گیا ہے آج بھی قاصد انہیں بلانے کو
ہیں انتظار کی گھڑیاں تو دل جلانے کو
یہ مار دھاڑ یہ لشکر کشی یہ چھین جھپٹ
خطائیں اپنی ہیں کیا دوش دیں\ زمانے کو
پرانے وقت کی تہذیب پہلے آپ جناب
کہاں پہ دفن کیا تم نے اس خزانے کو
یہ دور دورِ یزیدی دکھائی دیتا ہے
حسینیت کی ضرورت ہے اس زمانے کو
اداس اداس چمن ہے بجھی بجھی کلیاں
نظر کسی کی لگی میرے آشیانے کو
امید امید ہے پوری ہو یا نہ پوری ہو
کوئی تو آئیگا انسانیت بچانے کو
نہ طول دو کہ کہاں تک سناؤ گے قصے
یہیں پہ ختم کرو آج اس فسانے کو
یہ دور دورِ قیامت سے کم نہیں مرزا
شریف لوگ کہاں جائیں سر چھپانے کو
Tuesday, June 07, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment