Friday, May 27, 2011
چھپکلیوں کا جلوس....... ایک فرضی کتاب پر تبصرہ
اس وقت ہند و پاک میں اور اسکے ساتھ ساتھ ادب کے نئے افق یعنی امریکہ، انگلینڈ اور مشرقی وسطی وغیرہ میں جتنی تخلیقات {میں اس فکری بد ہضمی کو تخلیقات ھی کہنے پر مجبور ھوں کیونکھ ھر شاعر یا ادیب کیلئے اسکی ہر تحریر اسی طرح تخلیق کہلانے کی مستحق ھے جسطرح کسی کالے بھجنگ کو اپنے بیٹے کا نام چاند رکھنے کا رکھنے کا حق ھے۔ } شائع ھورھی ھیں ان کی رفتار وھی ھے جو تیل میں ڈوبے امیر عرب ممالک میں طلاق کی رفتار ھے یعنی ھر پندرہ منٹ میں ایک ۔ ان میں سے نوے فیصد کتابوں کا جائزہ لیا جائے تو اعجاز شاھین کا یھ تبصرہ سمجھنے میں آسانی ھوجائیگی۔ اس مضمون کی خصوصیت یہ ھیکھ انہوں نے صرف آہٹ ٹورانٹوی ھی کو بے نقاب نہیں کیا ہے بلکہ ان کے مجموعہ کلام چپکلیوں کے جلوس پر تبصرہ کرنے والے ان تمام لفاظی کے استادوں کو بے نقاب کیا ہے جو چپکلیوں کے اندر سے بھی کوئی نہ کوئی استعارہ، علامت یا تشبیہہ ڈھونڈہ نکالتے ھیں۔ اور تخلیق کار کے تعارف کی دلالی میں کبھی میروغالب تو کبھی ناتشے، شیکسپیر اور ٹالسٹاے کی قبریں کھود ڈالتے ہیں۔ عہد حاضر میں شائع ہونے والی بے شمار ادبی کتابوں پر چپکلیوں کا جلوس ایک بہترین تبصرہ ھے جو کسی بھی اخبار یا رسالے میں نام بدل کر یعنی چپکلیوں کا جلوس کی جگہ جو بھی کتاب برائے تبصرہ ھے اور آہٹ ٹورانٹوی کی جگہ جو بھی شاعر یا ادیب کا نام ہے وہ لکھ کر شائع کیاجاسکتاھے۔ بہرحال مضمون ایک نشان-عبرت ہے۔ اسکو پڑھنے کے بعد اب میں نے اپنے انتخاب-کلام کو شائع کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا ہے۔ معاف کرنا ملتوی نہیں منسوخ کردیا ہے۔ اعجاز شاھین کی یھ تخلیق قابل مبارکباد ہے۔ اس مضمون کے بہانے انہوں نے چپکلی پر تحقیق بھی کرڈالی، کاش بے شمار یونیورسٹیوں میں بیٹھے وہ ڈاکٹر اور پروفیس حضرات جو اپنے چپکلیوں کے جلوس یونیورسٹی کے خرچے پر چھپواکر آھٹ ٹورانٹوی پر تبصرہ کرنے والے دانشوروں سے کہیں زیادہ گہرے دانشوروں سے تبصرے لکھوالیتے ھیں کاش ان تمام کی نظر اس مضمون پر پڑے اور کسی کو اعجاز شاھیں کو اتنے شاندار مضمون پر ڈاکٹریٹ دینے کی توفیق ہو۔ علیم خان فلکی - جد
Labels:
urdu blogging,
urdu book,
urdu literature
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment