This mail was in INPAGE and converted by www.lantrani.com
کتاب ’’دھوپ کا سایہ ‘‘ پرویز ؔ باغی صاحب کا دوسرا شعری مجموعہ ہے ،جس میں غزلوں کا انتخاب نہایت سلیقے سے کیا گیا ہے۔ بقول خودشاعراس مجموعہ کی اشاعت جناب فاروق سیّد مدیر ’’گل بو ٗٹے‘‘ کی مساعیِ جمیلہ کا نتیجہ ہے۔ یہ شعری مجموعہ ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب نئی نسل اپنے شعروادب کی تاریخ سے بڑی حد تک نابلد ہوتی جارہی ہے۔ اس سے قبل پرویزؔ صاحب کا ایک شعری مجموعہ ’’لمحے لمحے کا کرب‘‘ کے عنوان سے چوبیس سال قبل جناب ساحر شیوؔ ی کی کوششوں سے ’کوکن رائٹرز گلڈ‘ کے زیر اہتمام منظر عام پر آچکا ہے۔پرویزؔ باغی بڑے کم گو شاعر ہیں ۔’’ شاعری خیال آرائی کے بجائے جذبات و تجربات کی گہرائی سے پھوٹتی ہے۔ قوس قزح کے رنگ خواہ کتنے ہی خوب صورت اور دلکش ہوں ، وہ بہرحال لمحاتی زندگی لے کر آتے ہیں۔اس کے برعکس جو گہر سمندرکی گہرائی سے برآمدکیا جاتا ہے اس کی تابناکی میں کبھی کمی نہیں آتی‘‘۔پرویز ؔ باغی صاحب ہمیشہ واردات قلبی یعنی آپ بیتی، جگ بیتی اور ذاتی تجربات ومشاہدات کو بنیاد بنا کر ہی شعر کہتے ہیں بلکہ ’’ہر عبارت اور حکایت لہو سے لکھتے ‘‘ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قارئین کو اُن کے دوسرے مجموعہ کے لیے چوبیس برسوں پر محیط ایک طویل عرصہ تک انتظار کرنا پڑا۔
پرویزؔ صاحب کوکن کی سنگلاخ زمین اور مراٹھی زبان کے ماحول میں رہ کر بھی اپنی کاوشوں سے اُردوٗ شاعری کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔وہ تقریباً چالیس برسوں سے غزل کی زلفیں سنوارنے میں مصروف ہیں اور سوجھ بوجھ کے ساتھ فنّی نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے درست شعر کہنے کی روایت کی پاسداری کررہے ہیں۔ان کی عمر کے مدّ نظران کے کلام کا ذخیرہ کافی محدودہے۔ جب کہ آج شعراء حضرات قلیل مدّت میں آٹھ دس مجموعوں کے خالق اور کچھ صرف مالک بن جاتے ہیں۔مگر پرویزؔ صاحب نے اپنی طویل ادبی عمر میں ’حاصل مرے شعروں کا مِری کم سخنی ہے ‘ کے مصداق صرف دو مختصرشعری مجموعے ہی دیے ہیں۔
دھوپ دکھوں اور پریشانیوں کا استعارہ ہے جبکہ سایہ سُکھ اور راحتوں کی علامت۔برگدکا درخت گھنا سایہ دیتا ہے لیکن پرویزؔ صاحب طویل مدت سے دُکھوں کی جھُلساتی ہوئی دھو ٗپ برداشت کرتے آئے ہیں اور اپنوں کی بے رُخی کے سبب راحتوں کو نہ پاکر انھوں نے دُکھوں سے سمجھوتا کرلیا ہے۔اسی لیے اُن کے یہاں اس قسم کا اظہار ملتا ہے کہ
جب ہمیں برگدوں نے جھُلسایا
دھوپ سے مانگنا پڑا سایا
آج مسلم معاشرہ جس طرح چھوٹے چھوٹے طبقات اور مذہبی و جغرافیائی گروہوں میں بٹ کر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنا کراپنے آپ کو تفرقوں میں تقسیم کررہا ہے،اس جانب پرویزؔ صاحب نے بڑی خوبصورتی سے طنز کیا ہے ۔ ان اشعار میں دَورِ غلامی کے خاتمے کا اعلان بھی ہے اور امت مسلمہ کی اپنے رب سے نافرمانی کا گلہ بھی ۔ساتھ ہی قوم میں قائدانہ صلاحیت کے فقدان کا درد بھی۔دیکھیے
کوئی آقا کوئی غلام نہیں
آج ایسا کوئی نظام نہیں
اپنے اپنے گروہ کے قائد سب
کوئی بھی قوم کا امام نہیں
دَورِ حاضر میں منافقت عام ہے۔رشتوں کا تقدس مجروح ہوچکا ہے ۔جرأت، بے باکی اور حق گوئی ناپید ہوتی جارہی ہے۔ پرویزؔ باغی ایک حسّاس شاعر کی حیثیت سے ان باتوں پر بیزاری اور لوگوں کے قول و عمل کے تضاد پر برہمی کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔
اب میرے شہر میں کوئی سچ بولتا نہیں
شاید سبھی کے سامنے میری مثال ہے
اس شخص سے امیدِ رفاقت کیسی
جو خون کے رشتوں سے مُکر جاتا ہے
پرویزؔ صاحب اپنے اسلاف کی اقدار کے پاسبان ہیں۔ ان کے یہاں تہذیبی قدروں اور اقدارکی عظمتوں کے حوالے جا بہ جا دکھائی دیتے ہیں۔ وہ حالاتِ حاضرہ میں اقدار کی پامالی پر دل گرفتہ ہو کر عہدِ رفتہ کو یاد کرکے خون کے آنسو بہاتے ہیں اسی لیے اقدار کے پائمال ہونے کا نوحہ بھی ان کے اشعار میں جھلکتا ہے۔
قدروں کی پائمالی کے صدمے نہ سہہ سکے
کچھ وضع دار وقت سے پہلے ہی مَر گئے
یاد آتا ہے پرویزؔ جو عہدِ رفتہ
خنجر سا میرے دل میں اُتر جاتا ہے
کوئی بھی خوش نہیں ہے نئے دَور سے یہاں
سب چاہتے ہیں پچھلا زمانہ اُتار دے
سارے عالم میں فسادات ، دنگوں اور نفرتوں کا دَور دَورہ ہے، انسان حیوانیت کابرہنہ رقص کرتا پھر رہا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بجا ہوگا کہ انسان وحشی جانوروں سے زیادہ وحشی پن کا مظاہرہ کرتا نظر آرہا ہے۔ اس نے حیوانوں کو بھی مات دے دی ہے۔درد مند دل رکھنے والے پرویزؔ صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں۔
حیوانوں کی خوں خواری کا کیا شکوہ
انسانوں کی خوں خواری دُکھ دیتی ہے
شاعر اگر حسّاس اور باشعور ہوتو اسے بہت سے پیش آئندہ حادثات و خطرات کی آگہی مل جاتی ہے۔ بہت سے اشعار ان کے اسی اِدراک اور وجدان کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔
پتہ نہیں یہ کتنے دن جی پائے
نئی صدی تو برسوں کی بیمار لگے
نہ جانے ٹوٹے گا کب قہر ، وقت کا یارو
جبینِ وقت پہ اب تک تو بَل نہیں کوئی
اور یہی احساس و شعور کبھی کبھی مستقبل کا آئینہ بن جاتا ہے۔
آج گر بُزدلی دکھائے گا
پھر کبھی سر اُٹھا نہ پائے گا
ہوائیں ہر طرف اعلان کرتی پھررہی ہیں
سمندر سے بچو لوگو ، بپھرنا چاہتا ہے
پرویز ؔ باغی صاحب کے لہجہ سے بغاوت کی چنگاریاں بھی پھوٹتی نظر آتی ہیں۔اگران کے شعر کو صرف اور صرف ان کی ذات تک محدود کرکے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنا ایک الگ منفرد مقام بنانے کے چکر میں روایت سے بھی بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔
بھیڑ کے ساتھ چلتا نہیں مَیں کبھی
اپنی عادت بدلتا نہیں مَیں کبھی
گلوبلائزیشن کے دَور میں دُنیا سمٹ کر مُٹھی میں آچکی ہے۔ دیکھیے کس طرح اس خیال کو پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی جنگ کی تباہ کاری سے عالم انسانیت کو پیش آنے والے نفسیاتی ضرر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
چھِڑی ہے جنگ کوسوں دوٗر لیکن
یہاں کے لوگ بھی سہمے ہوئے ہیں
مرد بحیثیت باپ،بیٹا ،شوہر ، بھائی وغیرہ رشتوں کی بناء پر اپنے اقرباء کے لیے زندگی بھر تگ و دو کرتا رہتا ہے۔ اسے اوروں کی فکر اپنی ذات کے لیے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔دیکھیے کس خوبی سے اس کا اظہار کیا ہے۔
زندگی کٹ گئی اوروں کے لیے
کم ہی آیا مِرے حصّے میں مَیں
عمر بھر اسی بات کا رونا رہا
رونے کی فرصت بہت کم دی مجھے
آج کے شعراء اور ادباء نقادوں کے بل بو ٗتے پر بلندیاں چھو ٗنے کی کوشش کرتے ہیں اور ادب میں مقام حاصل کرتے ہیں۔ یہاں بھی پرویزؔ باغی صاحب کی انانیت اور ان کا باغیانہ لہجہ اپنا اثر دکھاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ
اپنے بل پر بلندی کو چھوٗلیں گے ہم
کیا ضرورت ہے کوئی اُچھالے ہمیں
اِکّا دُکّا ہیں سخن ور وہ بھی چُپ
اب کہاں شورِ ادب ہے شہر میں
اپنی ناقدری و محرومی کا کرب درج ذیل اشعار میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسباب زندگی کی نامنصفانہ تقسیم اور بے ہنر لوگوں کی قدردانی اور ہنر مندوں کی ناقدری پر کڑھتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ہم سے قد میں وہ چھوٹے ہیں پرویزؔ
لوگ دیتے ہیں جن کے حوالے ہمیں
یا
کبھی کبھار یہ بادل بھی ظلم ڈھاتے ہیں
ادھر نہ برسے برسنا جدھر ضروری تھا
کتاب کے آخر میں نو اہم قطعات بھی شامل ہیں جو مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں۔جن میں سے دوسرا قطعہ حضور اکرم ﷺکی محبت سے سرشاری ،قلبی و روحانی خلوص اور جوش و جذبہ کا پتہ دیتا ہے ۔یہاں بطور نمونہ وہ قطعہ پیش ہے جس میں پرویزؔ باغی کی عقیدت کا والہانہ انداز ملتا ہے۔
کسی منصب کی تمنّا نہ کروں
کوئی دولت نہ خزینہ مانگوں
میں نے سوچا ہے یہی اے پرویزؔ
اپنے خالق سے مدینہ مانگوں
’’دھوپ کا سایہ‘‘ ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل ہے جس میں تین عنوان قائم کیے گئے ہیں اور ان عنوانات کے تحت غزلیں، قطعات اور اشعار درج ہیں۔پہلے عنوان کے تحت پچھہتّر غزلیں،دوسرے عنوان کے تحت نو قطعات اور تیسرے عنوان کے تحت باون اشعار شامل ہیں۔مجموعی طور پر کتاب بہت اچھی ہے۔ اس کی اشاعت سے اردو ادب میں یقیناً اضافہ ہوگا۔ کتاب میں کمپوزنگ کی غلطیاں قابل درگزر ہیں۔ گل بوٹے پبلی کیشنز نے اپنی روایتی نیک نامی کو برقرار رکھتے ہوئے صاف سُتھری طباعت نیز خوبصورت گردپوش کے ساتھ اس کو صوری و نظری اعتبار سے دیدہ زیب بنا دیا ہے۔امید ہے کہ پرویزؔ باغی کے اس شعری مجموعہ کی عوام و خواص میں خوب پذیرائی ہوگی اور اہل ذوق اسے خرید کر پڑھیں گے۔
خان نویدالحق انعام الحق
اسپیشل آفیسر فار اردو
مہاراشٹر راجیہ پاٹھیہ پستک نرمتی و ابھیاس کرم سنشودھن منڈل،
بال بھارتی، سینا پتی باپٹ روڈ، پونہ۔ ۰۰۴ ۴۱۱
موبائل : 9970782076
ای میل: khan18664@gmail.com
Friday, May 06, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment