دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائي گے ایسا لگتا ہے
کتنے دن کے پیاسے ہوں گے یاروں سوچو تو
شبنم کا قطرہ بھی جن کو دریا لگتا ہے
آنکھوں کو بھی لے ڈوبا یہ دل کا پاگل پن
آتے جاتے جو ملتا ہے تم سا لگتا ہے
اس بستی میں کون ہمارے آنسو پوچھے گا
جو ملتا ہے اس کا دامن بھیگا لگتا ہے
دنیا بھر کی یادیں ہم سے ملنے آتی ہے
شام ڈھلے اس سونے گھر میں میلہ لگتا ہے
کس کو پتھر ماروں قیصر کون پرایا ہے
شیش محل میں اک اک چہرا ، اپنا لگتا ہے
Wednesday, June 01, 2011
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 comment:
مرحوم قیصرالجعفری صاحب کی ایک یادگار غزلپھر سے سامنے لانے کے لۓ آپ کا شکریہ۔
Post a Comment