مکرمی ۔
بعد از سلام مسنون
آپ نے وہ ہی لکھا جوکہ میرے دل میں تھا ۔
اردو پڑھنا ، لکھنا اور پھر بولنا ، یہ تین شعبہ جات ہیں ، جس میں عام اردو بات چیت کرنے والے گھرانے اور خصوصاً ان کی اولاد اس المیہ سے دوچار ہیں کہ اردو سن لیتے ہیں ،بول لیتے ہیں مگر لکھ اور پڑھ نہیں سکتے
اس لے ایسے گھرانے اس نصف سے نا آشنا ہیں ، وہ نصف جو اردو ادب ہے ، جس کو بولا اورسنا نہیں جاتا ، بلکہ لکھا اور پڑھا جاتا ہے ۔
اور اگر اردو کو زندہ رکھنا ہے تو اردو ادب کو عام اردو داں طبقہ تک پہنچانا ہے ۔
میں چونکہ اردو و عربی پڑھتا پڑھاتا ہوں اس لے اس المیہ کو بخوبی جانتا ہوں ۔
بر صغیر ہندوستان میں یہ بات توہے ،بلکہ پاکستان میں بھی میرےے کی رشتدار ہیں جو اس المیہ سے گزر رہے ہیں ، حالانکہ وہاں اردو کا چلن عام ہے۔
مشرق وسطی میں عربی کا ماحول ہے تو دو فایدے ملے کہ عربی بھی آگی نیز اردو رسم الخظ سے بھی واقف ہوگے۔ بلکہ ایسے بہت سارے ہیں جنہوں نے اردو نہ سکول و کالج میں پڑھی بلکہ عرب ماحول نے انہیں اردو و عربی بولنا ، لکھنا و پڑھنا سکھا دیا ۔
والسلام
خیر اندیش سعداللہ
No comments:
Post a Comment