اگر اس میں کچھ بھی غلط ہو تو ہمارا میل باکس حاضر ہے۔اس پر آپ اپنے مثبت یا منفی احساسات بھیج سکتے ہیں ۔
آج سے پچیس سال قبل کلکتہ سے ایک اخبار بڑے بلند بانگ دعووں کے ساتھ اردو صحافت کے افق پر طلوع ہواغالباً یہ ۱۹۸۲ ء کی بات ہے ۔اس اخبار نے اپنے ایک اداریہ کے ذریعہ اپنی پالسی کی وضاحت کی تھی اور اس کا دعویٰ تھا کہ وہ کبھی بھی ملت کی ترجمانی سے دستبردار نہیں ہوگا ،خواہ اس راہ میں اسے کتنے ہی امتحانوں سے کیوں نہ گزرنا پڑے اور کیسی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔لیکن صرف چار پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ہی میں نے اس کی پالسی میں واضح تبدیلی محسوس کی۔عام طور پر جو اردو اخبارات تصور دیتے ہیں اس میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ انہیں سرکاری ،نیم سرکاری اور پرئیویٹ کمپنیوں کے اشتہارات نہیں دئے جاتے جو اخبارات کی زندگی ہوتے ہیں ۔بجا سوچ ہے لیکن بھائی یہ بلند وبانگ دعوے کی کیا ضرورت ہے کہ ’’ہم اخبار تو بند کردیں گے لیکن قوم کی غیرت کا سودا نہیں کریں گے‘‘۔ یہ بات اپنی جگہ پر سو فی صد درست ہے آج کے دور میں اخبار نکالنا اور اسے بغیر آلودگی کے کامیابی کے ساتھ چلانا کار محال ہی ہے۔اس کا احساس قوم کو اور قوم کے سچے ہمدرد کو ہونا چاہیئے کہ اخبار کی کیا ضروریات ہیں اور کس طرح اس آلائش سے بچاکرایک مشن ایک تحریک میں بدلا جائے۔کیا مسلمانوں کا کوئی ایسا اخبار نہیں نکل سکتا جو با لکل بے باک اور بے لوث ہو۔جو باہر کے دشمنوں کی خبر لینے سے پہلے اپنے اندر چھپے آستین کے سانپوں کی خبر لے۔میرے خیال میں اس طرح کے اخبار کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ کیوں کہ آج اردو اخباروں کی پہچان قوم کے سوداگر کی حیثیت سے ہے ۔ مسلمانوں کے پاس نہ تو سرمایہ کی کمی ہے نہ ہی تعلیمیافتہ پروفیشنلس کی کمی ہے، کمی ہے تو صرف عقل کے ساتھ قوم کے لئے بے لوث خدمت کے جذبہ کی۔نیچے میں اپنے دعووں کی صداقت میں چند حقائق پیش کر رہا ہوں۔جس سے قارئین کو اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی کہ یہ نام نہاد اردو کے اخبارات اپنے دعووں میں کتنے سچے ہیں ۔جس طرح کے دعوے ہمارے اسلاف نے کیا اور اسے کما حقہ نبھایا۔ذرا ہم پیچھے کی جانب مڑ کر تائرانہ نظر ان پر انکی بے مثال قربانیوں پر ڈال لیں۔لیکن ہمیں فرصت ہی کدھر ہے،ہم صرف جھوٹے دعوے کر کے قوم کو گمراہ کرکے اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانا چاہتے ہیں ۔بہر حال یہ تو آج کے دور کے اردو اخبارات کی ایک خامی رہی اب ایک نظر ادھر بھی ڈالئے کہ اردو اخباروں میں آپسی چپقلش اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی اردو اخبار نو آموز اخبار کے پیچھے پڑ جاتا ہے،اور اسکی چھوٹی چھوٹی خامیوں کو بھی ایک بڑے مسئلے کے طور پر پیش کرتا ہے۔بسا اوقات تو انکی خوبیوں کو بھی بہت ہی مہیب غلطی بنا کر پیش کرتا ہے اور باور یہ کراتا ہے کہ صرف وہی قوم کا واحد نمائندہ ہے اور اسے جتنی فکر ہے قوم کے مستقبل کی کسی اور کو نہیں ہے۔چنانچہ دہلی سے نکلنے والے ایک ہفتہ روزہ کا مقابلہ ایک دیگر ہفتہ روزہ سے ہوا تو برسوں ایک دوسرے کی خامیاں گنانے اور اپنے آپ کو قوم کا صحیح نمائندہ جتانے کی جنگ جاری رہی۔ یہ بات بھی دھیان دینے کے قابل ہے کہ ان دونوں ہفتہ روزہ کے مالک و ایڈیٹروں نے اسی بہا نے اقتدار کے مزے لئے اس میں سے ایک صاحب تو اب بھی کسی ملک کی سفارت پر معمور ہیں اس سے قبل راجیہ سبھا کے مزے بھی لئے، انہوں نے اپنے کیریئر کی شروعات دہلی کے مشہورہوٹل دستر خوان کریم کے ویٹر کی حیثیت سے کیاتھا ،اس پر مشہور صحافیہ تولین سنگھ نے بھی چار سال قبل ایک کالم ’’ویٹر سے صحافی تک‘‘ تحریر کیا تھا۔دوسرے جنکا ہفتہ روزہ آج بھی جاری ہے،یہ صاحب بھی تقریباً سبھی بڑی سیاسی پارٹیوں میں رہے اور پارلیمنٹ کی ممبری بھی حاصل کی۔مذکورہ ایڈیٹر اور اس ہفتہ روزہ کے مالک نے اتفاقی طور پر یا کانگریس کی مسلم دشمنی کہہ لیجئے کے طفیل کسی خالصتانی علٰحیدگی پسند لیڈر کے انٹر ویو کی اشاعت کے جرم میں تہاڑ جیل میں کچھ روز بتائے ،جو انکے لئے منافع کا سودا بن گیا۔ان کے بارے یہ بات بھی مشہور ہوئی تھی کہ ایک نجی محفل میں کسی نے کہہ دیا کہ صاحب آپ تو قوم کے بہت ہی غمخوار ہیں،جس پر انہوں برجستہ جواب دیاکہ بھائی یہ ہمارا کاروبار ہے۔ اسی طرح اوپرکلکتہ کے جس اخبار کا تزکرہ ہوا ہے اس کی اشاعت کے بعدہی پہلے سے موجود اخبار (جس کے ایڈیٹر خیر سے اب راجیہ سبھا کے بھی مزے لوٹ رہے ہیں اور کئی سال سے اخبار بند رہنے کے بعد کچھ لوگوں نے ملکر اسے خرید لیا اور اس طرح اسکی اشاعت پھر سے ممکن ہوسکی)نے اسکی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور کئی سال تک دونوں اخباروں میں لفظی جنگ کا سلسلہ چلتا رہا۔اس دوران دونوں ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے رہے اور خامی تو خامی ٹھہری خوبیوں کو بھی بہت بڑی برائی بنا کر ایک دوسرے سے اپنی بھڑاس نکالتے رہے۔
ممبئی سے بھی کئی اردو اخبار اپنا پنا مقام بنائے ہوئے ہیں لیکن اردو اخباروں کی وہی دیرینہ چپقلش یہاں بھی جاری ہے۔ایک ملٹی ایڈیشن اردو اخبار کے بارے میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ امریکہ اور سرائیل کے اشارے پر کام کر رہا ہے ۔اس اخبار نے ابھی حال میں اشاعت کا اپنا پانچ سال پورا کیا ہے۔دوسرا ایک اور ایک اور اردو اخبار جسنے کچھ روز قبل اشاعت کے تیسرے سال میں قدم رکھا ہے،صحافت کے میدان میں قدرے بہتر کہہ سکتے ہیں لیکن یہ اخبار بھی کمیونسٹوں کو پروموٹ کرنے میں لگا ہوا ہے۔بہر حال اتنا تو ہے کہ اس نے اب تک خم ٹھونک کر ملت کی ترجمانی کا دعویٰ نہیں کیا ہے،یعنی پوری طرح سے منافقت میں شامل نہیں ہے۔لیکن اسے مسلمانوں کی پرانی روایتوں سے بے چینی رہتی ہے۔اور مغربی دنیا اور اسکے کلچر کی نقابت کے فرائض انجام دیتا ہے۔جس ملٹی ایڈیشن کا میں نے ذکر کیا جسے ممبئی میں پانچ سال ہوئے ہیں اسکے ممبئی کے مدیر کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگائیے اس ملٹی ایڈیشن کے ایک سینیئر ممبئی آئے انہوں نے مدیر صاحب سے کہا کہ رپورٹروں اور اسٹنگروں کی لسٹ دیجئے انکو مستقل کردیا جائے،آپ کویہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان مدیر صاحب نے انتہائی سطحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سینیئر سے کہا کہ ارے صاحب رہنے دیں انکے ۔۔۔۔۔پر چربی چڑھ جائے گی۔آپ خالی جگہ کا مطلب سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہوگا۔یہ لوگ ہیں قوم کے ترجمان جن کی سوچ اور زبان کا حال یہ ہے۔
تقریباً چھ سات ماہ قبل tv9 پر مہاراشٹر وقف بورڈ کی بد عنوانیوں کی رپورٹ کئی دن تک آتی رہی لیکن مجال ہے جو کسی اردو اخبار نے اس کا نوٹس لیا ہو۔صرف ایک اخبار نے تھوڑی سی جرا ت دکھائی لیکن ان دونوں اخباروں نے تو بالکل ان خبروں کا بائکاٹ ہی کردیا ،اور وہ ایسا کیوں نہیں کریں گے ،میری جانکاری کے مطابق ایک اخبار (جس نے اپنا ابھی پچاس سالہ جشن زریں منایا ہے)میں انکا کچھ شیئر ہے تو ملٹی ایڈیشن کے ممبئی کے مدیر کو ایک فلیٹ دیا ہے۔پھر بھلا کیوں کوئی اخبار وزیر اوقاف کو آئینہ دکھانے کی جرات کریگا۔اسی طرح ممبئی میں لاتعداد قوم کے نام پر سیاست کے ایوانوں اور پولس کے تھانوں تک میں دلالی کرنے والے ہر گلی ہر محلہ میں ایمان فروش ضمیر فروش قائد اور صحافی دستیاب ہیں۔
مجھے خاص طور پر ممبئی کے اس روزنامہ سے متعلق بات کرنا تھی جس نے اپنا جشن زریں ممبئی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں منایاہے۔ اور اس کا عنوان ’’قوم کی ترجمانی کے پچاس سال‘‘ اگر اس کے بجائے وہ یہ عنوان رکھتے ’’اردو صحافت میں کامیابی کے پچاس سال‘‘ تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوتا ۔لیکن انہوں نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کے لئے ایک ہمالیائی جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔اس کے بر عکس آپ انکے دعوے کو تبدیل کرکے اس طرح کر سکتے ہیں ’’ سیاست کے ایوانوں میں قوم کی دلالی کے پچاس سال‘‘ اور یہ سچائی کے اتنا ہی قریب ہے۔جیسے دن میں سورج کی موجودگی۔باخبر اور بیدار قارئین اس سے سو فی صد اتفاق کریں گے۔در اصل اپنی ایک تو سادہ لوح ہے اور دوسرے ناخواندگی کی شکار ہے۔جس کی وجہ سے وہ اس طرح کے جذباتی استحصال اور جذباتی بلیک میلنگ کو سمجھ نہیں پاتے۔اردو اخباروں کے بارے میں چند اور دلچسپ حقائق بعد میں تحریر کرونگا اور کوشش کرون گا کہ شواہد کی روشنی میں بات کی جائے۔لیکن جب تک قوم کے سنجیدہ طبقہ کو یہ ضرور سو چنا چاہئے کہ کیا مسلمانوں کا کوئی ایسا اخبار نہیں نکل سکتا جو اخبار ہو۔تلبیس حق وباطل کا ملغوبہ نہ ہو۔
Wednesday, June 01, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
2 comments:
Bahut khoob hai. Fikr angez hai.
پرویز بھائی مضمون بہت خوب اور فکر انگیز ہے۔
Post a Comment