Monday, May 30, 2011
Sunday, May 29, 2011
اردو پڑھنا ، لکھنا اور پھر بولنا
اُردو زباں
Saturday, May 28, 2011
چند اشعار برائے تنقید
اک نظر کرم تیری ادھر کب تلک ہوگی
گھنگور اندھیرا ہے سحر کب تلک ہوگی
ہر سمت ہیں طوفان حوادث ہمیں گھیرے
اس تلخ حقیقت سے مفر کب تلک ہوگی
اس شور قیامت میں حقیقت کا بتانا
بازی ہے کڑی ہم سے یہ سر کب تلک ہوگی
جاتی ہے صدا عرش تلک سنتے ہیں مرزا
مظلوم کی آہوں کی خبر کب تلک ہوگی
سوچتا ہوں كہ ميں بهي ليڈر بن جاؤں
ويسے بهى پرديس ميں ايک عرصہ گزاردينے كے بعد جب ميں اپنے وطن واپس جاؤں گا تو وہاں كچه تو مصروفيت هونى چاهئے اور ليڈرشپ سے زياده اور اچها كام كيا ہوسكتا ہے، نہ ہنگ لگے نہ پهٹكري ، مفت ميں ليڈر بن سكتے هيں . ليڈرى كرتے ہوئے ميں اپنے آپ كو مصروف تو ركهـ سكوں گا ، ورنہ گهر پر دن تمام بيٹهے بيگم كى صورت ديكهتے ديكهتے، ان كى جهوٹى تعريف كرتے، ان كے ناز نخرے سہتے اور گھر كے تمام كام كرتے ميرى زندگى كے آخرى ايام تو ايسے ہى بيكار ميں گزر جائيں گے اور ميں بروز حشر خدا كو كيا صورت دكهاؤں گا جب وه سوال كرے گا كہ تم دنيا ميں اپنے بهائيوں كى كچهـ خدمت كئے بهى تهے يا نہیں ِ؟
ايک راز كى بات بتاؤں ، كسى سے كہنا نہيں . نہ تو مجهے سياست سے دلچسپى ہے اور نہ ہی سماجى خدمات سے. ميں سچ كهرہا ہوں. مجهے تو اپنے حلقہ كے ايم ايل اے كا نام تک نہيں معلوم ِ معلوم ہو بهى تو كيسے ، ميں خود يہاں پرديس ميں معاش و روزگار كي الجهنوں ميں پهنسا هوا هوں . مجهے تو بس ايسے ہى بيٹهے بيٹهے خيالات آتے رہتے ہيں، ميرے فيملى ڈاكٹر نے اس بيمارى كا كچه اچها سا نام بتايا تها ميں بهول رها ہوں ، كبهي تو ميں شاعر بن جاتا هوں تو كبهى اديب تو كبهي افسانہ نگار تو كبهى انسداد جہیز كميٹى كا ممبر ، اور ان دنوں مجھ پر ليڈر بننے كا بهوت سوار ہے . ميں جو مدرسہ ميں اپنى جماعت كا مانيٹر تک نهيں بن سكا اب ليڈر بننے كے خواب ديكهرہا هوں ِ ۔ زرا ميرى ہمت كى داد تو ديجئے.
مجهے ليڈر بننے كا خيال كبهى نہ آتا ليكن كروں تو كيا كروں ، ميں كيڑا اسپيشلسٹ هوں ۔جى ہاں ۔ مجھے سوائے اپنے تمام لوگوں ميں كيڑے نظر آتے ہیں. ميں آدمى كو ديكهكر ہی اس كے جسم ميں موجود تمام كيڑوں كے نام بتا سكنا هوں. سیاسی جماعتوں کے كيڑے گننے ميں تومیں نے کافی تحقيق کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں كہ آج کوئی ایسی پارٹی نہیں جو قوم کی خدمت کرسکے . سب سالوں سے ایسے ہى اپنا اور قوم کا وقت برباد کر رہے ہیں اور قوم کو تباہی اور بربادی کی طرف لئے جا رہے ہیں. اس لئے میں نے اپنی لنگوٹ جو میں كالج کے زمانے میں ورزش کرنے کے لئے استعمال کرتا تھا پرانے صندوق سے نکال کرپهر كس لى ہے اور لیڈری کے میدان میں کودنے کے لئے پورى تیاری میں ہوں تاكہ قوم کی خدمت کر سکوں.
مجھ میں خدمت خلق کا جذبہ پہلے نہیں تھا لیکن ان دنوں میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر اپنے اندر بھر رہا ہوں. جس کی وجہ سے بعض وقت بدہضمی بھی ہوجارہی ہے اور ہاضمے کے چورن کی ایک شیشی ہمیشہ میری جیب میں پڑى رہتی ہے. بیگم الگ ناراض رہتی ہیں كہ یہ کیا جذبہ نوش کئے جارہے ہو . خدا نہ خواستہ قوم کی خدمت کرتے کرتے تم اوپر چلے گئے تو میرا کیا ہوگا ?. ابھی مجھے تھوڑے دن اور سہاگن رہنا ہے تب تک كہ تم اور دو تین بلڈنگس اور پلاٹس میرے نام نہیں کردیتے . لیکن میرا فیصلہ اٹل ہے . پتھر کی لکیر ہے.
میں اپنی قوم کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں اور جلد از جلد قوم کی قسمت بدلنا چاہتا ہوں . ساحر لدھیانوی صاحب تووہ صبح كب آئيكى کہتے کہتے خود گزر گئے لیکن وہ صبح نہیں آئى . میں اس صبح کو کان سے پکڑ کر قوم کے سامنے لانا چاہتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں كہ دیکھو یہی وہ صبح ہے جس کا تمہیں انتظار تھا اس کے علاوہ میں اپنی قوم کے لئے بہت کچھ کام کرنا چاہتا ہوں جس کی تفصیل آپ کو میری پارٹی کے اجنڈے میں مل جائے گی
ان دنوں میں اپنی پارٹی کے نام اور رجسٹريشن وغیرہ کی ضروری کاروائیوں میں بہت مصروف ہوں . ووٹ کے بھیک کے کشکول کی تياري کے لئے مختلف كمپنيوںسے ٹینڈر بھی منگوایا ہوں بہرحال یہ سب میں اپنی قوم کی خدمت کرنے كے جذبہ كے تحت کر رہا ہوں. اس لئے مجھے آپ لوگوں کا ساتھ چاہیے
میں نے اپنی پارٹی کے لئے ایک گانا بھی تیّار کرلیا ہے آپ لوگ بھی سن لیجئے .
کس طرح بنتے ہیں لیڈر یہ بتادو یارو
گر سیاست کے ہمیں بھی تو سکھادو یارو
خدمت خلق کا جذبہ ہوں بسائے دل میں
کچھ نہیں تو مجھے لیڈر ہی بنادو یارو
آپ کا پيسہ نہیں ساتھ ہی کافی ہے مجھے
قیمتی ووٹوں کو مجھ پر سے لٹادو یارو
پل میں ہی قوم کی قسمت کو بدل کر رکھ دوں
راستے کی سب ہی دیواریں ہٹادو یارو
پارٹی کوئی بھی اب میرے مقابل نہ رہے
گر جو دینا ہے تو اتنی ہی دعا دو یارو
ان دنوں میں خود پردیس میں ہوں اور جب بھی میں انڈیا جاؤنگا اپنی پارٹی کا افتتاح کر کے لیڈر بن جاؤں گا . لیکن میں انڈیا كب جاؤں گا مجھے خود پتہ نہیں اس لئے كہ في الحال میں خود ایک لاکھ ريال جمع کرنے کے چکر میں ہوں اور جب بھی میرے پاس ایک لاکھ ريال جمع ہوجاینگے میں انڈیا جاکر لیڈر بن کر خدمت خلق کے کاموں مے مصروف ہوجاؤنگا.
تب تک کے لئے مجھے اجازت دیں لیکن براه مہربانی اپنا قیمتی ووٹ مجھے دینا نہ بھولیں.
الله حافظ – في امان الله
محمد زاهد علي
الرياض – سعودي عرب
Friday, May 27, 2011
چھپکلیوں کا جلوس....... ایک فرضی کتاب پر تبصرہ
وقت کا تقاضا
ذات برادری کی مردم شماری کا خیر مقدم کیا جارہا ہے ۔ اور پسماندہ طبقات کے مسلمانوں سے اپیل کی بارہی ہے کہ سنجیدہ فعالاور سرگرم کارکنوں اور سیاسی طور پر باشعور تعلیم یافتہ افراد کے تعاون سے تمام اعدادوشمار اور سماجی ، معاشی ، تعلیم امور کی تفصیلات جمع کرنے میں انتظامیہ کی مدد کریں۔اور اہلکاروں پر نگرانی رکھتے ہوۓفرقہ واریت اور تعصب کو مردم شماری کے عمل پر اثر انداز ہونے سے روکیں۔مستقبل میں پسماندہ اور مظلوم انسانوں کوسماجی انصاف مہیّا کرنے اور تعلیم اور روزگار کے معاملوں میں پسماندہ مسلمانوں کی ترقی اور بہبود کے لۓذات برادری پر مبنی مردم شماری سے بہت سی مشکلات اور دشواریوں کا خاتمہ ہوگا ۔اور مساوات قائم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔
Thursday, May 26, 2011
انگور اور شراب
مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تع
ینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔
اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟
شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟
کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟
شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟
شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔
کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟
شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔
کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!
ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔
کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟
مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔
Wednesday, May 25, 2011
پھل فروش کی ضبطِ فغاں (آہ! یہ ضبطِ فغاں غفلت کی خاموشی نہیں۔۔آگہی ہے یہ دلاسائی، فراموشی نہیں
Tuesday, May 24, 2011
ابن انشاء ۔۔۔۔۔پانی پت
پانی پت میں اس وقت تک صرف ایک لڑائی ہوئی تھی پانی پت والوں کا اصرار تھا ایک اور ہونی چاھئیے، چناچہ اکبر نے پہلی فرصت میں بہیروبنگاہ کے ساتھ ادھر کا رخ کیا، ادھر سے ہیموں بقال لشکر جرار لے کر آیا، اس کے ساتھ توپیں بھی تھیں اور ہاتھی بھی تھے، ایک سے ایک سفید گھوڑا ، گھسمان کا رن پڑا، ہیموں کی جمعیت زیادہ تھی، لیکن الکبری لشکر نے تابڑ توڑ حملے کرکے کھلبلی مچادی، بعض ہمدردوں نے اس کے جدی وطن سے پیغام بھجوایا کہ تم اور ہیموں دونوں یہاں تاشقند آئو، صلح کرائے دیتے ہیں، لیکن اکبر نہ مانا، ہیموں ایک ہاتھی کے ہودے میں بیٹھا روپے آنے پائی کاحساب لکھ رہاتھا کہ اس لڑائی کا مال غنیمت فروخت کرکے کس کاروبار میں پیسہ لگایا جائے، ناگہاں ایک تیر قضا کا پیغام لے کر اس کی آنکھ میں آن لگا اور وہ بے سدھ ہو کر گر گیا، بقال کو ہم تاریخ کا پہلا موشے دایان کہہ سکتے ہیں۔
اردو مر کز میں فوزیہ خان کا استقبالیہ
Sunday, May 22, 2011
واسکوڈی گاما کا عرب معلم؟
اخلاق احمدقادری
آج اہل یورپ بضد ہیں کہ شرق وغرب کی صحیح ومستند تاریخ وہی ہے جو حکماءمغرب نے لکھی ہے۔ مگر یہ دعویٰ کرنے والے مغربی دانش ور ہمیں یہ کبھی نہیں بتاتے کہ خود اہل مغرب کا بابائے سائنس راجر بیکن بھی عربوں کاشاگرد تھا۔ وہ خود اپنے شاگردوں کو تلقین کیا کرتا تھاکہ اگر صحیح علم حاصل کرنا ہے تو عربی پڑھنا سیکھو۔ مورخین مغرب یونانیوں کو سرچشمہ علوم بتاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ اُن کی تصنیفات چھ سو برس تک اسکندریہ، ایتھنز اور قسطنطنیہ کی بوسیدہ عمارات میں مقفل پڑی رہیں او ربالآخر انہیں ان خرابوں سے مسلمانوں ہی نے نکالا، اُن کے عربی تراجم کئے۔ یہی تراجم نشاتہ ثانیہ میں اہل یورپ تک پہنچے اور اُنکے لئے مشعل راہ بنے۔ آج تاریخ کا طالب علم اگر غور کرے تو اُسے باآسانی وہ اثرات نظر آسکتے ہیںجو اسلامی تہذیب نے یورپ اور اہل یورپ پر ڈالے۔ آج مغربی زبانوں کے بہت سے الفاظ اپنی ہئیت اور ساختگی سے خود بتاتے ہیں کہ اُن کے اصل عربی مصادر ہیں۔ جیسے انگریزی زبان کا لفظ (مئير) عربی لفظ "معیار" سے مشتق ہے۔ انفلوانزا "انزال الانف" (ناک بہنا) سے۔ اسی طرح آج سبھی جانتے ہیں کہ انگریز لفظ (ايڈميرل) عربی "امیر البحر" کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ یہ سب عربی لفظ یورپی زبانوں تک کیسے پہنچے؟ عربی لفظوں کے اس کھلے سرقہ کی یہ بات ہمیں مغربی علماءتو بتائیں گے نہیں کیونکہ یہ سچائی بیان کرنے سے اُن کی تہذیبی اور تمدنی ترقی کی اصل قلعی کھل جائے گی۔ بالکل اسی طرح اصل کو چھپاتے ہوئے اہل مغرب کو لمبس اور واسکو ڈی گاما کو امریکہ اورہندوستان کا دریافت کنندہ مشہور کرتے ہیں لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ کولمبس نے بحر پیمائی کی تعلیم اسلامی درس گاہوں سے حاصل کی تھی اور اُس نے بحری مہمات کے دوران رہنمائی کیلئے جو کمپاس (قطب نما) استعمال کیا تھا وہ مسلمان جہاز رانوں کی ایجاد تھا۔ ١٤٩٨ءمیں جب واسکو ڈی گاما مشرقی افریقہ کے ساحل پر ملندی پہنچا تو اُسے وہاں ایک ایسا بحری ناخدا مل گیا جس نے اُسے براہ راست جنوبی ہند کے ساحل کالی کٹ تک پہنچا دیا۔ دوسری صورت میں اگر اُسے اس ناخدا کی رہنمائی میسر نہیں آتی تو وہ کبھی ساحل ہندوستان تک نہ پہنچ پاتا اور آج دنیا کی تاریخ کچھ اور ہوتی۔ یہ بحری ناخدا "شہاب الدین احمد ابن ماجد" تھا جو پندرھویں صدی عیسوی کا ایک عرب جہاز راں ہے اور اُس نے علم بحریات پر ایک ایسی کتاب تصنیف کی تھی جس میں بحر ہند، بحر قلزم، خلیج فارس، بحیرہ چین کے مغربی حصے اور مجمع الجزائر میں جہاز رانی کی ہدایات درج ہیں۔ واسکو ڈی گاما کی رہنمائی کرنے والا واقعہ مختصر طور پر اُس کے ملاحوں میں سے ایک نے اپنے روزنامچے میں درج کیا ہے۔ اس واقعہ کی مزید تفصیلات سولہویں صدی کے پرتگالی مورخوں نے بیان کی ہیں۔
یہ مورخ اس اسلامی بحری معلم کا نام Barros, Malemo Canaqua۔ "معلم کنکا" بتاتے ہیں یعنی ستاروں کی مدد سے جہاز رانی کے فن کا اُستاد۔ اس روایت کی تائید ایک عربی کتاب "البرق الیمانی فی الفتح العثمانی" سے ہوتی ہے جس میں پرتگالیوں کے اس مسلمان رہنما کا نام واضح طور پر احمد بن ماجد درج ہے۔ اس عربی کتاب کا مصنف قطب الدین النہروانی رقمطراز ہے کہ "پرتگالیوں کا (جو فرنگیوں کی ہی ایک شاخ ہیں) ممالک ہند میں داخلہ۔ اُن کا ایک گروہ سبتہ کی تنگنائے میں جہازوں میں سوار ہوتا تھا اور بحر ظلمات (بحر اوقیانوس) میں داخل ہو کر کوہ قمر کے پیچھے سے گزر کر افریقہ کے مشرقی ساحل تک پہنچ جاتا تھا۔ جب وہ تنگنائے میں سے ایک ایسے مقام سے گزرتا جس کی ایک جانب پہاڑ ہے تو اُن کے جہاز نہ سنبھلتے اور ٹوٹ جاتے کیونکہ یہاں ہر وقت تلاطم رہتاتھا۔ اس لئے فرنگی کبھی بھی صحیح وسالم بحر ہند میں داخل نہ ہو پاتے۔ تاآنکہ اُن کی ایک کشتی بحر ہندتک پہنچ گئی۔ یہ لوگ اس سمندر کے متعلق معلومات کی تلاش میں تھے کہ اُنہیں ایک مسلمان ماہر ملاح احمد بن ماجد کی رہنمائی حاصل ہو گئی۔ اس عرب معلم نے پرتگالی بیڑے کے امیر (واسکو ڈی گاما) کی رہنمائی اس وعدے پر کی تھی کہ اُسے اس کی خدمات کا بڑا بھاری معاوضہ دیا جائے گا۔ مغربی مورخ اُسے مے نوشی کے قصے کا غلط رنگ بھی دیتے ہیں۔ پرتگالی مورخین نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ واسکو ڈی گاما ملندی میں مقیم تھا۔ اُسے وہاں گجرات (ہند) کے کچھ ہندو ملے جن کے ہمراہ ایک مسلمان (مُور) بھی تھا۔ اس مسلمان نے واسکو ڈی گاما کو ہندوستان کے پورے ساحل کا نقشہ دکھایا جس میں دوائر نصف النہار اور خطوط متوازیہ بڑی تفصیل سے دکھائے گئے تھے۔واسکو ڈی گاما نے اِسے دیکھ کر یوں محسوس کیا جیسے اُسے ایک بہت بڑا خزانہ مل گیا ہو۔ اس خوف سے کہ کہیں وہ اس رہنما کو کھو نہ بیٹھے اُس نے جس قدر جلد ممکن ہو سکا جہاز میں سوار ہو کر (٢٤ اپریل ١٤٩٨ء)ارض ہند کی طرف سفر شروع کیا۔
ایک مغربی مصنف جیمز پرنسپ ابن ماجد کی علمی فوقیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "میں نے کوشش کی کہ ایک عربی قطب نما حاصل کروں مگر بہت سے جہازوں میں سے ایک میں بھی قطب نما نہ مل سکا۔ آخر ایک عرب دوست سید حسین سیدی کے توسط سے ایک کتاب میں ایک عربی قطب نما کی تصویر ملی۔ یہ کتاب "ماجد کتاب" کہلاتی تھی یعنی ابن ماجد کی لکھی ہوئی تھی۔میرا یہ دوست اُسے عربوں کا "جان ہملٹن" کہتا تھا۔ یہ کتاب ایک جہاز کے ناخدا کے پاس تھی جو اس کتاب کی رہنمائی کے بغیر سفر نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے اُس کتاب سے یہ تصور پھاڑ لی۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ بحری قطب نما بھی ابن ماجد ہی کی ایجاد ہے مگر وہ اپنی "کتاب الفوائد" میں اس بات کی تردید کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ یہ آلہ اُس کی ایجاد نہیں البتہ اُس نے اس آلے پر مقناطیس ضرور لگایا ہے۔ جس سے آلہ پہلے سے مغربی اور مصری جہاز رانوں کے استعمال میں آنے والے قطب نمائوں سے ہزار درجہ بہتر ہوگیا۔
ابن ماجد کو مورخین نے اڑتیس کتابوں کا مصنف بتایا ہے جن میں سے اکثر فلکیات، بحریات اور جہاز رانی کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ فرانسیسی مستشرق فیراں لکھتا ہے کہ جہاز رانی اور بحری علوم پر جدید انداز میں لکھنے والا پہلا مصنف ابن ماجد ہے۔ اگر عرض بلد کی ناگزیر غلطیوں کو نظرانداز کیا جائے تو آج بھی بادبانی جہاز رانی کیلئے اُس کی کتب بے مثال ہیں۔
{3455} نجم الدین اربکان۔ ایک شرارِ آرزو
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی | ||
نجم الدین اربکان۔ ایک شرارِ آرزو | ||
ابوزید |
بیسویں صدی کے آغاز کا ترکی۔ فکری جمود اور تیزی سے بدلتے ہوئے حالات۔ جنگ عظیم کی شکست، شکست خوردگی اور بے بسی۔سقوط خلافت کے بعد اپنے ماضی سے کٹی ہوئی بلکہ شرمندہ قیادت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیکولرزم کی گھٹاٹوپ تاریکیاں اور پھر اپنے مفادات اور خود غرضی پر اڑی ہوئی دوسرے درجے کی قیادت۔ تاریکیوں پرمزید تاریکیاں کہ ہاتھ کو ہاتھ تک سجھائی نہ دے۔ایک طرف اتاترک اور اس کے گماشتے جنہوں نے اسلام سے وابستہ ہر نقش کہن کو مٹانے میں پوری قوت صرف کردی اور ایسی چوکس نگرانی شروع کردی کہ اس خاکستر سے کوئی شرار آرزو اُٹھنے ہی نہ پائے اور اگر کہیں کوئی ٹمٹماہٹ نظر آئے تو فوراً بجھادی جائے۔ عربی قرآن پر پابندی، عربی اَذان پر پابندی، عربی رسم الخط کو تبدیل کر کے رومن رسم الخط اور مسجدوں میں تالے! سیکولرزم کی ایسی تاریک آندھی جس کی کوئی نظیر تاریخ عالم میں مشکل سے نظر آئے۔ ایسا لگتا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کی شکست اور خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد ترکی سے اسلام کا نام و نشان مٹادیا جائے گا۔ لیکن وہ اسلام ہی کیا جو مٹادیا جائے!
ایک وقت وہ بھی تھا کہ عدنان میندریس کو جو کہ 1950 سے 1960 تک ترکی کے وزیر اعظم تھے صرف اس لئے پھانسی دی گئی کیونکہ انہوں نے مسجدوں کے تالے کھلوائے اور عربی زبان کی اجازت دی۔حالانکہ عدنان میندریس کے "اسلام پسند" ہونے کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا۔انہوں نے ترکی کے عوام پر ذرا سا رحم کھا کر کچھ آزادی فراہم کی تھی۔ ایسے میں نجم الدین اربکان کی شخصیت خلافت عثمانیہ کے خاکستر میں ایک چنگاری بن کر ابھری۔1970 میں انہوں نے ملی نظام پارٹی کے نام سے ایک جماعت بنائی جس کو ترکی کی سیکولر قیادت ڈیڑھ سال سے زیادہ برداشت نہیں کر سکی۔ 1972 میں انہوں نے ملی سلامت پارٹی کے نام سے نئی پارٹی تشکیل دی۔ 1973 کے انتخابات میں اس پارٹی نے 11%ووٹ حاصل کر کے 48سیٹیں جیتی۔ اس ٹرم کے دوران 1974میں یہ پارٹی رپبلکن پیوپل پارٹی کے ساتھ حکومتی اتحاد میں بھی شامل رہی۔ 1980 کے فوجی بغاوت کے نتیجے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ساتھ سلامت پارٹی پر بھی پابندی لگائی گئی اور نجم الدین اربکان کو حوالہ زنداں بھی کیا گیا۔
ایک معتبر خبر کے مطابق جب نجم الدین اربکان کو قید کیا گیاتھا تو شیخ ابن بازؒ نے جنرل ضیاءالحق سے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے کچھ خفیہ قوتوں پر دباؤ ڈال کراربکان کی رہائی کا سامان کیا تھا(1)۔اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اُمت کے بیدار مغز علماءٹھیٹ قرآن و سنت کی تعلیم میں مشغول ہونے کے باوجود کس حد تک عصر حاضر کے تقاضوں سے واقف ہوتے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مجبوری اور اضطرار کی صورت میں سخت قسم کے باطل نظام کو توڑنے کے لئے کس حد تک رخصت کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
الغرض ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں 1987 میں سیاسی جماعتیں بنانے کی اجازت دی گئی تو رفاہ پارٹی کے نام سے ملی سلامت پارٹی کی تشکیل نو ہوئی جس کے روح رواں نجم الدین اربکان تھے۔ 1994کے بلدیاتی انتخابات میں رفاہ پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کر کے دین دشمن سیکولر قوتوں کو لرزہ بر اندام کردیا۔ اسی انتخاب میں رجب طیب اردگان استنبول کے میئر منتخب ہوئے جس کے نتیجے میں ان کو اپنی ایمانداری اور زبردست انتظامی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کا موقعہ ملاجس کی وجہ سے آخر کار ان کو وزارت عظمی کی کرسی نصیب ہوئی۔ یہ نجم الدین اربکان کی جہد پیہم ہی تھی کہ ترکی کی سیکولر قیادت نے 1995 میں الیکشن سے پہلے سیکولر اسلام کا شوشہ چھوڑا تا کہ کسی بھی طرح حقیقی اسلام کا راستہ روکا جاسکے۔ اگرچہ یہ اسلام کےخلاف ایک سازش ہی تھی لیکن کمالی قیادت کی طرف سے ایک طرح سے اعلان شکست بھی تھا۔ یہ گویا ان کی طرف سے اقرار نامہ تھا کہ ترکی کو اسلام سے مزید"بچانا" ان کے بس سے باہر ہے اس لئے ایک متبادل اسلام پیش خدمت ہے۔جون 1996 سے جون 1997 تک نجم الدین اربکان ایک سیاسی اتحاد کے نتیجے میں وزیر اعظم رہے۔ اس دوران انہوں نے یورپین یونین کے بجائے عرب ریاستوں سے مضبوط تعلقات استوار کئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں D-8 کے نام سے الجیریا سے لے کر ملیشا تک آٹھ مسلم ممالک کا معاشی اتحاد تشکیل دیا اس اتحاد میں پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں ۔ایک سال کے بعد ان کی حکومت کو کمال پاشا کے نظریات کے لئے خطرہ قرار دیا گیا جس کے دباؤ کے نتیجے میں انہیں استعفٰی دیناپڑا۔اپنے استعفے کے بعد انہوں نے فضیلت پارٹی کے نام سے ایک اور پارٹی قائم کی جس پر تین سال کے اندر پھر پابندی لگائی گئی۔ 2003 میں انہوں نے سعادت پارٹی کے نام سے ایک اور پارٹی قائم کی ۔
نجم الدین اربکان کی حکمت عملی اس بات پر مرتکز رہی کہ مسلم ممالک کے ساتھ قریبی تعاون قائم کئے جائیں،یورپی ملکوں کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات ہوں اور دنیاکو صیہونی سازشوں سے خبردار کیا جاتا رہے۔
سیکولر ترکی میں جس طرح باربار اسلام کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی وہ کسی نام نہاد سیکولر معیار پر بھی پورا نہیں اترتا۔بار بار پابندیوں سے ان کے راستے کو روکنے کی کوشش کرنا اور ہربار ایک نئے عزم و ولولے کے ساتھ پھر میدان میں آنا، ایسا لگتا ہے کہ اربکان کی پوری زندگی یقیں محکم اور عمل پیہم سے عبارت ہے۔ ایک طرف پے در پے پابندیاں اوردوسری طرف بغیر کسی تکان کے عمل پیہم، گویا کہ
نشیمن پر نشیمن اس قدر تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ خود بے زار ہوجائے
نجم الدین اربکان آج ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن جانے سے پہلے کمالی سیکولرزم کی اندھیریوں میں انہوں اتنے چراغ روشن کردیے کہ اب ترکی کے لئے واپسی کا عمل نا ممکن ہے۔اندھیروں کے چھٹنے کا یہ عمل یک رخی (irreversible) ہے۔ اور پھر موجودہ عالمی تناظر میں ترکی میں اسلام کی پیش قدمی یقینی ہے۔ ان کی جہد مسلسل نے سیکولرزم کی فرسودگی کا پردہ فاش کردیا۔ ہر صاحب نظر کو صاف نظر آرہاتھا کہ ایک طرف مسلسل زیادتی ہورہی ہے اور دوسری طرف صبر و استقامت کا ایک پہاڑکھڑا تھا۔ 27 فروری 2011 کو نجم الدین اربکان اس دنیاسے رخصت ہوگئے لیکن ان کے انتقال کی خبر پر تحریک خلافت کی سرزمین کے میڈیا نے جس طرح کی سرد مہری کا مظاہرہ کیا وہ رویہ کسی حد تک پاکستانی میڈیا کی بے حسی بلکہ بدنیتی کا پردہ چاک بھی کردیتا ہے۔
مثبت کام کی بُنیاد تو ڈال دو
۱۹۳۰ کے عشرے میں (یہ کمیونزم کے زمانے کا ذکر ہے) ایک طالبعلم نے جب مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وقت ہونے پر اُس نے نماز پڑھنے کی جگہ تلاش کرنا چاہی تو اُسے بتایا گیا کہ یونیورسٹی میں نماز پڑھنے کی جگہ تو نہیں ہے۔ ہاں مگر تہہ خانے میں بنے ہوئے ایک کمرے میں اگر کوئی چاہے تو وہاں جا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
طالبعلم یہ بات سوچتے ہوئے کہ دوسرے طالبعلم اور اساتذہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں، تہہ خانے کی طرف اُس کمرے کی تلاش میں چل پڑا۔
وہاں پہنچ کر اُس نے دیکھا کہ نماز کیلئے کمرے کے وسط میں ایک پھٹی پرانی چٹائی تو بچھی ہوئی ہے مگر کمرہ صفائی سے محروم اور کاٹھ کباڑ اور گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کا ایک ادنیٰ ملازم وہاں پہلے سے نماز پڑھنے کیلئے موجود ہے۔ طالبعلم نے اُس ملازم سے پوچھا کیا تم یہاں نماز پڑھو گے؟
ملازم نے جواب دیا، ہاں، اوپر موجود لوگوں میں سے کوئی بھی ادھر نماز پڑھنے کیلئے نہیں آتا اور نماز کیلئے اس کے علاوہ کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔
طالبعلم نے ملازم کی بات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا؛ مگر میں یہاں ہرگز نماز نہیں پڑھوں گا اور اوپر کی طرف سب لوگوں کو واضح دکھائی دینے والی مناسب سی جگہ کی تلاش میں چل پڑا۔ اور پھر اُس نے ایک جگہ کا انتخاب کر کے نہایت ہی عجیب حرکت کر ڈالی۔
اُس نے بلند آواز سے اذان کہی! پہلے تو سب لوگ اس عجیب حرکت پر حیرت زدہ ہوئے پھر انہوں نے ہنسنا اور قہقہے لگانا شروع کر دیئے۔ اُنگلیاں اُٹھا کر اس طالبعلم کو پاگل اور اُجڈ شمار کرنے لگے۔ مگر یہ طالبعلم تھا کہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر اذان پوری کہہ کر تھوڑی دیر کیلئے اُدھر ہی بیٹھ گیا۔ اُس کے بعد دوبارہ اُٹھ کر اقامت کہی اور اکیلے ہی نماز پڑھنا شروع کردی۔ اُسکی نماز میں محویت سے تو ایسا دکھائی تھا کہ گویا وہ اس دنیا میں تنہا ہی ہے اور اُسکے آس پاس کوئی بھی موجود نہیں۔
دوسرے دن پھر اُسی وقت پر آ کر اُس نے وہاں پھر بلند آواز سے اذان دی، خود ہی اقامت کہی اور خود ہی نماز پڑھ کر اپنی راہ لی۔ اور اس کے بعد تو یہ معمول ہی چل نکلا۔ ایک دن، دو دن، تین دن۔۔۔وہی صورتحال۔۔۔ پھر قہقہے لگانے والے لوگوں کیلئے اُس طالبعلم کا یہ دیوانہ پن کوئی نئی چیز نہ رہی اور آہستہ آہستہ قہقہوں کی آواز بھی کم سے کم ہوتی گئی۔ اسکے بعد پہلی تبدیلی کی ابتداء ہوئی۔ نیچے تہہ خانے میں نماز پڑھنے والے ملازم نے ہمت کر کے باہر اس جگہ پر اس طالبعلم کی اقتداء میں نماز پڑھ ڈالی۔ ایک ہفتے کے بعد یہاں نماز پڑھنے والے چار لوگ ہو چکے تھے۔ اگلے ہفتے ایک اُستاذ بھی آ کر اِن لوگوں میں شامل ہوگیا۔
یہ بات پھیلتے پھیلتے یونیورسٹی کے چاروں کونوں میں پہنچ گئی۔ پھر ایک دن چانسلر نے اس طالبعلم کو اپنے دفتر میں بلا لیا اور کہا: تمہاری یہ حرکت یونیورسٹی کے معیار سے میل نہیں کھاتی اور نہ ہی یہ کوئی مہذب منظر دکھائی دیتا ہے کہ تم یونیورسٹی ہال کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر اذانیں دو یا جماعت کراؤ۔ ہاں میں یہ کر سکتا ہوں کہ یہاں اس یونیورسٹی میں ایک کمرے کی چھوٹی سی صاف سُتھری مسجد بنوا دیتا ہوں، جس کا دل چاہے نماز کے وقت وہاں جا کر نماز پڑھ لیا کرے۔
اور اس طرح مصر کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں پہلی مسجد کی بنیاد پڑی۔ اور یہ سلسلہ یہاں پر رُکا نہیں، باقی کی یونیورسٹیوں کے طلباء کی بھی غیرت ایمانی جاگ اُٹھی اور ایگریکلچر یونیورسٹی کی مسجد کو بُنیاد بنا کر سب نے اپنے اپنے ہاں مسجدوں کی تعمیر کا مطالبہ کر ڈالا اور پھر ہر یونیورسٹی میں ایک مسجد بن گئی۔
اِس طالبعلم نے ایک مثبت مقصد کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور پھر اِس مثبت مقصد کے نتائج بھی بہت عظیم الشان نکلے۔ اور آج دن تک، خواہ یہ طالبعلم زندہ ہے یا فوت ہو چکا ہے، مصر کی یونیورسٹیوں میں بنی ہوئی سب مسجدوں میں اللہ کی بندگی ادا کیئے جانے کے عوض اجر و ثواب پا رہا ہےاور رہتی دُنیا تک اسی طرح اجر پاتا رہے گا۔ اس طالب علم نے اپنی زندگی میں کار خیر کر کے نیک اعمالوں میں اضافہ کیا۔
میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ
ہم نے اپنی زندگیوں میں ایسا کونسا اضافہ کیا ہے؟ تاکہ ہمارا اثر و رسوخ ہمارے گردو نواح کے ماحول پر نظر آئے، ہمیں چاہیئے کہ اپنے اطراف میں نظر آنے والی غلطیوں کی اصلاح کرتے رہا کریں۔ حق و صدق کہنے اور کرنے میں کیسی مروت اور کیسا شرمانا؟ بس مقاصد میں کامیابی کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی دعا مانگتے رہیں۔
اور اسکا فائدہ کیا ہوگا؟
· اپنے لیئے اور دوسرے کیلئے سچائی اور حق کا علم بُلند کر کے اللہ کے ہاں مأجور ہوں کیونکہ جس نے کسی نیکی کی ابتداء کی اُس کیلئے اجر، اور جس نے رہتی دُنیا تک اُس نیکی پر عمل کیا اُس کیلئے اور نیکی شروع کرنے والے کو بھی ویسا ہی اجر ملتا رہے گا۔
· لوگوں میں نیکی کرنے کی لگن کی کمی نہیں ہے بس اُن کے اندر احساس جگانے کی ضرورت ہے۔ قائد بنیئے اور لوگوں کے احساسات کو مُثبت رُخ دیجیئے۔
· اگر کبھی اچھے مقصد کے حصول کے دوران لوگوں کے طنز و تضحیک سے واسطہ پڑے تو یہ سوچ کر دل کو مضبوط رکھیئے کہ انبیاء علیھم السلام کو تو تضحیک سے بھی ہٹ کر ایذاء کا بھی نشانہ بننا پڑتا تھا۔
کچھ احباب کے کہنے پر میں نے اپنی اکثر تحاریر کو یہاں اپنے بلاگ پر جمع کیا ہے۔ میں آپکو اپنے بلاگ پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں نے کس طرح ترجمہ کرنا شروع کیا جاننے کیلئے یہاں کلک کیجیئے۔ جبکہ میرا مختصر تعارف یہاں موجود ہے۔ میری سابقہ ساری تحاریر پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں ۔
اپنی دعاؤں میں یاد رکھئیے - محمد سلیم/شانتو -چائنا
Saturday, May 21, 2011
اورنگ آباد کی قدیم تہذیبی اقدارکے فروغ کیلئے اردو مراٹھی مشاعروں پر کارپوریشن ۱۵ ؍ لاکھ خرچ کرے گی
اورنگ آباد کی قدیم تہذیبی اقدارکے فروغ کیلئے اردو مراٹھی مشاعروں پر کارپوریشن ۱۵ ؍ لاکھ خرچ کرے گی
صدر جمعتہ علماء حاجی خلیل خاں کارپوریٹر کے اعزازی کل ہند مشاعرہ نے کامیابی کی نئی تاریخ مرتب کردی
اورنگ آباد ، ۲۱ ؍مئی ، پریس ریلیز
اورنگ آباد جمعتہ علماء کے فعال صدر حاجی خلیل خاں (کارپوریٹر) کی ۴۴ ویں سالگرہ کے پر مسرت موقع پر دکن کلچرل اینڈ اسپورٹس ایسوسی ایشن اور نگ آباد کی جانب سے ان کی تعلیمی سماجی سیاسی و ملی خدمات کے اعتراف میں ۲۰ ؍ مئی کی تاریخی شام موصوف کے نام کی گئی اعزازی مشاعرہ کا افتتاح مئیر اورنگ آباد محترمہ انیتا تائی گھوڑیلے نے کرتے ہوئے حاجی خلیل احمد کی سیاسی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے سماجی جذبہ و تڑپ کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا بعد ازیں مئیر محترمہ نے صدر مشاعرہ سید ناصر قادری ( ایڈیشنل کلکٹر) کی تجویز پر فور ی عمل کرتے ہوئے اعلان کیا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں کارپوریشن کی جانب سے اردو اور مراٹھی کے ادبی مشاعروں کے انعقاد کیلئے پندرہ لاکھ روپیہ کی رقم مختص کی جائے گی اور یہ دونوں مشاعرے اسی مالی سال میں منعقد ہوں گے ۔
قبل ازیں صدر مشاعرہ سید ناصر الدین قادری نے کہا کہ اورنگ آباد قدیم تہذیبی مرکز ہے یہ شہر شمالی و جنوبی ہند کی تہذیبوں کا سنگم ہے دنیائے اردو ادب کو اسی مرکز فکر و فن اورنگ آباد نے غزل کا تحفہ دیا۔ جس کے خالق ولی دکنی تھے ۔ انھوں نے منتظمین کو اس بات کیلئے مبارکباد ہیش کی کہ اس مشاعرکو ولی و سراج سے منسوب کیا گیا صدر نشین نے کہا کہ ولی ،سراج محمود ، سکندر علی وجد، قمر اقبال ، قاضی سلیم سے لیکر بشر نواز تک اس سر زمین پر قابل فخر ادباء و شعراء پروان چڑھے ہیں اسلئے اس تہذیب کی حفاظت اور نئی نسلوں تک منتقلی کا فریضہ ہم اسی طرح کے مشاعروں کے ذریعے ہی کرسکتے ہیں۔ لہذا میونسپل کارپویشن کو چاہئے کہ وہ ہر سال کل ہند نوعیت کے بڑے بڑے مشاعروں کا اہتمام کرے جس کیلئے کم از کم پندرہ لاکھ کا بجٹ مختص کیا جائے ۔ صدر مشاعرہ نے سابق مئیر رشید ماموں کی ادب نوازی پر بھی جم کر داد دی اور کہا کہ آج جس مرکز علم و فن مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کی شاندار عمارت میں ہم لوگ جمع ہیں یہ مرکز رشید ماموں کے دور میں تعمیر کروایا گیا تھا۔ صدر مشاعرہ نے یہ بھی کہا کہ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر غزل نے اپنے رنگ روپ کو بدل لیا ہے آج کی غزل کی معشوقہ سماج ہے جس شاعری میں سماج کیلئے کوئی پیغام نہ ہو وہ شاعری بے معنی ہے وقت کی بربادی ہے انھوں نے شعرائے کرام سے التجا کی کہ دلوں کو جوڑنے والی شاعری کریں جذبات کو بھڑکانا آسان ہے اسے قابو میں رکھنا مشکل ہے ۔ شاعری میں رواداری ، امن امان اخوت و بھائی چارہ پر زور دیا جائے کیونکہ یہ آج ہماری سماجی ضرورت بن چکی ہے۔
اس موقع پر صاحب اعزاز حاجی خلیل خاں کی خدمت میں مشاعرہ کمیٹی کی جانب سے اور معززین شہر مختلف اداروں تنظیموں کی جانب سے پھولوں کے ہار شال اور گلدستے پیش کئے گئے شریک مہمانوں میں بشر نواز کارپوریٹر گھوڑیلے ، شعیب خسرو ، رشید ماموں ، حکیم سلیمان خاں ، پروفیسر قاسم امام ( ممبر سکریٹری اردو اکیڈمی ،ممبئی ) ، نظام الدین فاروقی (اردو ٹائمز ممبئی ) اور کئی معززین موجود تھے ۔سبھی مہمانوں کا خیر مقدم کنوینرس مشاعرہ غضنفر جاوید، خالد محمود خاں ، سالک حسن خاں نے استقبال کیا۔ ناظم مشاعرہ اثر صدیقی کی دلنشین تمہیدی تقریر کے ساتھ صالح تابش کی مترنم نعت سے ہوا بعد ازیں ممبئی کے معروف حکیم سلیمان خاں طور نے اپنا کلام پیش کرکے مشاعرہ کی فضا بنادی ۔
رات ۲ بجے تک جاری رہے اس مشاعرہ کو سننے کیلئے اورنگ آباد کے ہر طبقہ و حلقہ کے باذوق افراد کی کثیر تعداد میں شریک رہے۔ جس کے سبب مولانا آزاد ریسرچ سینٹر کا پر شکوہ ہال اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا۔ ہال کے وسیع کھلے لان میں کلوز سرکٹ ڈسپلے سے بھی سینکڑوں ناظرین مستفیض ہوئے مشاعرہ میں اپنا کلام سنانے والوں میں بشر نواز میر ہاشم ، اشوک ساحل، اشفاق مارولی ، ظہیر قدسی ، پروفیسر قاسم امام ، شکیل قریشی ، چراغ الدین چراغ ، مسعو د خاں ، امی احمد آبادی ، ڈاکٹر جلیل الرحمن ، حامد بھساولی ، صالح بن تابش، ریکھا روشنی ، پروفیسر عائشہ سمن ، عطا حیدر آبادی ، سراج شولا پوری ، فیروز رشید شامل تھے۔مشاعرہ و تقریب تہنیت کی کامیابی پر صاحب اعزاز خلیل خاں کا رپوریٹر نے تمام شرکاء و معاونین کا شکریہ ادا کیا۔
فوٹو کیپشن :تہنیتی کل ہند مشاعرہ میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے سید ناصر قادری اسٹیج پر موجود دیگر معززین
***